حیدر آباد میں ایم کیو ایم کا امیدوار قتل ہو گیا۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ اُن کے ہاتھوں ہوا۔ اس حادثے نے اس خیال کو تقویت پہنچائی ہے کہ آنے والے انتخابات پُر تشدد ہوسکتے ہیں۔اس خبر کا یہ پہلو کم اہم نہیں ہے لیکن بعض دوسرے پہلو بھی ہیں جو ہماری توجہ چاہتے ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ نسلی اور لسانی تعصبات مئی کے انتخابات میں بہت اہم کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔سیاسی جماعتیں اس میں شبہ نہیں کہ مضبوط ہوئی ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں برادری اور لسانی عصبیتیں بھی بدستور متحرک ہیں اورحسبِ سابق انتخابات کے نتائج پراثراندازہونے والی ہیں۔اے این پی اور ایم کیو ایم عرفِ عام میں سیاسی جماعتیں ہیں لیکن دراصل یہ نسلی و لسانی عصبیت کی سیاسی صورت گری ہے۔ کراچی کی سیاست میں ان کے کردارنے ایک تشویش ناک صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ سیاسی منشور کو دیکھیے تو ایم کیو ایم اور اے این پی دونوں سیکولرہیں۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی یہی دو جماعتیں ہیں جو اعلانیہ سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔اس سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوتیںلیکن کراچی میں مفادات کے تصادم نے دونوں کو متحارب بنا دیا ہے۔ کراچی میں اے این پی کی حکمتِ عملی خیبر پختون خوا کی تنظیم سے قطعاً مختلف بلکہ متصادم ہے۔پختون خوا میں یہ طالبان سے برسرِ پیکارہے لیکن کراچی میں پختون عصبیت نے دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ اے این پی کراچی میں طالبان کی مخالفت نہیں کرسکتی کیونکہ وہ پختون ہیں۔وہاں طالبان دو حوالوں سے اے این پی کے لیے اثاثہ ہیں۔ ایک تو پختون عصبیت ہے اور دوسرا یہ کہ اگر فریقِ ثانی کی طرف سے تشدد کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے تو طالبان اس کا جواب ہیں۔ حیدر آباد میں ایم کیو ایم کے امیدوار کے قتل کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو بات زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اے این پی کیا اس تضاد کو نبھا سکے گی؟ افغانستان کے حالات اور پختون خوا کی سیاست کا تقاضا یہ ہے کہ اے این پی خود کو طالبان مخالف قوت کے طور پرپیش کرے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اے این پی اس خطے میں بطور ِ خاص طالبان کا ہدف رہی ہے۔آج اس کے لیے انتخابات میں کوئی نعرہ ہو سکتا ہے تو یہی کہ اس نے طالبان کا سامنا کیا ہے۔عالمی قوتوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت یہی چہرہ اس کی مدد کر تاہے۔تاہم شاہی سید کا مسئلہ دوسرا ہے۔ کراچی میں ان کا سامنا ایم کیو ایم سے ہے۔اگر وہ طالبان کے خلاف ہوتے ہیں تو پختون عصبیت کی نمائندگی طالبان کو منتقل ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں مجھے خدشہ ہے کہ کراچی افغانستان کا منظر پیش کر سکتا ہے۔اس کے آثارمو جود ہیں۔ افغانستان میں موجود سیاسی نظام عوام کو خیر پہنچانے میں ناکام ثابت ہوا۔ملک بد امنی کی آماجگاہ بن گیا۔اُس وقت بطور نجات دہندہ طالبان کا ظہور ہوا۔ایک طرف وہ پختون عصبیت کی علامت تھے اور دوسری طرف انہوں نے عام شہریوں کو ’’امن اور انصاف‘‘ دینے کا وعدہ کیا۔یوں ایک شورش زدہ ملک پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ کراچی میں یہ عمل باندازِ دیگر جاری ہے۔سیاسی حکومت عوام کو امن اور انصاف فراہم نہیں کرسکی۔ اس باب میں اس کی ناکامی نوشتہ ء دیوارہے۔