جناب نواز شریف نے اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ہے۔ تقریر نگارجمع ہیں اور پہلے خطاب کی نوک پلک سنواری جا رہی ہے۔یقیناًوہ ایک تاریخی خطاب کرنا چاہیں گے۔ایسا خطاب کہ تا دیر یاد رکھا جائے۔دیکھنایہ ہے کہ زور نفسِ مضمون پر ہوگایا اسلوبِ بیان پر۔ اگر اسلوب پر اصرار ہو تو نقد داد ملتی ہے۔ نفسِ مضمون پیشِ نظر ہو توکچھ تاخیر گوارا کرنا پڑتی ہے۔یہاں تک کہ دماغ قائل ہو اور پھرتحسین پر آمادہ۔اہلِ سیاست داد کے معاملے میں ادھار کے قائل نہیں ہوتے۔وہ عوامی نفسیات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔سید عطا اﷲ شاہ بخاری نے کہا تھا کہ میں اپنی تقریر کے لیے موضوع کا انتخاب سامعین کے چہرے دیکھ کر کرتا ہوں۔اس کی وجہ شاید وہی ہے جو انہوں نے اپنے سننے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہی:’’ تم کانوں کے عیاش ہو۔‘‘ یہ تو وقت بتائے گا کہ میاں صاحب کا پہلا خطاب کانوں کی عیاشی کا سبب بنتاہے یا پھر ایک نئے عہد کی تمہید۔ایک مقبولِ عام اصطلاح کا سہارا لیا جائے تو ایک نئے پاکستان کی آواز۔میرا احساس ہے کہ عیاشی کی عادت حکمرانوں میں ہو یا عوام میں ،نتیجہ ایک ہی ہے: نامرادی ۔عیاشی بری چیزہے،کانوں کی ہو یا زبان کی۔قوم کو سنجیدہ قیادت کی ضروت ہے جو عیاشی اور کوتاہ نگاہی کی نفسیات سے نکال کراُسے تعمیرکے راستے کا مسافر بنا دے۔اسے ایک کٹھن راستے پر چلنے کا حوصلہ دے۔اس کے لیے میاں صاحب کو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ ان کا اثاثہ کیا ہے۔ سفر کا انحصار زادِ راہ پر ہے۔ تازہ ترین گیلپ سروے کے مطابق84 فی صد لوگ سمجھتے ہیں کہ انتخابات نے ہمیں ایک بہتر جگہ پہ لا کھڑا کیا ہے۔نئی حکومت کے بارے میں 79فی صدلوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ درپیش مسائل پر قابو پالے گی۔میرے نزدیک میاں صاحب کا اصل اثاثہ یہی عوام کا اعتمادہے۔جو راہنما امیدوں کے جلو میں سفر کا آغاز کرتا ہے،اس کی کا میابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں۔تاہم عوام کا یہ اعتماد ایک چیلنج بھی ہے۔قوم کے لیے اب کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ ’’خزانہ خالی تھا‘‘ جیسا استدلال اب متروک ہو چکا۔اس کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ آپ کی منت کرنے نہیں گئے، کہ آئیے ،تشریف لائیے اور ہماری قیادت فرمائیے!آپ عوام کے پاس آئے تھے کہ ہمیں موقع دیں،ہم آپ کے شب و روز بدل دیں گے۔جب آپ یہ وعدہ کر رہے تھے ،خزانہ آپ کے سامنے تھا اور حالات بھی۔چند روز میں خزانہ بدلا نہ حالات۔اب تو کچھ کر کے دکھانا ہو گا۔عوام کی توقع اگر اثاثہ ہے تو چیلنج بھی ہیں۔ میاں صاحب کو بتانا ہے کہ وہ ان چیلنجز کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کا دوسرااثاثہ ان کی سنجیدگی ہے۔انتخابی مہم کے دوران میں اور اس کے بعد انہوں نے ایک سنجیدہ راہنما کا تأثر دیا ہے۔ گفتگو میں ٹھہراؤ ہے اور سطحیت سے گریز۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ سطحی اقدامات (Cosmetic Changes) پر زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔ نوے دن کے اندر ملک بدلنے کا اعلان نہیں کریں گے۔سطحی اور گروہی مفادات سے بالا تر ہو کر سوچیں گے۔ اگر راہنما سنجیدہ ہو تو حکمتِ عملی میں سنجیدگی غالب رہتی ہے۔ اسی سنجیدگی کا ایک تقاضا یہ ہے کہ ان کے مشاورتی حلقے میں سنجیدہ لوگوں کا غلبہ ہو۔ قرب رکھنے والے وفادار تو ہونے چاہئیں لیکن اپنے ضمیر کے مطابق مشورہ دینے کی اہلیت بھی ان میں ہونی چاہیے۔صلاحیت اور دیانتِ رائے، ایک مشیر میں ان دو صفات کوبہر حال تلاش کرنا چاہیے۔ عوامی اعتماد اور سنجیدہ فکری… اگر میاں صاحب کو یہ زادِ راہ میسر ہے تو پھر ایک بہتر کل کی امید رکھنی چاہیے۔ وہ کل جو چیلنجز میںگھرا ہوا ہے۔ پہلا چیلنج تو توانائی کا بحران ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب اس باب میں بنیادی جائزہ لے چکے۔ صورتِ حال ان پر واضح ہے۔ انہوں نے اب یہ بتانا ہے کہ وہ اس مسئلے کو کیسے مخاطب بنائیں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بہتری تدریجاً آئے گی۔ میاں صاحب کو یہ بتانا ہوگا کہ اس مسئلے کاحل ان کے پاس کیا ہے۔تین مہینے بعد ہم کہاں ہوں گے؟چھ ماہ بعد لوڈ شیڈنگ میں کتنی کمی آئے گی؟ سی این جی کا معاملہ کیا ہوگا؟ آئے دن بجلی کے بلوں میں اضافہ کیا رک سکے گا؟سبسڈی کا معاملہ کیا ہے؟ لوگ ان سوالوں کے متعین جواب چاہتے ہیں۔ قوم سے کوئی وعدہ کرتے وقت نواز شریف صاحب کو راجہ پرویز اشرف صاحب کا انجام سامنے رکھنا ہو گا جنہوں نے ایک متعین تاریخ پر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دوسرا مسئلہ معیشت کی سمت کا درست تعین ہے۔ اس معاملے میں دو باتیں ان کے حق میں ہیں اور ایک خلاف۔انہیں پاکستان کی تاجر برادری کا اعتماد حاصل ہے۔اس کے علاوہ عالمی برادری بھی ان کی تائید پر آمادہ ہے۔ جو بات ان کے حق میں نہیں وہ امن و امان کا مسئلہ ہے۔اس کے خاتمہ کے لیے انہیں فوج کا تعاون چاہیے اور اس کے ساتھ سیاسی قوتوں کابھی۔ ان میں اہم تر خیبر پختون خوا کی حکومت ہے۔تحریکِ انصاف اور ن لیگ کے ورلڈ ویو میں ایک جوہری فرق ہے۔ میاں صاحب کی رائے زمینی حقائق سے متصل ہے۔ عمران خان کی آرزوؤں سے۔ آرزوؤں کی سوداگری سے عوامی جذبات کا استحصال کیا جاسکتا ہے، زمینی ادراک کے حقائق سے نہیں۔ڈرون حملوں ہی کو دیکھیے! یہ واضح ہو گیا ہے کہ تحریکِ انصاف اسے ن لیگ کے لیے بطورِ چیلنج سامنے لانا چاہتی ہے اورآنے والے دنوں میں تحریکِ انصاف تعاون کے بجائے تصادم کی طرف بڑھے گی۔ان کی حکمتِ عملی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایسی آرزوؤں کی بنیاد پر وہ اپنے بارے میں حقیقی اپوزیشن کا تأثر قائم کریں اور پھر اگلے انتخابات میں متبادل قوت کے طور پر سامنے آئیں۔ طالبان کی طرف سے مذاکرات کی دعوت پہ نظر ثانی، میرے نزدیک زیادہ اہم نہیں۔ میاں صاحب کے ساتھ اس کی تجدید ہو سکتی ہے کیونکہ تحریکِ طالبان کو ولی الرحمان کا جو صدمہ پہنچا ہے ،اس کا براہ راست تعلق نواز شریف سے نہیں ہے۔ میاں صاحب کے لیے بنیادی سوال دو ہیں: ان کے پاس امن و امان بحال کرنے کا فارمولہ کیا ہے؟ فوج اور دوسری سیاسی قوتیں کس حد تک تعاون پر آمادہ ہیں۔میاں صاحب کو اپنے خطاب میںبتانا ہو گا کی امن و امان کی بہتری کے لیے وہ کیا کرنا چاہتے ہیں جو معاشی استحکام کی ناگزیر ضرورت ہے۔ اس مسئلہ کی ایک فرع بلوچستان اور دوسری کراچی ہے۔ معیشت کا استحکام کراچی سے وابستہ ہے۔یہ بات خوش آئند ہے کہ میاں صاحب کو اس کا اچھی طرح ادراک ہے۔کراچی کی بد امنی جنرل ضیاء الحق کا اٹھایا ہوا ’’فتنۂ جاریہ‘‘ہے۔یہ بھی دن رات میں حل نہیں ہو سکتا۔جرم اور سیاسی عصبیت کو جدا کرنا آسان نہیں ہوتا ۔یہ علم سیاسیات کا ایک اہم موضوع ہے۔مسلمانوں کی تاریخ تو ابتداء ہی سے اس کی زد میں رہی۔بلوچستان کا مسئلہ جوہری طور پرشایدزیادہ پیچیدہ نہیں۔ اس کا یک نکتی حل ہے:سیاسی قیادت ایک لائحہ عمل بنائے اور فوج اس کی تائید میں کھڑی ہو جائے۔ اگر یہ بات اصول کے طور پر طے ہو جائے تو لائحۂ عمل کے خدو خال مشاورت سے واضح ہوسکتے ہیں۔کراچی کا مسئلہ البتہ کچھ وقت لے گا،لیکن میاں صاحب کو اس کے لیے ابھی سے سوچنا ہو گا۔ ان کی تقریر میں اس کے لیے روڈ میپ ہونا چاہیے۔یہ طے ہے کہ کراچی میں امن کے لیے چندبنیادی فیصلے کر ناہوں گے جن کی مزاحمت ہو سکتی ہے۔ داخلی امن کوسر حدوں کے امن سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ امن ہماری ناگزیر ضرورت ہے۔ مغربی سرحدوں پر امن تو ہماری افغان پالیسی سے براہ راست متعلق ہے۔مشرقی سرحدوں کا امن بھارت کے ساتھ تعلقات پر منحصر ہے۔یہ معاملہ چو نکہ ملک کے دفاع کا ہے،اس لیے اس باب میں بھی فوج اور سیاسی قیادت میں ہم آہنگی لازم ہے۔اپنے پہلے خطاب کی تیاری میں، اگر اس مو ضوع پر متعلقہ ریاستی اداروں کی رائے لے لی جائے تو اس سے اداروں کے مابین اعتماد کا رشتہ مضبوط ہوگا جو حکومت کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہے۔ قوم کی نظریں میاں صاحب کے پہلے خطاب پر لگی ہیں۔ دیکھیے یہ نئے پاکستان کی تمہید بنتا ہے یا کانوں کی عیاشی کا سامان۔