مسلمانوں کی ایک دیرینہ شکایت کاکچھ تو ازالہ ہوا۔ ہمیں دنیا بالخصوص مغربی میڈیاسے یہ شکوہ رہا ہے کہ جب ایک مسلمان دہشت گردی کا ارتکاب کرتا ہے تو جرم کومجرم کے مذہب سے منسوب کر دیاجاتا ہے۔ اسلامی دہشت گردی۔اسلامی عسکریت پسندی اور اس نوع کے بہت سے عنوانات باندھے جاتے ہیں۔یہی جرم اگر کسی مسیحی،یہودی یا ہندو سے سر زد ہو تو اسے مجرم سے نسبت دی جاتی ہے،اس کا مذہب کہیں زیرِ بحث نہیں آتا ۔یہ رویہ ،ہمارا خیال ہے کہ سوچا سمجھا اور اسلام کے خلاف ایک سازش ہے۔اب مغربی میڈیا نے کسی حد تک اس کا ازالہ کر دیا ہے۔گزشتہ ہفتے کے ’’ٹائم‘‘میں سر ورق کی کہانی’’بدھ دہشت گردی‘‘ پر ہے۔ اس کا عنوان ہے’’ بدھ دہشت کا چہرہ‘‘(The Face of Buddhist Terror)اس مضمون میں میانمار(برما)میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات کو بدھ مت سے منسوب کیا گیا ہے۔ میری دلچسپی شکایت اور اس کے ازالے سے زیادہ اس مضمون کے مندرجات سے ہے۔یہ پورے ایشیا میںپھیلی ’’سیاسی بدھ مت‘‘کی داستان ہے۔یہ ذکر ہے بدھ مت کی تحریک ’969‘کے قائد ویراتھوirathu) W)کا،جو برما میں مسلمانوں کے قتلِ عام کا محرک ہے اور جو بدھ مت کے سیاسی احیا کے لیے اپنے ہم مذہبوں کو اسلام کے خلاف ابھار رہا ہے۔اسے’’برما کا اسامہ‘‘کہا جاتا ہے۔اس کا مقدمہ یہ ہے کہ اسلام ایشیا میں بدھ مت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔دلیل یہ ہے کہ آج کے اسلامی ممالک انڈونیشیا، ملائیشیا، پاکستان، افغانستان،کبھی بدھ مت کے مراکز تھے۔ اگر اسلام کا راستہ نہ روکا گیا تو برما جیسے علاقے، جوابھی مسلمانوں کی دسترس سے باہر ہیں، اسلام کے ہاتھوں مغلوب ہو جائیں گے۔ روہنگیا مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی اسی خدشے کی تائید کر رہی ہے۔اس لیے بدھ مت کی بقا کے لیے لازم ہو چکا ہے کہ اس کے ماننے والے اسلام کے خلاف معرکہ آرا ہوں۔ ویراتھو کا خیال ہے کہ عربوں نے اقوام متحدہ کو یرغمال بنا رکھا ہے۔اوباما کی رگوں میں ایک کالے مسلمان کا لہو دوڑ رہا ہے۔ اس مضمون میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بدھ مت میں سیاسی بیداری کی یہ تحریک صرف برماتک محدود نہیں ہے۔یہ سری لنکا اور تھائی لینڈ میں بھی اسی گرم جوشی کے ساتھ جاری ہے۔ماضی میں یہاں ایک ملائے سلطنت تھی جو انڈونیشیا،ملائیشیا اور تھائی لینڈ کے بعض حصوں پر مشتمل تھی اور مسلمان تھی۔ملائیشیا میں اکثریت ملائے ہے۔وہاں آئینی طور پر بھی ملائے سے مراد مسلمان ہی لی جاتی ہے۔تھائی لینڈ کے اس خطے میں کچھ وقت پہلے مسلمانوں نے خود مختاری کی ایک تحریک اٹھائی تھی ۔یہ کہا گیا کہ یہاں آباد بدھ مت کے پیرو کار ،اس تحریک سے منفی طور پر متاثر ہوئے جو اقلیت میں تھے۔تھائی لینڈ کی فوج نے اس تحریک کو طاقت سے کچل ڈالا۔’’ٹائم‘‘کے مضمون نگار نے ’’سیاسی بدھ مت‘‘کے اس پسِ منظر میں ایک سوال اٹھایا ہے اور وہی میرے نزدیک ہم سب کی توجہ کا مستحق ہے:کہاں سماجی تحریکیت(social activism) کی سرحد ختم ہوتی اور سیاسی عسکریت پسندی(political militancy) کا علاقہ شروع ہوتا ہے؟مضمون نگار کا کہنا ہے:’’ ہر مذہب کو بعض زہر آلود نظریات سے ایک تخریبی قوت میں بدلا جا سکتا ہے جو اس کے بنیادی مقدمے ہی کے بر خلاف ہے۔اب معلوم ہوتا ہے کہ بدھ مت کی باری ہے‘‘۔میرے خیال میں یہ آج کا سب سے اہم سوال ہے۔ مذہب اصلاً مابعد الطبیعیاتی مقدمہ ہے۔انسانی زندگی میں اس کا ظہور فرد اور سماج دونوں سطحوں پر ہوتا ہے۔کچھ عرصے سے مذہب کو اصلاً سیاسی تصور سمجھ لیا گیا ہے۔ ہر مذہب تزکیۂ نفس کے بجائے سیاسی انقلاب کی تحریک بنتاجارہا ہے۔اس کے مضمرات ہیں جو پھیلتے جارہے ہیں اور میرا تاثر ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال میں اضافہ ہو گا۔اس سے بین المذاہب جنگ و جدل کے ایک نئے دور کاآغاز ہو سکتا ہے جو عالمِ انسانیت کے لیے بہت تکلیف دہ مرحلہ ہو گا۔