اسی عرصے میں طالبان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے بعض علاقوں میں متبادل حکومت بھی قائم کر لی۔ عدالتیں قائم ہو گئیںاور اب فیصلے سنائے جا رہے ہیں۔افغانستان میں طالبان اسی طرح ابھرے ہیں۔ ابتدا میں وہ موجود سیاسی نظام کی ناکامی کا رد عمل تھے۔ اس فضا میں شاہی سید اگر پختون عصبیت کی نمائندگی کرتے ہیں تو پھر طالبان کی مخالفت نہیں کر سکتے۔بصورتِ دیگر یہ خدشہ ہے کہ پختونوں کی حمایت طالبان کو منتقل ہو جائے۔افسوس یہ ہے کہ کراچی میں پُر تشدد سیاست کے جو بیج ضیاء الحق مرحوم نے بوئے تھے ، پیپلز پارٹی کی آب یاری سے آج وہ ایک لہلہاتی فصل ہے۔ پنجاب میں برادری ازم بدستور مستحکم ہے۔نو جوانوں کے بروئے کار آنے کا تصورکسی سیاسی حقیقت میں ڈھلتا دکھائی نہیں دے رہا۔میرا خیال ہے کہ بڑی جماعتوں کی طرف سے جیسے ہی امیدواروں کے انتخاب کا مر حلہ تمام ہو گا،آزاد امیدواروں کی ایک کھیپ نمودار ہو گی۔ظاہر ہے کہ یہ سب برادری ازم کی بنیاد پر انتخابات میں شریک ہو ں گے۔اُن کی ایک قابلِ ذکر تعداد کا منتخب ہو ناقرینِ قیاس ہے۔یہ لوگ حکومت سازی کے عمل میں ایک مو ثر کردار ادا کریں گے۔سبب یہی ہے کہ کوئی بڑی جماعت پارلیمان میںشاید ایسی اکثریت کی حامل نہ ہو کہ حکومت بنانے کے لیے دوسرے گروہوں سے بے نیاز ہو جائے۔ بلوچستان اور پختون خوا میں بھی بلوچ اور پختون عصبیتوں کے اپنے اپنے علاقے ہیں۔ہزارہ میں بھی برادریاں مو ثر ہیں۔مسلکی عصبیت بھی بعض مقامات پر مو جود ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ عصبیتوں کے حوالے سے آنے والے انتخابات کے نتائج بھی پچھلے انتخابی نتائج کی تکرار ہوں گے۔ یہ ممکن ہے کہ امیر مقام جیسے لوگوں کی ایک جماعت سے دوسری جماعت کی طرف مراجعت پارٹی پوزیشن کو بدل دے لیکن عصبیتوں کے حوالے سے بنیادی سماجی حقائق تبدیل نہیں ہوں گے۔ بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ ہزارہ میں ن لیگ، چارسدہ اورمردان میں اے این پی اور پشاور میں پیپلزپارٹی بھی کوئی کردار ادا کر سکتی ہے جبکہ بلوچستان کی پختون آ بادی میں جمعیت علمائے اسلام۔ جو عصبیتیں ہمیشہ موثر رہی ہیں، خیال یہی ہے اس بار بھی اپنا کر دار ادا کریں گی۔ان دونوں صوبوں میں ن لیگ اور تحریک انصاف بطور سیاسی جماعت مستحکم ہو ئی ہیں لیکن دونوں مو جودنسلی عصبیتوں سے بے نیاز نہیں ہو سکی ہیں۔امیر مقام جدید معنوں میں سیاسی قوت نہیں،ایک سیاسی عصبیت ہیں۔یہی معا ملہ پرویز خٹک وغیرہ کا بھی ہے۔اگر سیاسی جماعتیں اس سے بے نیاز ہو سکتیں تو ظفر اقبال جھگڑا آج پختون خوا کے ایک بڑے سیاسی راہنما ہوتے۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو شاید۱۱ مئی کو ہم کسی ایسی تبدیلی کی تو قع نہ رکھ سکیں جو لسانی و نسلی عصبیت کے اعتبار سے 2008ء سے مختلف ہو۔تحریک انصاف ایک ابھرتی ہو ئی سیاسی قوت ضرور ہے لیکن ابھی یہ طے ہو نا ہے کہ وہ نوجوانوں کو متحرک کر کے ایک نئی عصبیت پیدا کر سکتی ہے۔اسے جہاں برادری ازم کی بنیاد پر موثرامیدوار میسر آیا ہے، تحریکِ انصاف نے اسے ہی ترجیح دی ہے۔میانوالی کے پسرشیر افگن خان سے لے کر ٹیکسلا کے غلام سرور خان تک یہی سیاست ہے۔جہاں اُسے کوئی ایسا امیدوار میسر نہیں آ سکا،وہاں خیال یہی ہے کہ 2013ء میں تحریکِ انصاف کم و بیش وہی کردار ادا کرے گی جو 1993ء میں پاکستان اسلا مک فرنٹ ادا کر چکا۔یقیناً ہمارے ہاں سیاسی شعور بہتر ہوا ہے اور یہ جمہوریت کے تسلسل سے ممکن ہوا ہے لیکن ابھی بہت سفر باقی ہے۔لسانی ،نسلی اور مسلکی عصبیتیں آج بھی ماضی کی طرح مو ثر ہیں۔