حسینہ واجدکا مسئلہ پاکستانی فوج نہیں، قوم ہے۔جن لوگوں نے ڈھاکہ میںکرکٹ کے ایشیا کپ کا فائنل دیکھا ہے،وہ اس کے عینی گواہ ہیں۔چند پاکستانی اہلِ دانش کے لیے ایوارڈ کسی محبت کا نہیں،بغض کا اظہار ہے۔وہ1971ء کے شب وروز میں الجھ گئیں۔جیسے ہمارے ہاںکچھ لوگ 1947ء سے نہیں نکل پائے۔تاریخ کی اسیری مرض ہے جو اکثرقوموں کو لاحق ہو جاتا ہے ۔اس سے شفا لازم ہے کہ یہ ارتقا کو روک دیتی ہے۔ ہند تقسیم ہو گیا۔اب غلط یا صحیح کی بحث نظری ہے۔فیصلے تو اس بنیاد پر ہوں گے کہ پاکستان ایک آ زاد ملک کا نام ہے اور اسی طرح بھارت بھی۔دونوں کے مابین معاملات کو دو قوموں کے باہم تعلقات کی روشنی میں سمجھنا ہوگا۔ایسے ہی جیسے پاکستان اور ملائشیا کے یا پھر بھارت اور عراق کے تعلقات ہیں۔اگر بھارت یا پاکستان میں ایسی سیاسی قیادت بروئے کارآتی جو باہمی تعلقات کوتاریخی کے بجائے واقعاتی تناظر میں دیکھتی تو آج جنوبی ایشیا ایک خوش حال علاقہ ہوتا۔لوگ ایٹمی جنگ کے خوف میں نہ جیتے۔قائد اعظم کا وژن اگر اس معا ملے میں راہ نما ہو تا اور ہم پاک بھارت تعلقات کو امریکا کینیڈا تعلقات کی طرح آگے بڑھاتے تو سب کے لیے خیر ہو تا۔بھارت یہ کر سکانہ ہم۔سب تاریخ کے اسیرہو گئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دائمی دشمن ہیں۔اب نئی نسل دشمنی کا بو جھ اٹھائے آگے بڑھ رہی ہے۔کیا پاکستان ا ور بنگلہ دیش کے تعلقات کو بھی اسی نہج پر آگے بڑھنا ہے؟ آج اس سوال کا سب سے زیادہ مخاطب حسینہ واجد ہیں۔ وہ اس خطے کے روایتی لیڈروں کی طرح نفرت کی سیاست کر رہی ہیں۔جیسے پاکستان میں کچھ لوگ بھارت دشمنی کو سیاست کی بنیاد بنا تے ہیں۔ان کے نزدیک حب الوطنی کا تقاضا یہی ہے۔جنرل حمیدگل نو حہ کناں ہیں کہ فوج نے بھارت کے بجائے دہشت گردی اور داخلی قوتوں کو قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑاخطرہ کیوں قرار دیا۔حسینہ واجد بھی اپنی قوم کو اسی راہ پر لگا نا چاہتی ہیں کہ وہ غربت اور افلاس کے بجائے پاکستان کو اپنا سب سے بڑا مسئلہ سمجھے اور یوں عوامی لیگ قوم کی نجات دہندہ بن کر سامنے آئے۔پاکستان اگر بنگالی عوام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہو گا تو اس سے بچاؤ کے لیے حسینہ واجد ہی کا نام آئے گا۔کاش وہ 1947ء کے واقعات سے سبق سیکھ سکتیں اور اس غلطی کو نہ دہراتیں جوپاکستان اور بھارت کے اہلِ دانش اور اہلِ سیاست کر چکے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ آج برِ صغیر کا جغرافیہ کم و بیش وہی ہے جو کیبنٹ مشن نے تجویز کیا تھا،محض ایک فرق کے ساتھ۔ مشن نے اس خطے کو تین گروپس میں تقسیم کیا تھا۔گروپ اے آج کابھارت ہے۔ گروپ بی آج کاپاکستان اور گروپ سی آج کا بنگلہ دیش ،اس فرق کے ساتھ کہ کیبنٹ مشن نے آسام کو سی گروپ میں رکھا تھا۔ آسام اب بھارت کا حصہ ہے۔آسام میں آئے دن جو فسادات ہوتے ہیں،یہ نہ ہوتے اگر یہ بنگلہ دیش کا حصہ ہوتا۔ کیبنٹ مشن نے ان گروپس کو ایک یونین ہی میں شامل رکھا، تاہم ہر گروپ کو یہ حق دیا گیا کہ وہ دس سال بعد چاہے تو یونین سے الگ بھی ہو سکتا ہے۔مکمل آزادی کا ایک راستہ چو نکہ اس میں مو جود تھا،اس لیے قائد اعظم نے بھی ابتدا میں اسے قبول کرلیا۔آج کا بر صغیر کم و بیش وہی ہے،اس لیے کیبنٹ مشن کی تجویز کو اس وقت حکیمانہ سمجھا گیا جسے نہرو اور سردار پٹیل کی بے بصیرتی نے سبو تاژ کر دیا۔بر صغیرکا مو جودہ نقشہ یہ بتا تا ہے کہ یہاں اب کسی بڑی جغرافیائی تبدیلی کا امکان نہیں۔اس کا مطلب ہے کہ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کو جغرافی حقیقت مانے بغیر کسی کے پاس کوئی چارہ نہیں۔اس کا مطلب ہے کہ بھارت کو یہ تسلیم کر نا ہو گا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش زمینی حقیقتوں کا نام ہے۔علی ہٰذالقیاس۔ اسی بات کو آگے بڑھائیں تو بنگلہ دیش کو پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا نا ہو گا۔دشمنی کو زندہ رکھنا کسی طرح بنگلہ دیش کے مفاد میں نہیں، جس طرح بھارت سے دشمنی پاکستان کے حق میں نہیں۔حسینہ واجد اگر اس بات کا ادراک کر سکیں تو پاکستان اور بھارت کے خوش گوار تعلقات دونوں ممالک کے لیے خوش حالی کی نوید بن سکتے ہیں۔اگر ۱۹۷۱ء کے حادثے کو تاریخ کے حوالے کر دیا جائے تو پاکستان اوربنگلہ دیش کے مابین حکومتی اور عوامی سطح پر قرب کے بے پناہ امکانات مو جود ہیں۔مجھے گزشتہ چند برس میں دو بار بنگلہ دیش جانے کا موقع ملا۔ میں نے یہ جاننے کے لیے وہاں کی گلیوں بازاروں میں بہت وقت گزارا کہ ایک عام آ دمی پاکستان کے بارے میں کیا خیالات رکھتا ہے۔میں نے یہ جانا کہ وہاں اب ایک ایسی نسل جوان ہو چکی جس کا جنم ۱۹۷۱ء کے بعد ہوا۔بنگلہ دیش کا قیام اُس نسل کا براہ راست تجربہ نہیں ہے،اس لیے وہ تاریخ کی اسیر نہیں ہے۔ملائشیا کی ایک خاتون بھی اس سفر میں میرے ساتھ تھیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ایک عام دکان دار ،رکشے والے یا شہری کے لیے میں کسی طرح بھی اس خاتون سے مختلف نہیں۔ ہم دونوں اُس کے لیے ایک جیسے غیر ملکی ہیں جن سے اسے کوئی خاص محبت ہے نہ خاص نفرت۔گویا یہ بنگالی قوم کا مطالبہ بھی نہیں ہے کہ پاکستان سے دشمنی کی جائے۔ جماعت اسلامی کے ساتھ حسینہ واجد کی نفرت دراصل پاکستانی قوم اورفوج سے نفرت کا اظہار ہے۔اُن کا جرم یہ ہے کہ ا نہوں نے فوج کا ساتھ دیا۔یہ واقعہ ہے کہ جماعت اسلامی مشرقی پاکستان میں کسی فوجی آ پریشن کے حق میں نہیں تھی۔بحران کے دنوں میںیحییٰ خان جب ڈھاکہ کے دورے پر گئے تووہاں کے سیاست دانوں سے ایک ملاقات کی۔ خرم مرادمرحوم، ڈھاکہ جماعت کے امیر تھے۔انہوں نے اس مجلس میں یحییٰ خان کو فوجی آپریشن سے روکا اور یہ جملہ کہا کہ اگر طاقت اور بندوق سے کوئی اصلاح ممکن ہو تی تو اللہ تعالیٰ پیغمبروں کی بجائے فیلڈ مارشل مبعوث کرتے؛ تاہم مغربی پاکستان کی جماعت اسلامی اس کا ادراک نہ کر سکی اور انہوں نے فوجی آپریشن کی حمایت کی۔یہ ایک غلطی تھی لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اُس وقت مکتی باہنی جیسی تنظیموں اور بھارتی اثرو رسوخ کے مقا بلے میں کس کا ساتھ دیا جاتا؟ اس باب میں دو آرا ہو سکتی ہیں۔لیکن جب بنگلہ دیش بن گیا تو اس کے بعد بنگلہ دیش جماعت اسلامی کی حب الوطنی شک و شبے سے بالا تر رہی۔اب بھی جماعت کے وابستگان پرجو مقدمات بنے ہیں،اُن کا تعلق اسی عہد سے ہے۔ان مقدمات کی حقیقت بھی انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور میڈیا نے واضح کر دی۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش ایک قابلِ ذکرعصبیت کی حامل ہے۔ وہ خالدہ ضیا کے ساتھ مل کر وہاں حکومت بنا چکی۔اُس کے خلاف اگر ریاستی قوت استعمال ہوگی تو عوامی ردِ عمل ناگزیر ہے۔ظاہر ہے اس سے بنگلہ دیش کی معیشت اور سماج دونوں متاثر ہوں گے۔بطور پاکستانی مجھے اس پر افسوس ہو گا۔ حسینہ واجد نے اب کچھ پاکستانیوں کو ایوارڈ دیا کہ انہوں نے فوجی آپریشن کی مخالف کی ۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب یہ پاکستان کا داخلی معاملہ تھا۔کسی ملک کاایک شہری یہ حق رکھتاہے کہ وہ حکومتی یا ریاستی اداروں کے کسی اقدام کو غلط سمجھے تو اُس پرتنقید کرے۔ اگر جبر کا اندیشہ ہو جو فوجی اقتدار میں ہوتاہے تو یہ بلاشبہ عزیمت کی بات ہے۔جن لوگوں نے اُس وقت فوجی اقدام کو پاکستانی مفادات سے متصادم قرار دیا، اُن کی رائے صائب تھی اور وقت نے اُس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔لیکن سوال یہ ہے کہ حسینہ واجد نے ایسا کیوں کیا؟ میرا خیال ہے یہ پاکستانی فوج اور عوام کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔وہ دونوں میں فرق نہیں کرتیں۔اگر ایسا ہوتا تو کرکٹ کے ایشیا کپ میں پاکستان کی کامیابی انہیں اتنی ناگوار نہ گزرتی کہ وہ پاکستانی کپتان کو کپ دینے سے انکار کر دیتیں اور اٹھ کر چلی جاتیں۔ کرکٹ ٹیم فوج کی نہیں، پاکستان کی نمائندہ تھی۔ تاریخ کی یہ اسیری بنگلہ دیش کے لیے مناسب ہے نہ پاکستان اور بھارت کے لیے۔یہ ایسا مرض ہے جو قوموں کے ارتقا کو روک دیتا ہے۔اس سے شفا ہی میں سب کا بھلا ہے۔