ہندوستان میں یہ آریا سماج اور شدھی جیسی ہندو تحریکیں تھیں جنہوں نے مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا اور اس کا نتیجہ وہ سیاسی تحریک تھی جسے ہم تحریک پاکستان کہتے ہیں۔صلیبی جنگیں اصلاً عربوں اور بازنطینیوںکے درمیان تھیں۔یہ جب’ اسلام بمقابلہ مسیحیت ‘ کے معرکے میں بدلیں تو پوری انسانیت کو اس کی ایک قیمت ادا کرنا پڑی۔دور حاضر میں امریکا اور سوویت یونین کی جنگ جب اسلام اور اشتراکیت کا معرکہ سمجھی گئی تو اس سے دنیا ایک نئی تقسیم سے گزری۔آج غلبے کی امریکی جنگ جب اسلام اور مغرب کا معرکہ بنی ہے تو پورا عالم اسلام فساد کا گھر بن چکا ہے۔اگر آنے والے دنوں میں بدھ مت کے پیروکاروں میں یہ خیال مضبوط ہوتا ہے کہ انہیں اپنی بقا کے لیے مذہبی بنیادوں پرسیاسی تحریک اٹھانی چاہیے تو دنیا کا وہ خطہ بھی مذہبی جنگوں کی لپیٹ میں آ جائے گا جو کسی حد تک اس سے محفوظ ہے۔اس وقت مشرقِ وسطیٰ،جنوبی ایشیا اور یورپ اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔چین،جاپان اور جنوب مشرقی ایشیامیں ابھی یہ آگ نہیں بھڑکی۔پھر یہ علاقے بھی اس کی زد میں ہوں گے۔چین میں 244 ملین بدھ مت کے پیروکار آباد ہیں۔تھائی لینڈ میں 64ملین،برما میں 38 ملین۔اگر سیاست کے لیے مذہب کا استعمال جاری رہتا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انسانیت کا مستقبل کیسا ہو گا۔ مذہب کے اس سوئے استعمال کے بڑے مجرم تو وہ عالمی کردارہیں جنہوں نے اپنے غلبے کے لیے مذہب کے مقدس نام کو استعمال کیا ۔امریکا ان میں سر فہرست ہے۔وہ انتہا پسند مسیحی اور یہودی بھی اس میں شامل ہیں جنہوں نے مغرب میں اسلاموفوبیا کا مرض پھیلایا اور نفرت کو ہوا دی۔اہلِ اسلام کے وہ گروہ بھی اس کا حصہ ہیں جنہوں نے دہشت گردی پر اسلام کا لیبل لگایا۔اس لیے آج لازم ہے کہ مذاہب کے نمائندے اس پر غور کریں کہ مذہبی بنیادوں پر انسانوں کے درمیان سماجی و سیاسی تقسیم اور مفاہمت کا یہ عمل اگر اسی طرح روزافزوں رہا تو دنیا فساد کا مرکز بن جائے گی اور مذہب کا بنیادی مقدمہ آنکھوں سے اوجھل ہو جائے گا۔اس کے دو نتائج ممکن ہیں۔ایک یہ کہ مذہب کا نام لیناجرم بن جائے اور دوسرا یہ کہ لوگ مذہبی اختلاف کی بنیاد پر ایک دوسرے کی گردن کاٹنے لگیں۔یہ رویہ جب پیدا ہو جاتا ہے تو پھر مذہبی اختلاف بین المذاہب اختلاف تک محدود نہیں رہتا۔یہ فرقہ واریت کا رویہ اختیار کر تا اور ایک مذہب کے ماننے والے بھی گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ہم اس کا تجربہ کر چکے۔تقسیم در تقسیم کا یہ عمل ہمیں کہاں لے جائے گا،سوچتا ہوں تو خوف سے کانپ اٹھتا ہوں۔ مذہب انسانی زندگی کا حسن ہے۔سماج اگر مذہبی تصورات سے بیگا نہ ہوجا ئیں تو اپنا جوہر کھوبیٹھیں۔سماجی رویوں کے باب میں مذاہب ِ عالم کی تعلیمات میں بڑی حد تک ہم آہنگی ہے۔اگر کوئی مذہب ذات پات یا انسانی تقسیم کا قائل ہے تووہ اپنا یہ چہرہ لوگوں کو دکھانے سے گریز کر تا ہے۔اسلام کا معا ملہ تو مثالی ہے…ابراہیمی ادیان میں سب سے جدید اور انبیا کی پوری روایت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے۔مذاہبِ عالم میں شاید سکھ مت واحد قابلِ ذکر مذہب ہے جو اسلام سے کم سن ہے۔میرا خیال ہے اگر تمام مذاہب کے ماننے والے سماجی رویوں کے حوالے سے اپنی اپنی مذہبی تعلیم کا لحاظ رکھیں تو ان کا وجود دوسروں کے لیے خیرکی علامت بن جائے۔عملاًیہ کیسے ممکن ہو؟آج لازم ہے کہ مذاہب ِ عالم کے نمائندگان سنجیدگی سے مل بیٹھیں اور اس سوال پر غور کریں۔اسے اقوام ِ متحدہ جیسے فورمز پہ اٹھنا چاہیے۔یہ طے ہے کہ تعصب کے ساتھ یہ کام نہیں ہو سکتا۔اگر میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی پر عالمی ضمیر خاموش رہتا ہے تو پھر اسے یہ حق نہیں کہ وہ کہیں اور مذہبی اقلیتوں کا مسئلہ اٹھائے۔غیر متعصبانہ رویے کے ساتھ مذہبی نمائندوں کو مل بیٹھنا ہوگا۔بصورتِ دیگر مذہب کے نام پر معرکہ آرائی باقی دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