میری شہرت یہ ہے کہ میں ایک مذہبی آ دمی ہوں۔میرا دعویٰ بھی یہی ہے۔مذہب کا رنگ میری تحریر، تقریر، میرے حلیے ،ہر چیز سے نما یاں ہے۔اگر چہ سال بھر میں اسی شناخت کے ساتھ جیتا ہوں لیکںرمضان کا چاند نکلتا ہے توخاص طور پر میں سراپا مذہب بن جاتا ہوں ۔کیا میں جا نتا ہوںکہ ایک مذہبی اور غیر مذہبی آد می میں اصلاً کیافرق ہے؟ میں مادی ہی نہیں ایک اخلاقی وجود بھی رکھتا ہوں۔یہ وجود غیر مرئی ہے،دکھائی نہیں دیتا لیکن میں اس کی موجودگی سے انکار نہیں کر سکا۔محبت،نفرت،ایثار،حسد، میں اپنے مادی وجود میں ان کا ماخذ تلاش نہیںکر سکتالیکن ان جذبات کے بغیر میری شخصیت کا کوئی تصورمجسم نہیں ہوتا۔میں کچھ اقدار کو خیر کا عنوان دیتا ہوں،جیسے سچ، جیسے ایثار۔میں کچھ اقدار کو شر کہتا ہوں جیسے جھوٹ ،جیسے وعدہ شکنی۔میں ان اقدار سے بنا ہوا ہوں،جنہیں میرے اخلاقی وجود میںالہام کر دیا گیا ہے۔ میرے اس وجود کو کچھ لوگ فطرت کا نام بھی دیتے ہیں۔ مذہب اصلاً اسی وجود سے مخاطب ہوتا ہے۔میری فطرت میںخیر اور شر الہام کر دیے گئے ہیں۔ جب فطرت آ لودہ اور شر غالب ہونے لگتا ہے تو عالم کا پروردگار انبیا ؑ کو مبعوث کرتا ہے۔انبیا ؑ کون ہیں؟ اس زمین پر مذہب کے سب سے مستند نمائندے۔وہ اپنے ساتھ ایک پیغام لاتے ہیں۔ ایک اسوہ سامنے رکھتے ہیںتاکہ انسانی شخصیت پر خیر ایک بار پھرغالب آ جائے۔میں اپنی فطرت کے اس مطالبے پر لبیک کہہ اٹھوں جو خیر سے پھوٹتا ہے۔یوں کہیے کہ انبیا ؑ میرے اخلاقی وجود کی تطہیر کرتے ہیں۔اسے رذائل سے پاک کرتے ہیں۔میں پھر سے جی اٹھتا ہوں ۔میں خیر کی علامت بن جاتا ہوں۔سر تا پا سلامتی۔یوں میں مذہب کا نمائندہ بن جاتا ہوں۔ میرے اس اخلاقی وجود کے تزکیے کے لیے لازم ہے کہ سب سے پہلے میرے تصور حیات کی تطہیر ہو۔اس کا تعلق میرے علمی تصورات سے ہے۔مولانا امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں ’’تزکیۂ علم‘‘۔اس کے لیے اﷲ تعالیٰ آسمان سے اپنا کلام الہام کرتے ہیںجس کا سب سے مستند اور آخری ماخذ قرآن مجید ہے۔ میرے علم کا تزکیہ ہوتا ہے تو پھر اس کا ظہور میرے اعمال میںہوتا ہے۔ اس کی مثالی صورت پیغمبر کا وجود ہے۔ختم نبوت کے باعث، اب قیامت کی صبح تک یہ مثال رسالت مآبﷺ کی ذات والاصفات ہے۔ مزکیٰ وجود کیسا ہوتا ہے، اگر میں اسے آخری درجے میں دیکھنا چاہوں تو اﷲ کے رسولﷺ کی سیرت کو دیکھ لوں۔واقعہ یہ ہے کہ قرآن اور پیغمبر مجھے لاکھوں سالہ روایت سے جوڑ دیتے ہیںجس کا آغاز سیدنا آدم ؑ سے ہوا ۔جس نے تورات، انجیل اور زبور کی صورت میں ظہور کیا،جس نے سیدنا ابراہیمؑ اور سیدنا مسیحؑ کا اسوہ اختیار کیا۔ جو خیر و شر کے اس احساس پر مبنی ہے جسے عالم کے پروردگار نے میرے اخلاقی وجود میں الہام کر دیا۔ مذہب کا یہ مقدمہ سامنے رہے تو میرے سراپا مذہب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میرا اخلاقی وجود زندہ ہو جائے۔خیر غالب ہو اور میں سر تا پا سلامتی بن جاؤں۔اگر یہ نہیں ہوتا اور میرا تصور مذہب چند رسوم اور آداب کا اسیر بن جاتا ہے تو پھر مجھے اپنے اس دعوے پر نظر ثانی کرنا پڑے گی کہ میں ایک مذہبی آدمی ہوں۔سچ یہ ہے کہ زندگی میںہر قدم اٹھاتے وقت مجھے دیکھنا پڑے گاکہ میں کتنا مذہبی ہوںاور پیمانہ وہی ہے… اخلاقی وجود کی تطہیر۔میں چند صورتیں اپنے سامنے رکھتا ہوں،یہ جاننے کے لیے کہ میں کتنا مذہبی ہوں۔ ٭ میں بلا تحقیق الزام لگاتاہوں۔میں عالمِ دین کی شہرت رکھتا ہوں لیکن بغیر پڑھے اور سمجھے لوگوں کے خلاف فتوے دیتا ہوں۔میں ان کو جانے بغیر ان کے کفر و اسلام کا فیصلہ کرتا ہوں۔ یہ رویہ اس بات کا اظہار ہے کہ میرے اخلاقی وجود کی تطہیر نہیں ہوئی۔میں اصلاًایک مذہبی آدمی نہیں ہوں۔یہ الگ بات ہے کہ میری شہرت یہی ہے۔ ٭ میں مذہب کے نام پر لوگوں کے جذبات اُبھارتا ہوں اور انہیں انسانی جان لینے پر آمادہ کرتا ہوں۔میں اسے دینی حمیّت کا نام دیتا ہوںحالانکہ میں جانتا ہوں کہ میرادین انسانی جان کی حرمت کے معاملے میں کتنا حسّاس ہے۔میںاصلاً اپنے جذبات کا اسیر ہوں جسے خود کو دھوکا دینے کے لیے مذہب کے عنوان سے بیان کرتا ہوں۔یہ طرزِ عمل بتا رہا ہے کہ میرا مذہب سے کوئی تعلق نہیں،بظاہر میں غلبۂ دین کے لیے عَلمِ جہاد ہی کیوں نہ اٹھائے ہوئے ہوں۔ ٭ میں الزام ہی نہیں اتہام بھی لگاتا ہوں۔میں دوسروں کے خلاف کتابیں لکھتا ہوں۔ دوسروں کے بارے میں ایسی باتوں کی تشہیر کرتا ہوں ،جن کی صداقت کی کوئی دلیل میرے پاس نہیں ہوتی۔میں نے ایک شخص کی کوئی تحریر کبھی بالا ستیعاب نہیں پڑھی ہوتی۔مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی تصانیف کون کون سی ہیں اور میں ایک جملے میں پورے تیقن کے ساتھ اس کی شخصیت کا تجزیہ پیش کر دیتا ہوں۔اب میری تحریر وں میں قرآن و سنت کے کتنے حوالے ہی کیوں نہ ہوں،یہ رویہ بتاتا ہے کہ میں مذہبی آدمی نہیںہوں۔ ٭ میں معاملات میں جھوٹ بولتا ہوں ۔دروغ گوئی کی بنیاد پر زیادہ معاوضہ لیتا ہوں۔اپنے منصب کا ناجائز استعمال کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہر جگہ اخلاقیات کا درس دیتا ہوں تاکہ دوسرے مجھے ایک مذہبی آدمی مان لیں۔ میرا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ٭ میں دکان پر بیٹھا ہوں تو اس بات کا اہتمام کرتا ہوں کہ نماز کے اوقات میں دکان بندرہے۔ تراویح کا وقت میں دکان پر نہیں مسجد میں گزاروں۔میں سر پر ٹوپی بھی لے لیتا ہوں۔ رہا میرا گاہک تو میں اس سے ناجائز نفع کماتا ہوں۔ میری خواہش ہوتی ہے کہ اس رمضان میں ایک پلاٹ کے پیسے نکل آئیں تو کیا بات ہے۔ بے شک میں ہر نماز میں پہلی صف ہی میں کیوں نہ بیٹھا رہوں، اس طرزِ عمل کے ساتھ میں کسی طرح ایک مذہبی آدمی نہیں ہوں۔ ٭ میں غلبہ اسلام کے لیے ہر غیر اخلاقی قدم اٹھانے کو صحیح سمجھتا ہوں۔ دوسرے مسلح جتھہ بنا کر انسانی جانوں سے کھیلیں اور غالب رہیں تو میں اسے اپنے لیے بھی جائز سمجھتا ہوں۔ میں خودکو غلبہ اسلام کا علمبردار کہتا ہوں، حالانکہ یہ طرزِ عمل اعلان ہے کہ میں اصلاً ایک عصبیت پر یقین رکھتا ہوں، جسے اپنی بے خبری کے سبب میں مذہب سے منسوب کردیتا ہوں۔ یہ بدیہی بات ہے کہ ایک غیر مذہبی رویے کے ساتھ مذہب کا غلبہ ممکن نہیں۔ رمضان احتساب کا مہینہ ہے۔اِس کی دستک اگر آپ نے سنی ہے تو میری طرح غور کیجیے کہ کیا آپ فی الواقع مذہبی آدمی ہیں؟ کیا اپنے اخلاقی وجود کی تطہیر آپ کا مقصد ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ اپنے اخلاقی وجود سے بے نیاز ہو کر آپ کا مذہب سے وہی تعلق ہے جو کسی اشتراکی کا اشتراکیت سے یا کسی دہریے کا سیکولرزم سے ہو سکتا ہے۔ اگر آپ اس طرزِ عمل کے ساتھ خود کو کسی دہریے یا اشتراکی سے مختلف خیال کر رہے ہیں تو براہِ کرم اس خود فریبی سے نکل آئیے،اس سے پہلے کہ اﷲ کا یہ مہمان ہم سے رخصت ہو جائے۔