میاں نواز شریف اس وقت دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ان کے قدم جس سمت میں اُٹھ رہے ہیں، وہاں کھائیاں ہیں، غیر ہموار راستے ہیں اور حسرتوں کا قبرستان ہے۔ہر پڑاؤ پر تاریخ سے ماخوذ اسباق لکھے ہیں، افسوس کہ کوئی ان کو پڑھتانہیں۔ہم اپنی تمناؤں کے اسیر ہوتے ہیں اور ان کے تعاقب میں راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ چند روز پہلے میرے ایک صحافی دوست نے احمد شاہ مسعود کی وادی پنج شیر کا سفر کیا اور اسے کیمرے میں محفوظ کرلیا۔میں اس سفرکو ٹیلی ویژن کے پردے پر دیکھتا اورانسانی بصیرت پر ماتم کر تا رہا۔میں نے دیکھا کہ وسیع و عریض میدانوں میں روسی ٹینکوں کے ڈھانچے اس طرح بکھرے ہوئے تھے جیسے کسی طوفان کے بعد حشرات الارض کے مردہ وجود بکھرجاتے ہیں۔یہ عبرت کا عجیب و غریب منظر تھا۔میں امریکیوں کی عقل کا تا دیر ماتم کرتا رہا۔بچشمِ سر روسیوں کا یہ انجام دیکھنے کے بعد آخر کیا سوچ کر انہوں نے افغانستان کا رخ کیا؟ ٹینکوں کے قبرستان کی اس آبادی میں یقیناً ان کے سرمایے اوراسلحے کا کردار ہے، لیکن آخر کوئی خاصیت اس سرزمین میں بھی ہے کہ ہر آنے والے کا قبرستان بن جاتی ہے! کیا امریکیوں نے اس پہلو سے غور نہیں کیا تھا؟ کچھ ایسا ہی سوال جناب نواز شریف کے بارے میںاُٹھ رہا ہے۔میں اس کے حق میں ہوں کہ پاکستان میں ہمیشہ کے لیے آمریت کا باب بند ہوجانا چاہیے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آئین شکنی کے مرتکب نشانۂ عبرت بن جائیں۔تاہم تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ایسا کوئی کام بیک جنبشِ قلم نہیں ہو سکتا۔ تبدیلی تدریجاً آتی ہے۔ کسی ریاست کے ادارے اگر ایک خاص رویے کے خوگر ہوں تو وہ ایک حکم سے اپنی سمت تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس سے پہلے سماج کو ایک ایسا متبادل دینا ضروری ہے جس کے ساتھ عوام جذباتی طور پر وابستہ ہوجائیں۔آ مریت کے خلاف کسی فیصلہ کن اقدام کے لیے لازم ہے کہ پہلے جمہوریت عوام کا شعوری اور جذباتی مسئلہ بن جائے۔یہ اس وقت ممکن ہوگا جب وہ عوامی مسائل کا ایسا حل پیش کر سکے جو آمریت نہیں دے سکی۔سادہ لفظوں میںنواز شریف اگر پرویز مشرف کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانا چاہتے ہیں تو اس سے پہلے انہیں جمہوریت کو مضبوط بنانا ہوگا اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب عوامی مسائل کا حل ان کی پہلی ترجیح بن جائے۔ تین مسائل ہیں جو اس وقت حکومت کی پیش رفت میں پہاڑکی طرح حائل ہیں: دہشت گردی، تباہ حال معیشت اور کرپشن۔ نانگا پربت کا واقعہ بتا رہا ہے کہ اس ملک کی آبادیاں، صحرا، پہاڑ، ہر گوشہ دہشت گردی کی زد میں ہے۔یہ طے ہے کہ اگر وہ کسی کو مارنا چاہیں تو اﷲ کی ذات کے سوا کوئی نہیں جو اسے بچا سکے۔یہ محض امن و امان کا مسئلہ نہیں، ایک نفسیاتی کیفیت کا بھی نام ہے۔لوگ خوف کی فضا میں زندہ ہیں۔ پہلے غیر ملکی سرمایہ کار اور اب سیاح بھی اس طرف کا رخ کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے۔اس نفسیاتی کیفیت میں ریاست اپنا اعتبار کھو بیٹھتی ہے۔ یہ عراق میں ہو چکا، افغانستان میں ہوچکا اور اب شام میں بھی ہونے چلا ہے۔ پاکستان کے ساٹھ فی صد سے زیادہ لوگ نفسیاتی طور پر متوازن نہیں ہیں۔ اگر ملک اس نفسیات سے باہر نہیں نکلتا تو حکومت کا وجودغیر متعلق ہو جائے گا۔ اس لیے نواز شریف صاحب کی پہلی ترجیح تو دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ یہ کام فوج اور بین الاقوامی برادری کے تعاون ہی سے ہوسکتا ہے۔فوج کا تعاون اس میں اولیت رکھتا ہے۔ اگر اس وقت حکومت اور فوج کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہو تا تو پھر دہشت گردوں کے خلاف کوئی معرکہ نہیں جیتا جا سکتا۔ معیشت کی بحالی سیاسی استحکام اور سرمایے کے اعتبار سے وابستہ ہے۔