"KNC" (space) message & send to 7575

انتخابات کے بعد

ہیجان انتخابی مہم کا خاصہ ہے۔اہلِ سیاست عوامی جذبات کو مخاطب بناتے اور انتخابات کو جنگ میں بدل دیتے ہیں۔اب تو لوگ انتخابی معرکے کو بھی پانی پت کی جنگ کہنے لگے ہیں۔اصطلاحات اور الفاظ کا چناؤ دراصل اندازِ نظر کو ظاہر کرتے ہیں۔جس ملک میں چوراہوں کی زیبائش میزائلوں سے کی جائے،جانا جا سکتا ہے کہ اس کے شہریوں کا ذوق کیاہے۔انتخابی نشانات اور اصطلاحیں بھی اسی طرح اہلِ سیاست کے ذوق پر ناطق ہیں۔ سیاست دانوںاور ان کے وکلا کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جمہوریت جنگ سے بچنے کی ایک تدبیر ہے۔پہلے اقتدار کا فیصلہ تلوار سے ہوتا تھا،اب ووٹ سے ہونے لگا ہے۔جنگ سے جمہوریت کی طرف مراجعت انسانی تہذیب کا ایک اہم ارتقائی قدم ہے۔انتخابات میں جنگی فضا پیدا کرنا ترقی معکوس کا اظہار ہے۔کیا ہم پتھر کے عہد کی طرف لوٹ جانا چاہتے ہیں؟ تجزیہ یہی ہے کہ کوئی ایک جماعت غیر معمولی برتری حاصل نہیں کر پائے گی۔حکومت کی تشکیل کے لیے سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہو گی۔انتخابات میں تلخی اِسی طرح بڑھتی گئی تو بعد از انتخابات کا مرحلہ مشکل ہو سکتا ہے۔اگر سیاست دانوں کی بصیرت نے ایک نئی آزمائش کو آواز دی اور عوامی رائے کا احترام نہ کیا تو یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ ایک نیا امتحان ہمارا منتظر ہو گا۔ اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا 1970ء کے انتخابی نتائج پر ایک نظر ڈالیے۔یحییٰ خان کی ذمہ داری اپنی جگہ لیکن پیپلز پارٹی بھی اس میں حصہ دار تھی ۔جب ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو پیپلز پارٹی کو اس میں شریک ہونا چاہیے تھا۔اُس مو قع پربھٹو صاحب نے تاریخی جملہ کہا: ’’جو ڈھاکہ جائے گا،میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔‘‘کسی کی ٹانگیں نہ ٹوٹیں،ملک ضرور ٹوٹ گیا۔ابھی سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ بعد از انتخابات عمران خان1977ء کی طرح کی تحریک اٹھا سکتے ہیں۔یہ بات کچھ ایسی بعید از قیاس نہیں کہ تحریکِ انصاف اگر انتخابی معرکے میں سر خرو نہ ہو ئی تو وہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے۔جو لوگ اس جانب اشارہ کر رہے ہیں ،مناسب ہو گا کہ وہ 1977ء کی تحریک کے نتائج کو بھی سامنے لائیں۔ایک مارشل لا جو گیارہ سال مسلط رہا اور جس نے ہماری تہذیبی اور سماجی روایات کو برباد کر ڈالا۔ اہلِ سیاست کو ابھی سے اس امکان کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ گیارہ مئی کے بعد انہیں ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا پڑ سکتا ہے۔پیپلز پارٹی اس پر آمادہ ہے۔منظور وٹو صاحب نے کہا ہے کہ وہ عمران خان کو وزیرِ اعظم بنانے میں مددگار ہو سکتے ہیںاگر دونوں جماعتوں میں اشتراک ہوتا ہے۔ ن لیگ بھی دوسری جماعتوں کے ساتھ تعاون کا عندیہ دے رہی ہے۔ایم کیو ایم بھی آمادہ ہے۔مسئلہ صرف تحریک انصاف کا ہو گا۔عمران خان یہ کہہ چکے ہیں کہ منتخب ہونے کی صورت میںوہ صدر آصف زرداری سے حلف نہیں لیں گے۔یہ رویہ بھی قابلِ فہم نہیں۔وہ ملک کے آئینی صدر ہیں تو نئے وزیرِ اعظم کو ان ہی سے حلف لینا ہو گا۔میرا خیال ہے کہ عمران خان کو ابھی سے اس بارے میں سوچنا ہو گا کہ ان کو اگر سیاست میں رہنا یا اقتدار میں آنا ہے توانہیں دوسروں کے وجود کو قبول کر نا ہوگا۔سیاست میں تنہا پرواز ممکن نہیں ہوتی۔سیاست یہ بھی سکھاتی ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والوں سے مل کر کیسے رہا جا سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف کو اس جانب ضرور غور کرنا چاہیے ۔ انتخابی عمل کے دوران میں تحریک انصاف نے خود کو زمینی حقائق سے ہم آہنگ بنایا ہے۔یہ دہرانا تحصیلِ حاصل ہے کہ کیسے امیدواروں کے انتخاب میں اُس معیار سے صرفِ نظر کیا گیا،تحریک انصاف جس کی بات کرتی ہے۔میرے نزدیک یہ سیاست کی ناگزیر ضرورت تھی۔وجہ بڑی واضح ہے ۔یہ سماج فرشتوں پر مشتمل ہے نہ ہمیں ایک نئی دنیا آباد کرنی ہے۔اسی کو سامنے رکھتے ہوئے تحریکِ انصاف نے امیدواروں کا انتخاب کیا اور پارٹی عہدیداروں کا بھی۔