رات اقبال نے چونکا دیا۔یہ تحریر پہلے بھی نظر سے گزرچکی لیکن شاید اُس لمحے میں اسے گرفت میں نہیں لے سکا۔ دوبارہ پڑھا تو حیرت نے آ لیا۔ وہ اکیلی نہیں تھی، اضطراب بھی اس کے جلو میں تھا۔ دانش کے مآخذ اب دو ہی ہیں: اخبار کے کالم اور ٹیلی ویژن کے مکالمے۔شاعری، ادب،علم وحکمت، سب کا متبادل یہی ہیں۔ میڈیا کا اوڑھنا بچھونا سیاست ہے۔صبح سیاست، شام سیاست۔ کچھ وقت اگر سیاست کو اونگھ آ جائے تو پھر اس کی جگہ کچھ شوز لے لیتے ہیں۔ میڈیا نے باخبر تو رکھا لیکن باادب نہیں بنایا۔اس کے لیے دانش کی ضرورت ہے۔تأثر یہ بن گیا ہے کہ یہ اخباری کالموں میں سمٹ آئی ہے۔ کتاب؟ نہیں، یہ قصۂ پارینہ ہے۔سوشل میڈیاکے دور میں اس کا کیا کام۔ ادب، تاریخ، سماجی علوم کا اب ہمارے شب وروز میں گزرنہیں رہا۔اگر کہیں اس کی جھلک دکھا ئی دیتی ہے تواُس کے اپنے عوارض ہیں۔معلومات ہیں‘ تجزیہ نہیں۔لوگ دماغ میں ایک لائبریری بنالیتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ کس کتاب کو کس الماری میں رکھنا ہے۔نتیجہ وہ فکری پراگندگی ہے، جس کے مظاہر آئے دن نظر آتے ہیں۔بظاہر الہامی کتب کے حوالے ہیں۔ عالمی ادب کا ذکر بھی ہے، لیکن سب کتابیں ایک الماری میں رکھی ہیں۔ ایک ہی ماخذ سے متضاد باتیں اخذ ہو رہی ہیں۔ خلطِ مبحث ہے جسے دانش کا نام دیا جارہا ہے۔ میں ایسے کالم پڑھتا یاشو دیکھتاہوں تو خلیل ملک کو یاد کرتا ہوں۔ کیسا پُر رونق اور حیات آفریں دوست تھاجوکھوگیا۔وہ زندگی سے نکلا مگر دل سے نہیں نکلا۔محفل سی جما دیتی ہیں اکثرتیری یادیں۔مذہب، ادب، تاریخ، سماجیات اور عصری سیاست کاگہرا ادراک اور اس پرمستزاد اس کا حسنِ ذوق اور حسنِ طبیعت۔اپنے کلچر سے ایسا لگاؤ بہت کم لوگوں میں دیکھا۔ غلبۂ سیاست اور انتشارِ فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ سماج کی تشکیل سنجیدہ بحث کا موضوع نہیں بن پائی۔مذہب، تاریخ ،سب سیاست کے پیرائے میں بیان ہو رہے ہیں۔ مذہب معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں غلبہ قائم کرنے کا سیاسی نسخہ ہے۔تاریخ اس کے سواکچھ نہیں کہ حکمرانوں کی آمدورفت کی داستان ہے۔تزکیہ اور آخرت میں جواب دہی، دین کے اجزا تو ہیں لیکن ضمنی۔ تاریخ، علم و فلسفہ اور تہذیب و تمدن کی کہانی بھی ہے لیکن دراصل یہ سیاستِ عالم کی رودادہے۔اس اندازِ نظر کا نتیجہ ہے کہ الٰہیات، تاریخ، فلسفہ، ادب، سب کوسیاست کا غلام اور کنیزبنادیا گیاہے۔ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں۔اس طرزِ فکر کے دو نتائج نکلے۔ ایک یہ کہ سماج، اقدار، تہذیب، تمدن، یہ سب موضوعات بحث سے خارج قرار پائے۔ دوسرا نتیجہ پراگندگیِ فکر ہے۔ کوئی بات واضح نہیں ہوتی۔ منزل کا سراغ نہیں ملتا۔ اقبال کا فرمایا ایک بار پھر نظر سے گزرا تو اپنے عہد کی یہ تصویر بھی سامنے آگئی۔