جنرل کیانی کو یہ ضرورت کیوں پیش آئی کہ وہ ’’اسلام کا سپاہی‘‘ بن کر پاکستان اور اسلام کے لازوال تعلق کو بیان کریں اور بطورِ سپہ سالار اس تعلق کی توثیق کریں؟اس ملک کی آبادی بڑھتی رہی ہے لیکن مسلمانوں کا تناسب 97 فی صد سے کبھی کم نہیںہوا۔ ایسی ریاست کے تشخص پر مذہب کا غلبہ ایک بدیہی بات ہے، الّا یہ کہ سماج اجتماعی ارتداد کا مرتکب ہو۔ تاریخ کا مستند حوالہ اس کی پشت پر ہے۔اگر ایسا نہ ہوتاتو بھی اس ریاست کا نظری تشخص کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا تھا۔جس ملک میں ایک مذہب کے ماننے والے اتنی بڑی تعداد میں ہوں، وہاں ریاستی ادارے عوامی نظریات سے متصادم کوئی رویہ اختیار کر سکتے ہیں نہ حکمتِ عملی۔ فوج بھی ظاہر ہے اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ہماری فوج کی تربیت اگرچہ برطانوی طرز پر ہوئی اور اس کے ماحول پر برطانوی فوجی کلچر کا پر تو رہا لیکن پاکستان بننے کے بعد تدریجاً صورتِ حال کو بدلنا تھا اور ایسا ہوا بھی۔ ضیاء الحق مرحوم نے البتہ اس سارے عمل کو جس طرح مہمیز دی اس نے ہمیں ایک نئے رخ پر ڈال دیا۔ اسلام سے فوج کی وفاداری کو خاص مذہبی تعبیرات سے وابستہ کر دیا گیا اور اس کی وجہ 1980 ء کی دہائی میں آنے والی سیاسی تبدیلیاں تھیں۔افغانستان میں امریکہ کی دلچسپی بڑھی تو ’’عالمی جہاد‘‘کا تصور سامنے آیا۔پاکستانی فوج ہراول دستہ بنی اور اس کی معاونت کے لیے عسکری تنظیمیں قائم کی گئیں۔’’عالمی جہاد‘‘ کا تصور ایسی سرحدوں کو نہیں مانتاجو اِس وقت ممالک کے مابین موجود ہیں۔ اس کی فکری اساس ایک ایسے عہد کی تفہیم اسلام پر ہے جب دنیا دارالاسلام اور دار الحرب میں منقسم سمجھی جاتی تھی۔جدیدقومی ریاست اور بین الاقوامی امور کے تصورات اس تصور اسلام کے لیے اجنبی ہیںجو بیسویں صدی میں سامنے آئے۔ ضیاء الحق اس تبدیلی سے بے خبر تھے۔ اُن کو ادراک نہیں تھاکہ اسلام کے ساتھ رشتے کے باوصف پاکستانی فوج ایک قومی ریاست کی فوج ہے اور اس کا تصور جہاد اس عالمی جہاد سے مختلف ہو گاجو قدیم تعبیر کے زیرِ اثر وجود میں آیا ہے اورجس کی امریکہ اپنے مقاصد کے تحت آبیاری کر رہا ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ اس دوران میں غیر سرکاری عسکری تنظیمیں اور پاک فوج کے مابین قریبی تعلق تھا اور ظاہر ہے کہ عالمی برادری بھی امریکاکی قیادت میں اس کے ساتھ تھی۔ امریکی جرنیل‘ جنرل فضل ِحق کے ساتھ مل کر ’’اﷲاکبر‘‘ کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔یہ بات اب کئی ذرائع سے ثابت ہو چکی کہ سی آئی اے نے پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف موجود تعلیمی اداروںکے لیے جو قاعدے شائع کیے اس میں ’ا‘سے اﷲ ،’ج‘ سے جہاد‘‘کی تعلیم دی جاتی تھی۔ فوج پر اس کے اثرکو اگر کوئی مجسم دیکھنا چاہے تو کرنل امام کی صورت میں دیکھ سکتا ہے۔اس فہمِ دین کو ’’سٹریٹیجک ڈیپتھ ‘‘سے وابستہ کر دیا گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے تک تو عالمی جہاد کا تصور ہمارے قومی مفادات سے ہم آہنگ رہا،اس لیے ایک ’’قومی ریاست‘‘کے لیے مسئلہ نہیں بنا۔دہشت گردی کے خلاف جب پاکستان عالمی جنگ کا حصہ بنا تو صورتِ حال تبدیل ہو گئی۔اس عالمی تصور جہاد کے مطابق اب یہ امریکا اور اسلام کا معرکہ تھا اور لازم تھا کہ دنیا کے مسلمان اس جنگ میں امریکا کے مدِ مقابل صف آرا ہو جائیں۔پاکستان کے قومی مفادات اس میں مانع تھے اور اس ’’قومی ریاست‘‘کی فوج امریکا سے نہیں لڑ سکتی تھی۔اس مرحلے پر پاکستانی فوج کو ان طالبان کے خلاف صف آرا ہونا پڑا جو عالمی جہاد کے علم بردار تھے اور جن کے نزدیک موجودہ سرحدیںغیر شرعی تھیں اور وہ ان کے پابند نہیںہو سکتے تھے۔ پاک فوج تو سرحدوں کی پابند تھی۔ اب یہ سوال اُٹھا کہ ایک کلمہ گو دوسرے کلمہ گو کے خلاف کیسے تلوار اُٹھائے؟ اس سے عالمی تصورِ جہاد اورقومی ریاست کے مفادات میں وہ خطرناک تصادم نمودار ہوا جس نے فوج کی قیادت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔جب جہاد کے نام پر پاک فوج کے مراکز ہدف بنے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ’’سٹریٹیجک ڈیپٹھ‘‘ کا تصور ہمارے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو رہا ہے۔ جنرل کیانی اس موڑ پر فوجی قیادت میں شامل ہوئے۔ انہوں نے مذہب کے اس فہم کے اثرات بچشمِ سر دیکھے جس کی آبیاری جنرل ضیاء مرحوم نے کی۔ انہوں نے فوج کو، میرا تأثر ہے کہ ایک قومی فوج بنانے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ اس کی اساس بھی مذہب پر ہی تھی لیکن یہ تصورِ مذہب، اس فہم کا پابند نہیں تھاجو 1979ء کے بعد سے رائج تھا۔ اب عالمی تصورِ جہاد و خلافت کے علم بردار‘ جنرل کیانی سے مایوس ہونے لگے۔ ان حضرات کی طرف سے مجھے روزانہ ای میلز موصول ہوتی ہیںجن میں یہ کہا جا رہا ہے کہ جنرل کیانی ،جنرل مشرف ہی کا تسلسل ہیں۔سرخ ٹوپی والے نقیبِ جہاد کے سیکرٹری نے جو انکشافات کیے ہیںوہ اگر درست ہیں تو ان سے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح جنرل کیانی کی حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی ان لوگوں کو گوارا نہیں جو اب بھی دارالاسلام اور دارالحرب کی فضا میں زندہ ہیں۔ یہ وہ پسِ منظر ہے جس میں جنرل کیانی تنقید کا ہدف بنے اور اسلام کے ساتھ ان کی وابستگی کو متنازع بنانے کی سعی ہوئی ۔انہیں اپنا اور فوج کا دفاع کرنا تھا۔کاکول میں ان کا خطاب دراصل اسی پروپیگنڈے کا جواب ہے، جس کا سپہ سالار اور فوج دونوں شکار ہیں۔ جنرل کیانی اس وقت،یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک مصلح کا کردار ادا کر رہے ہیں۔وہ دراصل جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک کے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے،ان غلطیوں کی تلافی کرنا چاہتے تھے جنہوں نے پاک فوج کی ساکھ اور پیشہ ورانہ کردار،دونوں کو مجروح کیا۔ داخلی سیاست سے فوج کولا تعلق رکھ کر انہوں نے ایک غیر معمولی قدم اٹھایا ۔اس طرح وہ پاک فوج کے نظری تشخص کو برقرا رکھتے ہوئے اُسے عالمی سیاسی منظر نامے سے بھی دور کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ اس ادارے کی فکری تشکیلِ جدید ہو۔ موجود وسائل کے ساتھ ہماری فوج کی پیشہ وارانہ کارکردگی مسحور کن ہے۔ یہ مبالغہ نہیں کہ دنیا کی کوئی فوج شاید ہی اس کا مقابلہ کر سکے۔ضرورت تھی تو اس کی کہ فوج سیاست سے آلودہ نہ ہو اور اس کی عسکری صلاحیت پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے مختص ہو۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ جنرل کیانی یہی کام کرنے جا رہے ہیں۔ان کی تقریر کا شانِ نزول واضح ہے۔ عالمی جہاد کے تصور سے علیحدگی کا یہ مفہوم نہیں کہ پاک فوج کی نظریاتی شناخت متأثر ہوئی ہے۔اسلام اگر عوام کے دل میں ہے تو فوج اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو ہمیں جنرل کیانی کی کامیابی کے لیے دعا گو ہونا چاہیے۔پاک فوج کو آج ایک مصلح کی ضرورت ہے۔اگر جنرل کیانی یہ کام کر گزریں تو پھر وہ ایک فیلڈ مارشل کی طرح یاد رکھے جائیں گے۔وہ یقیناً اس سے با خبر ہو ں گے کہ اس کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہوگا۔ ایک تصور کی غلطی واضح ہو جائے تو اس سے رجوع کافی نہیں۔خلا فکری ہو یا عملی۔،تادیر باقی نہیں رہتا۔آج فوج کو ایک نئے اندازِنظر کی ضرورت ہے۔ ایک نیافکر کہ اسی سے جہاںِ تازہ کی نمود ہے۔