دوسری سیاسی قوتوں سے معاملہ کرتے وقت بھی اس زمینی حقیقت کو پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔اگر شاہ محمود قریشی کو پارٹی کا وائس چیئرمین اور سرور خان کو امیدوار بنایا جا سکتا ہے تو نواز شریف یا منظور وٹو سے بھی معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ ا س متوقع اشتراک کا تقاضا ہے کہ اہل سیاست خود کو بعد از انتخابات ماحول کے بارے میں ابھی سے تیار کر یں۔انتخابی مہم میں تلخی کو اتنا نہ بڑھائیں کہ کل ساتھ بیٹھنے میں انہیں شرمندگی ہو۔جمہوریت ہمیں دوسروں کا احترام سکھاتی ہے ۔ہر کسی کو یہ حق دیتی ہے کہ وہ اپنا موقف آزادی کے ساتھ پیش کرے۔دوسروں کی غلطی بھی واضح کرے ،لیکن یہ سب کام شائستہ اسلوب میں بھی کیے جا سکتے ہیں۔ماضی قریب میں جب مولانا مودودی ،ممتاز دولتانہ اور نواب زادہ نصراﷲ خان جیسے سیاست دان تھے تو ہماری سیاست کا رنگ ڈھنگ کچھ اورتھا۔ وہ تو نظریاتی سیاست کا عہد تھا۔اس کے باوصف لب ولہجہ میں شائستگی کا غلبہ تھا اور لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے میں تکلف نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے میںیہ عرض کرتا ہوں کہ اپنے مؤقف میں کوئی لچک پیدا کیے بغیر ہی ایک شائستہ ماحول تشکیل دیا جا سکتا ہے اور ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ وفاق کے پہلو سے بھی یہ بات اہم ہے کہ ہم دوسروں کے وجود کو تسلیم کریں۔ انتخابی جائزے یہی بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بدستور سندھ کی دو سب سے بڑی جماعتیں ہوں گی۔ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو حسبِ روایت غلبہ حاصل ہے اور ایم کیو ایم کو شہروں میں۔ اس کے ساتھ یہ امکان بھی اپنی جگہ ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ملک کے دوسرے حصوںمیں قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکیں۔سوال یہ ہے کہ مرکزی حکومت تشکیل دیتے وقت،کیا سندھ کو نظر انداز کر دیا جائے گا؟ کیا وفاق کی یک جہتی اس کی اجازت دے گی؟ قومی سیاسی جماعتوں کی یہ اہمیت کچھ کم نہیں کہ وہ وفاق کو قائم رکھتی ہیں۔ وفاق کو مضبوط رکھنے کی ایک آزمودہ ترکیب یہ ہے کہ علاقائی نمائندگی رکھنے والی جماعتوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔سندھ کے ساتھ ہمیں بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا ہوگا۔ یہ اسی وقت خوش اسلوبی کے ساتھ ہو پائے گا جب سیاسی جماعتوں میں فاصلہ کم ہوگا یا کم از کم لوگ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے تو روادار ہوں گے۔ پاکستانی سیاست کو آج رواداری ہی کی ضرورت ہے۔ مکرر عرض ہے کہ اس سے مراد مؤقف سے انحراف نہیں۔ اس کا تعلق لب و لہجے اور اسلوبِ سیاست سے ہے۔ الیکشن کمیشن سے آج ہماری بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ ہمیں ان توقعات کے بارے میں بھی حقیقت پسند ہونا ہو گا۔ ابھی یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ انتخابی عمل پوری طرح شفاف ہو۔ ایسے لوگ بھی کمیشن کی چھلنی سے نکل آئے ہیں جن کی اصل جگہ انتخابی میدان نہیں،جیل تھی۔تاہم بات آگے بڑھی ہے اور سرِ دست اسے ہی غنیمت سمجھنا چاہیے۔اگر انتخابات میں اس طرح دھاندلی نہیں ہوتی جیسے 1977ء میں ہوئی تھی تو اس انتخابی عمل کے نتائج کو قبول کیا جا نا چاہیے۔پولنگ پوری طرح شفاف نہیں ہوگی۔جو زور آور ہے، وہ ووٹرز پر اثر انداز ہوگا۔ لیکن ایسے واقعات ہر جماعت کی طرف سے ہوں گے ۔ اگرکسی ایسے واقعے کو بنیاد بنا کر انتخابی نتائج کے بارے میں سوالات اُٹھائے گئے تو یہ بھی ایک المیہ ہو گا۔ جمہوریت کا حسن تنوع کے احترم میں ہے۔ یہ زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کا نام ہے۔ انتخابی مہم کے دوران میں ہیجان کو اتنا نہ بڑھنے دیا جائے کہ عقل لبِ بام محوِتماشا بیٹھی رہ جائے۔ انتخابات ایک ارتقائی مرحلہ ہے۔ یہ سنگِ میل ہے منزل نہیں۔اہلِ سیاست کو ابھی سے اس کا لحاظ رکھنا ہو گا تاکہ وہ بعد از انتخابات اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں