حسینہ واجد کا مقدمہ قانون،اخلاق،منطق کسی عدالت میں ثابت نہیں،البتہ بے بصیرتی کی عدالت ایسی ہے جہاں مسلمان اہل اقتدار کا مقدمہ ،بالاجماع ثابت ہے۔وقت ٹھہرتا نہیں ۔اس میں ایک تسلسل ہے۔ ہم اپنا کام ہمیشہ’’آج‘‘ سے شروع کرتے ہیں۔’’آج‘‘ کیا ہے،وقت کی ایک ساعت ہے جو ماضی اور مستقبل کے مابین حد فاصل ہے۔ماضی تاریخ ہے۔تاریخ سبق کے لیے ہوتی ہے،اس لیے نہیں کہ۲۰۱۳ ء میں ہم ۱۹۷۱ء کی فضا میں کھڑے ہو جائیں۔اس رویے کا انجام کبھی خیر پر مبنی نہیں ہو سکتا ۔تاریخ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے۔ الٰہی فیصلے کے مطابق جب اللہ کا دین عرب کے تمام ادیان پر غالب آگیا تو رسالت مآب ﷺ نے اسے ایک نئے عہد کی ابتدا قرار دیا۔کہا: جو سیدنا ابو سفیانؓ کے گھر آگیا اس کے لیے سلامتی ہے۔خود ابو سفیانؓ کے خاندان کے لیے بھی سلامتی ہی سلامتی۔اب فیصلہ ’’آج‘‘ کی بنیاد پر ہونا تھا۔سیدنا ابو سفیانؓ کا ’’آج‘‘ اجلا تھا،اس لیے مستقبل بھی ان کا ہوا۔صحابیت کا شرف اور پھر دنیاوی شان بھی۔پاکستان کی تاریخ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے شروع ہوتی ہے۔یہی ہمارا ’آج‘ ہے۔بہت سے لوگ تقسیم کے مخالف تھے لیکن اس دن سے ان کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ان کے لیے ’’آج‘‘ ۱۴ اگست ٹھہرا۔باچا خان کے پیرو کار،مولانا حسین احمدمدنی کے نام لیوا، جماعت اسلامی سب ایک نئے دور کا آغاز کر رہے تھے۔ ریاست نے ان کے ماضی کو نہیں کریدا۔آج یہ سب محب وطن ہیں۔پاکستان سے ویسی ہی محبت کرتے ہیںجیسے وہ آدمی جس نے پاکستان کے لیے ہجرت کی اور اپناسب کچھ چھوڑ دیا۔ پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی جو اہل دیو بند کو طعنہ دیتے ہیں۔جو ولی خان پر غداری کا مقدمہ قائم کرتے ہیں اور جماعت اسلامی کو مطعون کرتے ہیں۔یہ رویہ پاکستان کی وحدت کے لیے سب سے خطرناک ہے۔جن لوگوں نے ’’آج‘‘ کے حقائق کو قبول کیا انہیں گزرے وقت کا طعنہ دینا کم ظرفی ہے۔معاملات کم ظرفوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں تو وہی کچھ ہوتا ہے جو بنگلہ دیش میںہو رہا ہے۔جماعت اسلامی اس وجود کا ایک عضو ہے جسے بنگلہ دیش کہتے ہیں۔بنگالیوں کی ایک بڑی تعداد اس سے وابستہ ہے۔ملک کی سیاست،معیشت اور سماجی ترقی میںان کاحصہ مسلمہ ہے۔۲۰۱۳ء میں ان کے ساتھ ۱۹۷۱ء کی فضا میں رہ کر معاملہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے وجود کو نوچ رہے ہیں۔آپ کا ہدف جماعت اسلامی نہیں! بنگلہ دیش ہے۔بے بصیرتی اسی کا نام ہے۔ بات بہت سادہ ہے۔ فوج کی قیادت نے جو کردار ادا کیا وہ شفاف نہیں تھا لیکن بھارت جب مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کے لیے اپنی فوج وہاں اتار رہا تھا تو حب الوطنی کا تقاضا کیا تھا؟ جماعت اسلامی بھارتی فوج کے ساتھ ہو جاتی؟ اس سوال کو سامنے رکھتے ہوئے ۷۱،۱۹۷۰ء کے بحران میں جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کے کردار کو دیکھنا چاہیے۔جواب بھی سادہ سا ہے، پروفیسر غلام اعظم صاحب کو وہی کرنا چاہیے جو انہوں نے کیا۔ جنہیں جنگی جرائم کہا جا رہا ہے وہ بھی محض الزام ہے۔عدالتی کارروائی شکوک کے گہرے بادلوں میں چھپی ہوئی ہے۔دنیا بھر کے غیر جانب دار ادارے عدالتی کارروائی کو ناقابلِ بھروسہ کہہ رہے ہیں۔