رات جیسے ہی زمین پر قدم رکھتی ہے،ہماری فضائیں ان دنوں ایک عہد آفریں نغمے سے معمور ہو جاتی ہیں۔آبادیاں اس کلام الٰہی کی آیات سے گونج اٹھتی ہیں،جسے آسمان سے زمین پر اتارنے کے لیے اس عالم کے پروردگار نے اسی ماہ صیام کا انتخاب کیا تھا۔لوح محفوظ سے قلب مصطفٰے ﷺتک کا یہ فاصلہ انہی دنوں میںطے ہوا تھا۔جبریل امین کو اللہ نے یہ امانت سونپی۔وہ دن اور آج کا دن ، جبریل ملائکہ کے جلو میں اسی ماہ کی کسی شب زمین پر اترتے ہیں اور قدر والی اس رات میں پروردگار عالم کی رحمت کچھ اس طرح نزول کرتی ہے کہ کائنات کے ہونٹوں پر تنگ دامنی کا شکوہ ہوتا ہے۔فکر معاش و حیات میں گرفتار ،ابن آدم کو بالعموم اسی مہینے آزادی کی وہ چند ساعتیں میسر آتی ہیں جب اس کے کان اس کلام کو سنتے ہیں اور اس کے دل پر اس کی آیات کا نزول ہوتا ہے۔کروڑوں مسلمانوں کی طرح میرا دل بھی چاہتا ہے کہ میں کچھ دیر کے لیے خود کو دنیاوی فکروں سے آزاد کروں،قرآن مجید کے دربار میں حاضری دوں اور اس کلام سے عرق حیات کشید کروں جو اگر پہاڑوں پر نازل کیا جاتا تو ان کے قلب بھی خشیت الٰہی سے پارہ پارہ ہو جاتے۔ جاوید احمد صاحب غامدی کا ترجمہ قرآن ’’البیان‘‘ ان دنوں زیرِ مطالعہ ہے۔پہلا ترجمہ جس میں قرآن مجید کا نظم اس کے ترجمے ہی سے واضح ہے۔ میں برسوں اس خوش گمانی میں مبتلارہا کہ قرآن مجید کے اچھے طالب علموںمیں میرا شمار بھی ہو سکتا ہے۔یہ خوش گمانی بے علمی کے گہرے احساس میں ڈھل گئی جب میں ’’ دبستانِ فراہی‘‘ سے متعارف ہوا۔معلوم ہوا جو سنا تھا، وہ محض افسانہ تھا۔ پہلی مرتبہ شعوری سطح پہ یہ جانا کہ وہ قرآن جس نے عرب کے فصحا کو گنگ کر دیا،وہ اصلاً ہے کیا؟ اب معلوم ہواکہ ’ایں کتابے نیست چیزے دیگر است‘۔ امام حمید الدین فراہی کے شاگردِ رشید مو لانا امین احسن اصلاحی کے حضور میں حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔پھر اﷲ نے مزید کرم یہ کیا کہ اس سلسلۃ الذہب کے تیسرے بڑے عالم سے براہ راست استفادے کا شرف عطا کر دیا۔گزشتہ تئیس سال میں، میں نے بار ہا اس حقیقت کو اپنے سامنے پوری طرح سے بے نقاب پایا کہ اس دبستان سے نا آشنا ئی کے ساتھ، قرآن فہمی کا دعو یٰ قابلِ بھروسہ نہیں۔ان مبارک ایام میں دوسرے کروڑوں مسلمانوں کی طرح یا خوش بختی سے سال کے باقی دنوںمیں،جب میںقرآن مجید کے الفاظ میں چھپے خزانوں تک رسائی کے لیے مو لا نا امین احسن اصلاحی کی بے مثل تفسیر’’ تدبر قرآن‘‘یا ’’البیان ‘‘ کی ورق گردانی کرتا ہوں،تو اس عالم کے پروردگار کے حضور سجدہ شکر کے لیے بے تاب ہو جاتا ہوں جس نے مجھے اپنے لافانی کلام کے ان عہد ساز شارحین کی بزم سے وابستہ کر دیا ورنہ اس اعزاز کے لیے تو ہم نے دیکھا کہ ابو یوسف اور ابن قیم جیسے لوگ ہی مستحق قرار پائے کہ ان کے مقدر میں ابو حنیفہ اور ابن تیمیہ کی صحبت لکھ دی جائے۔ امام فراہی تک تو ایک عام آدم کی رسائی محال ہے کہ انہوں نے زیادہ تر فنی نوعیت کے موضوعات پر لکھا یا عربی ہی کو اظہار کا وسیلہ بنایا لیکن اگر ایک پڑھا لکھا شخص قرآن مجید کا سنجیدہ طالب علم بننا چاہے تو اس کے لیے امام امین احسن اصلاحی کی’’تدبر قرآن ‘‘ نے بہت آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بر صغیر میں شیخ الہند مولانامحمود حسن، مفتی محمد شفیع، مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی اور پیر کرم شاہ صاحب جیسے جلیل القدر لوگوں نے قرآن مجید کے فہم کو عام کرنے کے لیے بہت قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں لیکن میں بغیر کسی مبالغے کے اپنا یہ تاثر بیان کرتا ہوں کہ قرآن فہمی کی یہ ایک دوسری دنیا ہے جسے مکتب فراہی نے آباد کیا ہے۔