عالمِ مسیحیت کے سوادِ اعظم نے ایک نئے مذہبی پیشوا کا انتخاب کر لیا۔یہ کلیساکی تاریخ میں ایک نئے عہد کا آغاز ہے۔جدید تاریخ میںپہلی بار مسیحیت کی قیادت یورپ سے باہر نکلی اور لاطینی امریکا کو منتقل ہو ئی ہے۔اس خطے میں کیتھولک فرقے کے چالیس فی صد وابستگان آباد ہیں۔ارجنٹائن کے نئے پوپ ماریو برگوگلیواگرچہ قدامت پسندانہ خیالات رکھتے ہیںلیکن ان کی ذات میں کچھ اس کے سوا بھی ہے۔ اسی سے یہ تاثر پھیلا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسیحیت کا ایک نیا کردار سامنے آئے گا۔ میرے نزدیک یہ کردار عالمی سطح پر جو سیاسی اور سماجی اثرات مرتب کرے گا،اس کا براہ راست تعلق مجھ سے بھی ہے ،اس لیے میںاِس تبدیلی سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ مذہب کو ہر دورمیں’ علمِ جدید‘ کا چیلنج درپیش رہا ہے۔ہر عہد میںاسے اپنا مقدمہ نئے انسان کے رُوبُرو ثابت کرنا ہو تا ہے۔یہی سبب ہے کہ تجدید و احیاکی ایک روایت ہے جس سے کسی مذہب کی تاریخ خالی نہیں۔اسلام جو الہامی مذاہب کا جدیدترین اور سب سے مستند ایڈیشن ہے،اس کی روایت میںبھی مجتہدین مو جود ہیں جو تفہیم ِ نو کی ذمہ داری ادا کرتے رہے ہیں۔دیگر مذاہب کو بدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ہے۔کیتھولک چرچ چند سالوں سے ایک بحران کی زد میں تھا۔مذہبی پیش واؤں کی اخلاقی گراوٹ نے کلیسا کی روحانی فضا کو مکدر کر دیا تھا۔بچوں کے جنسی استحصال کی کہانیاں عام تھیں اور یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ ایسے واقعات کی روک تھام میں کلیسا کی قیادت مو ثر نہیں رہی۔پوپ کے استعفے کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا تھا۔اس پس منظر میں جب گزشتہ جمعہ کو نئے پوپ کا انتخاب ہوا تو یہ سوال زیرِبحث آیاکہ نئے پوپ کیا کلیسا کی ساکھ کو بحال کر سکیں گے؟ اخلاقی زوال پرعلمِ جدید کا چیلنج مستزاد ہے۔اس کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جا ئے تو یہ ’لبر ل ازم‘ہے۔ویٹی کن خواتین کی مذہبی پیشوائی کو قبول نہیں کرتا۔یہ ہم جنسی کو جائز نہیں ٹھہراتا۔یہ اسقاطِ حمل کا حق بھی نہیں دیتا۔لبر ل ازم اس موقف کو ردکر تاہے۔ اس کا مقد مہ یہ ہے کہ انسان آزاد اور خود مختار ہے۔وہ اپنے وجود کا مالک ہے،اس لیے اس پر کوئی پابندی روا نہیں۔یہی نہیں، وہ کسی الہامی ہدایت کو مانتا ہے نہ زندگی بعد موت کو۔اس کے برخلاف مذہب اصلاً ایک مابعد الطبیعیاتی تصور ہے اور دنیا کو عارضی قرار دے کر دائمی نجات کے لیے اس پر کچھ پابندیاں عائد کر تا ہے۔سوال یہ ہے کہ نئے پوپ جو ان مسائل میں ویٹی کن کے معلوم موقف کے مویّدہیں، کیا لبرل ازم کے اس چیلنج کا سامنا کر سکیں گے؟ میرا خیال ہے وہ ان مسائل پر شاید کلیسا کے روایتی موقف کو تسلیم نہ کر سکیں لیکن ایک دوسرے زاویے سے مذہب کا جواز پیدا کر نے کی کوشش کریں گے۔ایک یہ کہ مذہب کا روحانی اور اخلاقی پہلو نمایاں کیا جا ئے۔ دوسرا یہ کہ اسے ایک انسان دوست نقطہ نظر ثابت کیا جائے۔افادیت پسند(utilitarianist) جدید ذہن تک رسائی کے شاید یہی دو دروازے ہیں۔پوپ برگوگلیوکے ماضی کو سامنے رکھیں تو اسی کے اشارے ملتے ہیں۔اُن کی شہرت ایک غریب پروراور انسان دوست آ دمی کی ہے۔انہوں نے ایک محل نما گھر کو چھوڑااور ایک عام اپارٹمنٹ میں رہنا پسند کیا۔وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرتے ہیں۔اپنا کھانا خود پکاتے ہیں۔ایک بار وہ ہسپتال گئے اور مریضوں کی عیادت کی۔ ہسپتال کے عملے سے پانی کا ایک جگ منگوایا۔وہاں مو جود ایڈز کے بارہ مریضوں کے پاؤں دھوئے اور پھر ان پر بو سہ دیا۔اسی طرح ایک بار چند بن باپ کے بچے لائے گئے تو روایتی پادریوں نے انہیں بپتسما دینے سے انکار کیا۔پوپ برگوگلیونے اس پر احتجاج کیا اور کہا کہ ان بچوں کا کیا قصور ہے۔انہیں خدا کی بادشاہی اور نجات میں سے حصہ ملنا چاہیے۔