کاش حسینہ واجد کو کوئی سمجھا سکتا کہ جب رہنما جوش انتقام کے اسیر ہو جائیں تو ملک برباد ہو جاتے ہیں۔جن لوگوں کو ایک قوم میں سیاسی عصبیت حاصل ہو ان کے خلاف اقدام ملکوں کو ایسے زخم دے جاتا ہے جو کبھی مندمل نہیںہوتے۔وہ اگر بھارت میں سنت سنگھ اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی لاشوں پر ایک نظر ڈال لیتیں تو انہیں یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے۔ عالم اسلام کی بد قسمتی یہ ہے کہ حسینہ واجد اس معاملے میں اکیلی نہیں ہیں۔عراق، لیبیا،شام اور افغانستان کی بربادی میں صدام حسین،قذافی،بشارالاسد‘ حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کا حصہ کسی طرح بھی امریکا سے کم نہیں ہے۔بشارالاسد نے شام کو لہو میں نہلا دیا۔ایک لاکھ سے زیادہ اہل شام مارے جا چکے ہیں۔ریاست کا وجود برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے لیکن اپنے اقتدار اور انتقام کے لیے انہوں نے پورے ملک کو داؤ پہ لگا رکھاہے۔افغانستان پر غیروں نے جو ظلم ڈھایا وہ اپنی جگہ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو اپنی سرزمین پر اپنے ہی لوگوں کو مار رہے ہیںاور فساد کی فصل بو رہے ہیں،انہیںکیا افغان دوست قرار دیا جا سکتا ہے؟ حسینہ واجد نے بد قسمتی سے بنگلہ دیش کو سول وار کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔بنگلہ دیش پورے خطے کے لیے ترقی کی علامت بن رہا تھا۔اس کی جمہوریت اور معیشت کی مثالیں دی جا رہی تھیں۔ پاکستان کے سر مایہ کار اپنے ملک پر بنگلہ دیش کو ترجیح دینے لگے تھے۔عالمی منڈیوں میں بنگلہ دیشی مصنو عات کی طلب بڑھ رہی تھی۔کھیل، ثقافت، ہر شعبے میںاس کے قدم آگے کی طرف اٹھ رہے تھے۔بنگلہ دیش کی اس تر قی کا حسینہ واجد کی سیاست سے کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔وہ اگر اقتدار سے الگ ہو جاتیں تو بھی یہ سفر جاری رہتا۔شرط صرف ایک تھی: سیاسی استحکام۔حسینہ واجد نے اس بات کو نظر انداز کیا جب اپنا سیاسی زوال دیکھا۔عوام کی حمایت کھونے کے بعد انہوں نے حمایت کی خاطر سرحدوں سے باہر دیکھنا شروع کیا۔ ان کا خیال یہی ہے کہ واشنگٹن سے اگر تائید میسر آ جا ئے تو عوامی مخالفت کے با وجود اقتدار میں رہا جا سکتا ہے۔اگر وہ خود کو ’’اسلامی بنیاد پرستوں ‘ کا مخالف ثابت کر دیں تو امریکا کی آنکھ کا تارہ بن سکتی ہیں اور بھارت ویسے ہی ان کا حامی ہے۔یوں اس خواہش کا تعاقت کر تے کرتے انہوں نے بنگلہ دیش میں سول وار کی بنیاد رکھ دی۔ اس بحث میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ پاکستان کو کیا کر نا چاہیے؟سفارتی آدا ب کا تقاضا کیا ہے؟ہماری وزارتِ خارجہ اس باب میں کیا کر سکتی ہے؟اس سوالات کو ہم کسی اگلے کالم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔سردست مجھے یہی کہنا ہے کہ جب سیاسی رہنما گروہی اور شخصی مفادات کے اسیر ہو جائیں تو ملکوںکا مستقبل داؤ پر لگ جا تا ہے۔جب تاریخ کودرس گاہ کے بجائے نقطۂ آ غاز مان لیا جائے تو پھرانسان وقت کے رحم و کرم پر ہو تا ہے۔ اس کی باگ اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہتی۔جو ’فتحِ مکہ‘ سے شروع کرتے ہیں، وقت ان کا غلام ہو تا ہے۔