امام فراہی نے جس کام کو شروع کیا اس کی ایک حد تک امام اصلاحی نے تکمیل کر دی۔اس اعتبار سے’’تدبر قرآن‘‘ ایک صدی کے فہم کا حاصل ہے۔مولانا اصلاحی نے ’’تدبر‘‘ کے مقدمے میں لکھا: ’’میں بلا کسی شائبہ فخر کے محض بیان واقعہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ یہ کتاب میری چالیس سال کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔میں نے اپنی جوانی کا بہترین زمانہ اس کتاب کی تیاریوں میں بسر کیا ہے اور اب اپنے بڑھاپے کی نا توانائیوں کا دور اسی کی تحریر و تسوید میں بسر کر رہا ہوں۔اس طویل مدت میں میں نے زندگی کے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور بہت سے تلخ اور شیریں گھونٹ حلق سے اتارے ہیں لیکن اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ کسی دور اور کسی حال میں بھی میرا ذہنی اور قلبی تعلق اس کتاب سے منقطع نہیں ہوا۔میں نے اس ساری مدت میں جو پڑھا ہے اسی کو محور بنا کر پڑھا ہے،جو کچھ سوچا ہے اسی کو سامنے رکھ کر سوچا ہے،اور جو کچھ لکھا ہے بالواسطہ یا بلا واسطہ اسی سے متعلق لکھا ہے۔میں نے قرآن حکیم کی ایک ایک سورہ پر ڈیرے ڈالے ہیں،ایک ایک آیت پر فکری مراقبہ کیا ہے اور ایک ایک لفظ اور ایک ایک ادبی یا نحوی اشکال کے حل کے لیے ہر اس پتھر کو الٹنے کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں مجھے کسی سراغ کے ملنے کی توقع ہوئی ہے اور یہ راز بھی میں بر ملا ظاہر کرتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی اس کام میں کوئی تکان یا افسردگی محسوس نہیں کی بلکہ ہمیشہ نہایت گہری لذت اور نہایت عمیق راحت کا احساس کیا ہے۔‘‘ اس درجہ ریاضت کے بعد ’’تدبر قرآن‘‘ جیسا شہ پارہ تخلیق ہوا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ شاہکار اسی طرح وجود میں آتے ہیں۔ رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت معجزہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود اب اس ریاضت کے نتیجے میں قرآن مجید کی جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ کیا ہے،صاحب تدبر قرآن لکھتے ہیں۔’’جو بات قانون کی کتابوں میں ایک شاخ بریدہ نظر آتی ہے،وہی بات قرآن مجید میں ایک سرور عنا کی طرح نظر آئے گی… قرآن فقہی احکام کو ہمیشہ دین کی اصولی تعلیمات کے ساتھ ملا کر بیان کرتا ہے۔وہ کبھی تو فروع سے اصول کی طرف بڑھتا ہے جس کی مثال سورہ احزاب وغیرہ میں ملتی ہے، اور کبھی اصول سے فروع کی طرف اترتا ہے جس کی مثال سورہ جمعہ میں موجود ہے اور کبھی اصول کو اجزا و فروع کے درمیان ایک آفتاب تاباں کی طرح رکھ دیتا ہے جس کی بہترین مثال سورہ نور میںموجود ہے۔‘‘ اس کالم کی تقریب بھی یوں پیدا ہوئی کی سیاست کی گرم بازاری نے ماہ نزول قرآن میں بھی قلم کو سطحی اور بے مقصد مباحث سے آلودہ رکھا،اس لیے خیال ہوا کہ چند سطریں قرآن مجید اور خدامِ قرآن کے بارے میں بھی لکھ دی جائیں۔شاید اس سے کالم نگاری کا کچھ بھرم رہ جائے۔یوں بھی جب یہ احساس بہت گہرا ہو جاتا ہے کہ جو ماہ و سال اہلِ علم کی صحبت میں گزرنے چاہئیں تھے، وہ بے مقصد تگ و دو میں گنوا دیے تو خود کو تسلی دینے کے لیے معمول سے ہٹ کر کچھ لکھنے کو دل چاہتا ہے۔سچ یہ ہے کہ یہ عالم جبر ہے،جس میں خواہش نہیں،زمانہ ہمارے لیے لائحہ عمل طے کرتا ہے۔ فراز ہم وہ غزالان دشت و صحرا ہیں اسیر کرکے جنہیں لوگ لائے شہروں میں