دمِ رخصت قریب آ پہنچا ۔آصف زرداری صاحب اب ایوان صدارت سے رخصت ہوا چاہتے ہیں۔یہ رخصتی کیا ان کے لیے ایوانِ سیاست سے رخصتی کی بھی تمہید ہے؟ سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔موسم بدلتا ہے تو بے برگ و بار شجر بھی سبزہ اوڑھ لیتے ہیں اور کبھی ابرِ رحمت گریزاں ہو تو ہری بھری کھیتیاں بھی سوکھ جاتی ہیں۔نشیب وفراز اگرچہ زندگی کا عمومی چلن ہے لیکن اگر اس کے مظاہر سب سے زیادہ کہیں دکھائی دیتے ہیں تو وہ یہی وادیٔ سیاست ہے۔اس لیے آصف زرداری صاحب کے سیاسی مستقبل کے بارے میں آج جو کچھ کہا جائے گا محض ظن اور گمان ہوگا۔میرا گمان یہ ہے کہ اُن کا عہد عروج گزر چکا ۔اب نشیب کا سفر ہے اور اس میں بھی کوئی پڑاؤ دکھائی نہیں دیتا۔میرے نزدیک آج زرداری صاحب کے سیاسی مستقبل سے جڑا ہوانازک سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی ان کی اسیر رہ کر کیااپنا سیاسی مستقبل محفوظ رکھ سکے گی؟ ایک بڑے حادثے نے زرداری صاحب کو نمایاں کر دیا۔بے نظیر بھٹو صاحبہ کی المناک موت نے انہیں مرکزِ نظر بنا دیا ۔ان پر ذمہ داری آپڑی تو انہوں نے آغاز میں یہ اشارہ دیا کہ وہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے اہل ہیں۔وفاق کی مضبوطی اور پیپلز پارٹی کی اقتدار تک رسائی،ان کے ہنر کا کمال ہے۔اِس پر انہیں داد ملی اور وہ اس کے مستحق بھی تھے۔یہ ان کے دروازے پر خوش بختی کی دستک تھی۔یہ واقعہ ہے ان کا ماضی بعض ایسے الزامات سے آلودہ تھا کہ ان الزامات کی رفاقت میں وہ کسی بڑے سیاسی یا ریاستی منصب کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔قسمت جب مہربان ہوتی ہے تووہ آپ کے لیے امکانات کے نئے دروازے کھول دیتی ہے۔ان کے لیے بھی یہ باب وا ہوا کہ وہ نئے تعارف کے ساتھ اس میدان کا رخ کریں اور یوں زبانِ حال سے یہ گواہی دیں کہ ان پر لگنے والے الزامات محض الزامات تھے۔درحقیقت وہ صلاحیت اور دیانت دونوں حوالوں سے اس کے مستحق ہیں کہ ایک بڑی سیاسی جماعت یا پھر ریاست پاکستان کی نمائندگی کریں۔ افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ وہ اپنی ساکھ کے بارے میں حساس نہ ہوئے۔ ہر آنے والا دن یہ اعلان کرتا رہا کہ پیپلز پارٹی سے غلطی ہوئی اور ریاست سے بھی۔پیپلز پارٹی عوام کی نظروں سے گرتی گئی اور ریاستی اداروں نے بربادی کا راستہ دیکھ لیا۔انتخابات کاموسم آیا تو یہ دونوں فصلیں تیار تھیں۔پیپلز پارٹی اور ریاستی ادارے،دونوں آخری سانسیں لے رہے تھے۔دیہی سندھ میں اگرچہ پیپلز پارٹی اپنے وجود کو قائم رکھنے میں کامیاب رہی لیکن اس استثناکے ساتھ پاکستان بھر نے اس جماعت سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ بڑی جماعتیںپانی کا بلبلہ نہیں ہوتیں ۔ایک آدھ انتخابی شکست سے یہ رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ کوئی جماعت منصۂ شہود سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو گئی ہے۔پیپلز پارٹی کے لیے بھی قاضیٔ وقت کا فتویٰ یہی ہے۔ تاہم اب اسے کچھ بنیادی فیصلے کرنے ہیںاور ان میں سب سے اہم نئی قیادت کا انتخاب ہے۔ یہ معاملہ زرداری صاحب کے سیاسی مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اصلاً دو عصبیتوں پر کھڑی ہے۔ ایک بھٹو خاندان کی عصبیت اور ایک پاکستان کے لبرل طبقے کی عصبیت۔ ابھی تک کوئی ایسی سیاسی قوت معرضِ وجود میں نہیں آئی جو ان عصبیتوں کو مخاطب بنا سکے۔پاکستان کی کوئی سیاسی قوت لبرل طبقے کے لیے باعثِ کشش نہیں ہے۔بایں ہمہ بہت لوگ کوشش کرکے دیکھ چکے۔ وہ بھٹو خاندان کی عصبیت کو اپنا مخاطب نہیں بنا سکے۔ برے حالات میں بھی ان دو عصبیتوں نے پیپلز پارٹی کو سہارا دیے رکھا۔ تاہم مستقبل میں شاید نئے سیاسی حقائق جنم لیں۔سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ بھٹو خاندان کا کوئی چشم و چراغ ایسا نہیں ہے جو اس وقت سیاسی منظر پر موجود ہو۔ بلاول کے بارے میں ابھی وقت نے فیصلہ سنانا ہے۔ان کے پاس دو راستے ہیں۔ اپنے والدِ گرامی کی سرپرستی اور ترجیحات کے تحت جماعت کی قیادت کرنی ہے یا اپنی ترجیحات کا خود تعین کرنا ہے۔ اگر وہ پہلا راستہ چنتے ہیں تو یہ سابقہ روش پہ چلنے کے مترادف ہے اور اس میں ناکامی نوشتۂ دیوار ہے۔ اگر وہ نئے راستے تلاش کرتے ہیں تو اس سے والد سے اختلاف فطری ہے اور اس کے اپنے مضمرات ہیں۔ میں یہ بات اس مفروضے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ آصف زرداری صاحب اب سیاست میں کوئی متحرک کردار شاید ادا نہ کر پائیں۔اس کے چند اسباب ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ دو سال تک عملی سیاست میں حصہ نہیںلے سکتے۔ وہ پسِ پردہ ہی کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔اب تک ان کی جو سیاسی مہارت سامنے آئی ہے اس کا تعلق جوڑ توڑ سے ہے۔جوڑ توڑ کے لیے لازم ہے کہ آپ کے پاس ترغیب کے لیے کچھ ہو۔سندھ کی حد تک تو یہ ممکن ہے کہ وہاں کی صوبائی حکومت ان کے پاس ہے۔وہاں ان کی یہ صلاحیت کام آ سکتی ہے لیکن ملک کے دوسرے صوبوں میں ترغیب کے عنوان سے ان کے پاس کچھ نہیں۔وہ اگرکسی کو ہم نوا بنائیں گے تو کسی بنیاد پر؟دو سال بعد اگر وہ منصہ ء شہود پرآتے ہیں تو ان کی شخصیت میں وہ کرشمہ بہر حال موجود نہیں ہے کہ وہ خود کو بھٹو کا سیاسی وارث ثابت کر سکیں۔اس لیے اگر ان کا کوئی سیاسی کردار ممکن ہے تو وہ پسِ پردہ ہی ہو گا۔اس حوالے سے میں عرض کر چکا کہ وہ عوامی آدمی نہیں ہیں۔عوام سے براہ راست تعلق قائم کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔گزشتہ پانچ سال میں ان کا جو تخصص (specialization)سامنے آیاہے،وہ عوامی نہیں ہے جوڑ توڑ کی سیاست ہے۔یہ سکہ رائج الوقت نہیں ہے۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو وہ اس وقت پیپلز پارٹی کے لیے ذمہ داری(liability) ہو سکتے ہیں اثاثہ (asset) نہیں۔ اس خوش گمانی کے لیے شاید کوئی جواز نہ ہوکہ وہ اپنے طرز عمل پہ نظر ثانی کریں گے۔گزشتہ پانچ سال کی کارکردگی سے تو یہی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔وہ اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکے نہ پیپلز پارٹی کو بہتر قیادت فراہم کر سکے۔انہوں نے اسے اپنے خاندان کے مفادات کا اسیر بنانے کی کوشش کی اور ان لوگوں کو منصب دیے جو شخصی وفادار تو ہو سکتے تھے پارٹی وفادار نہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال منظور وٹو ہیں۔ملک کے سب سے بڑے صوبے کے لیے پارٹی قیادت کا یہ انتخاب اتنامضحکہ خیز تھا کہ ہر وہ شخص حیران رہ گیا جو سیاست کی ابجد سے بھی واقف تھا۔نظریہ، وابستگی،کردار۔ معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک ہر بات سیاست میں غیر متعلق ہے۔یہ غیر سیاسی تجزیہ تھا۔ اس لیے میرا نتیجہ فکر یہ ہے کہ زرداری صاحب کی سیاست کا دورِ عروج اپنے اختتام کو پہنچا۔اب تو صرف ڈھلوان کا سفر ہے۔اس وقت پیپلز پارٹی کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسے اس سفر میں زرداری صاحب کا ہم سفر بننا ہے یا اپنے لیے نیا راستہ تلاش کر نا ہے۔پیپلزپارٹی کے لیے آج نیا راستہ یہی ہے کہ وہ پرانے راستے پر لوٹ جائے۔ اس مو ضوع پر اگلی نشست میں بات ہوگی۔ اس وقت تو آصف زرداری صاحب کا دم ِ رخصت ہے اور مجھے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کر نا ہے۔