ان کے بارے میں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مضافات میں جاتے اور غریب بستیوں میں کام کرتے ہیں۔پوپ بینی ڈکٹ کا رویہ اس کے بر خلاف تھا۔ وہ اعیانی مزاج کے آ دمی تھے اور عام افراد سے فاصلہ رکھتے تھے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے لیے فرانسس کا لقب پسند کیا ہے۔یہ بارہویں صدی کے عظیم مسیحی مذہبی شخصیت سینٹ فرانسس کی روایت سے وابستگی کا اظہارہے۔ ان کی شہرت ایک غریب پرور اور عوام دوست کی تھی۔وہ دولت اور جائداد کے خلاف تھے۔ان کے بارے میں داستانیں مشہور ہیں کہ پرندوں سے ہم کلام ہوتے تھے اور بھیڑیوں کو رام کر لیتے تھے۔وہ فطرت سے محبت کرتے تھے اور مظلوموں کے حق میں آواز اٹھاتے تھے۔نئے پوپ نے خود کو بینی ڈکٹ کی بجائے فرانسس کہلوانا پسند کیا ہے۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ نئے عہد میں کیتھولک مسیحیت کے تعارف میں انسان دوستی اور غریب پروری نمایاں ہو گی۔ میڈیا کے نمائندوں سے اپنی پہلی ملاقات میں بھی انہوں نے ’غریبوں کے کلیسا‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔اس سے پہلے وہ اخلاقی اور روحانی تربیت کی بھی بات کرتے رہے ہیں۔ کلیسا اگرچہ مغرب کی سیاسی و سماجی زندگی میں زیادہ مو ثر نہیں رہا لیکن اس کے باوصف لوگ اپنی مذہبی شناخت کے لیے مسیحیت کو اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے وہ پوری طرح مذہب سے لاتعلق نہیں ہوسکے۔اس لیے کلیسا آج بھی عالمی اور سماجی مسائل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اگر کیتھولک چرچ غربت اور ظلم کو اپنا ہدف بنا لے تو میرا خیال ہے کہ مذہب کے بارے میں آج مغرب میں جوعدم توجہی پائی جاتی ہے،اس میں کمی آ سکتی ہے۔اس سے مسلم مسیحی تعلقات پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔بین المذاہب ہم آ ہنگی کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کے علم بردارمشترکہ اخلاقی اقدار پر کھڑے ہو جا ئیں۔آج چو نکہ مسیحیت کے ماننے والے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں،اس لیے کیتھولک چرچ اس معا ملے میں بہت موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔اسی طرح لبرل ازم کے چیلنج کا سامنا بھی مذہبی ہم آ ہنگی سے کیا جا سکتا ہے۔آج سماجی معاملات میں ویٹی کن کی جو رائے ہے،اسلام بھی یہی نقطہ نظر رکھتا ہے۔ہماری اخلاقی روایت میں بھی انسان مطلق آزاد نہیں بلکہ اللہ کا بندہ ہے اوراس حوا لے سے اس پر کچھ پابندیاں عائد ہیں۔اگر اس حوالے سے بھی کلیسا کی طرف سے مکالمے کا آ غاز ہو تو مغرب کے کثیر المدنی(pluralist) سماج میں لبرل ازم کے مقابلے میں مذہب کا مقدمہ مضبوط ہو سکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مذہب کا اصل وظیفہ انسان کے اخلاقی وجود کی تطہیر ہے۔ہماری روایت میں اسے تزکیہ کہا جا تا ہے۔اگر ہر مذہب اپنے ماننے والوں کے اخلاقی وجود کو اپنا مخاطَب بنائے توانسانی سماج کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔عالمِ مسیحیت کی مذہبی پیشوائی اگر’ بینی ڈکٹ ‘سے’ فرانسس ‘کی طرف منتقل ہو تی ہے تواس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اس زمین پر خیر میں اضافہ ہو گا۔پوپ جان پال دوم کے بارے میں گوربا چوف نے کہا تھا کہ سرد جنگ کے خاتمے میں ان کابھی کردار ہے۔اگر فرانسس اوّل ظلم کے خاتمے اورانسان دوستی لے لیے کلیسا کو متحرک کر سکیں تو آنے والے دنوںمیں مذاہب کے مابین کشیدگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔مذہب انسانی زندگی کا حسن ہے۔ تجدید و احیا میرے نزدیک یہی ہے کہ مذہب فرد اورسماج کی تطہیر میں ایک موثر کردار ادا کرے۔فرد کی اصلاح ہوئی تو اس کی آخرت سنور جائے گی۔ سماج صاف ستھرا ہو گیا تو یہ زمین جنت بن جا ئے گی۔