دہشت گردی ختم ہوگی تو استحکام آئے گا۔کرپشن کم ہوگی تو سرمایے کا اعتبار بڑھے گا۔ گویا معیشت کی بحالی کو ترجیح دینے کا مطلب یہ ہے کہ دہشت گردوں اور کرپشن کو ہدف بنایا جائے۔یہ کام قانون کے مؤثر استعمال اور سماجی تطہیر ہی سے ممکن ہے۔اسی کی ایک فرع توانائی کا بحران ہے جو اپنی سنگینی کے باعث شاخ سے تنا بن چکا۔ اس لیے توانائی کے معاملے کو اولیت دیے بغیر معیشت کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ گویامعیشت کی بحالی ایک ہمہ جہتی عمل ہے جو سنجیدہ غور و فکر اور لائحۂ عمل کا محتاج ہے۔ اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ پرویز مشرف اور آصف زرداری صاحب کو سزا دلوانا حکومت کی ترجیح ہے۔ ترجیح کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زیادہ تر توانائیاں اب اس مسئلے کی نذر ہو جائیں گی۔اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ ملک و قوم کو درپیش اصل مسائل دوسری ترجیح بن جائیں گے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ توانائی کا بحران اگر حکومت کی پہلی ترجیح بن جائے تو بھی اسے حل کرنے کے لیے کئی سال چاہئیں۔ اگر یہ دوسری ترجیح بن گیا تو پھر حالات کوسنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت کے ابتدائی دنوں ہی میں یہ تأثر اُبھر رہاہے کہ معیشت حکومت کی گرفت میں نہیں آرہی۔ اگر یہ تأثر آنے والے دنوں میں بڑھا تو حکومت کے جواز پر سوال اٹھنے لگیں گے۔ اگرچہ اس بات کی تحسین کی گئی ہے کہ سابقہ دورِ حکومت کا پانچ سال پورے کرنا اچھا شگون تھا، لیکن ایک مضبوط نقطۂ نظر یہ بھی موجود ہے کہ بربادی ظاہرو باہر ہو تو پھر پانچ سال انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ میرا یہ گمان ہے کہ حکومت اگر اپنی ساکھ قائم نہ کر سکی تو پانچ سال انتظار کے تصور کو زیادہ پزیرائی نہیں مل سکے گی۔ اس مر حلۂ فکر پریہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا دونوں کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے؟معیشت کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ،ہم آ مریت کے نشانات کو کیوں نہیں مٹا سکتے؟ میرا خیال ہے دو وجوہات سے یہ آسان نہیں۔ایک یہ کہ دونوں کے مطالبات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ایک ساتھ انہیں ترجیح بنانے سے ایسے تضادات سامنے آسکتے ہیں جنہیں حل کر نا ممکن نہیں ہو گا۔میرے نزدیک مشرف کے خلاف مقدمے کو، فردِ واحد کے تناظر میں دیکھنا ممکن نہیں ہوگا۔جب جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو پر ویز مشرف صاحب نے طلب کیا اور ان سے استعفے کا مطا لبہ ہوا تو یہ مطالبہ کرنے میں وہ تنہا نہیں تھے۔ یہ ایک کمزور موقف ہے کہ پرویز مشرف صاحب کے اقدام کو فردِ واحد کا اقدام قرار دیا جا ئے۔جیسے ہی بات آگے بڑھے گی،اس کا رخ فرد سے ادارے کی طرف ہو جا ئے گا۔ مشرف صاحب کے وکیل بھی اسے فرد کے بجائے ادارے کا مقدمہ بنانے کی کوشش کریں گے۔یوں پنڈورہ بکس کھل جائے گا۔ یہ مقد مہ اگر درست ہے تو پھر حکومت کے پاس ایک ہی را ستہ ہے۔وہ ساری تو جہ عوامی مسائل کے حل پر مر تکز کرے۔ان میں سر فہرست دہشت گردی کا خاتمہ اور معیشت کی بحالی ہے۔ عدالتیں اگر مشرف صاحب کے خلاف کوئی کارروائی کرتی ہیں توحکومت ممکن حدتک معاونت فراہم کرے۔اسی طرح اگر زرداری صاحب کے خلاف مقدمہ بھی معمول کے کاموں کو متاثر کیے بغیر جاری رہ سکتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔تاہم اسے ترجیح نہیں بنا نا چاہیے۔حکومت کو یہ بھی سوچنا ہے کہ اس کی ترجیحات کا تعین کون کرے گا؟ حکومت یا میڈیا اور عدالتیں؟ نوازشریف صاحب کو سفر کے آغاز ہی پر دوراہے کا سا منا ہے۔اگر ان کا پہلا قدم ہی غلط سمت میں اٹھاتو وہ اگلے ہر قدم پر منزل سے دور ہوتے جائیں گے۔