شدت سے احساس ہوا کہ کرنے کا کام کیا تھا اورہم کن مسائل میں الجھ گئے۔آج نظامِ فکرمیں بنیادی تبدیلی ناگزیرہے۔ضرورت ہے کہ زندگی کو ایک اکائی کے طور پر دیکھا جائے۔ ایسی اکائی، سیاست،معیشت، اور معاشرت جس کے اجزا ہیں۔ کسی جزو کو کل کی حیثیت نہیں دی جاسکتی۔ زندگی ایک وحدتِ فکر کی متقاضی ہے۔فکر ایک سماجی لائحہ عمل میںڈھلتا ہے تو تہذیب وجود میںآتی ہے۔اقدار کا ایک نظام قائم ہوتا ہے اور وہ اقدار سیاست، معیشت اور معاشرت پر حاکم ہوتی ہیں۔ساری دنیا میں یہی ہوا۔انبیا کی سیرت کا حاصل یہی ہے۔انسانی تجربہ بھی اس کی تائید میں کھڑا ہے۔ مغرب نے زندگی کو ایک اکائی کے طور پر دیکھا اور پھر ایک فکری اساس پر سماجی اداروں کی تشکیل کی۔فکری پراگندگی کے سبب ہم سمجھتے ہیں کہ مغرب محض سیاست ہے۔ ظلم کی بنیاد پر غلبہ پانے کی خواہش کا نام مغرب ہے۔ہمارے اس تجزیے میں وہی غلطی ہے جو ہمیں اپنے فہمِ دین میں لاحق ہو گئی۔ مغرب ایک تہذیب بھی ہے۔ ایک اندازِ فکر ہے اور اس کے ساتھ نظامِ اقدار بھی۔اس کا مقابلہ کیسے ہوجب ہم کسی متبادل تہذیب کا نقشہ نہ دکھاسکیں۔ ہمارا کوئی زاویۂ نظر نہ ہو اور ہم کسی نظامِ اقدار سے تہی دامن ہوں۔ماضی کی مثالیں عظمتِ رفتہ کی داستان تو سنا سکتی ہیںعہدِ نو کی صورت گری نہیں کر سکتیں۔ ہمارا زوال محض سیاسی نہیں ہے۔ ہم نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنا مقدمہ ہارا۔ آخری معرکہ میدانِ سیاست میں لڑا گیا۔ چین کو مغرب کی سیاست نے نہیں،تصورِ حیات نے متأثرکیا ہے۔ ہم فرض کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں چین مغرب پر غالب آجائے گا۔ اس صورت میں کیا دنیا کا تصورِ حیات بدل جائے گا؟ یہ اصلاً اس سرمایہ دارانہ نظا م کی فتح ہو گی جس کی باگ اب یورپ اور امریکا کے ہاتھ میں ہے پھر یہ چین کے ہاتھ میں ہوگی۔چہروں کی اس تبدیلی میںہمارے لیے مسرت کا کون سا سامان ہے؟ یہ بات اُس وقت سمجھ میں آسکتی ہے جب زندگی کے بارے میںہمارازاویۂ نظر تبدیل ہو۔ ہمیں اندازہ ہو کہ کرنے کا اصل کام کیا ہے۔ اقبال نے ہمیں بتایا تھا کہ مسلمان کے ایمان کے دو اجزا ہیں۔ایک اعتقاد فی التوحید والرسالت۔ دوسرا تصورِ معاشرت و تمدن۔ اصل الاصول تو پہلا جزو ہے مگر دوسرے کو نظر انداز کرکے دنیا میں کوئی تشخص قائم نہیں کیا جا سکتا۔ میں اقبال کی جس بات سے چونکا وہ اسی مقدمے سے پھوٹی ہے۔آپ غور کیجیے کہ اصل معاملہ کیا ہے اورہماری ترجیحات کیا ہیں۔اگرسیاست ہی سب کچھ ہے تو پھر یہ بات سمجھ میں نہیں آسکتی؟ اقبال نے کہا:’’کسی قوم کی روحانی صحت کا انحصاراِس امر پر ہے کہ اس کے شاعروں اور فنکاروں کو کس طرح کی آمد ہوتی ہے۔ جہاں تک تمدنِ اسلامی کا تعلق ہے، میری دانست میں، فنِ تعمیر کے سوا، اسلامی آرٹ، موسیقی، مصوری اور شاعری نے ابھی وجود میں آنا ہے۔‘‘ جو تمدن ابھی وجود میں نہیںآیا، اس کا غلبہ کیسا۔