یہ کہانی مجھے خلیل ملک نے سنائی تھی۔ کیسی باغ وبہار شخصیت تھی جو بزمِ حیات سے اُٹھ گئی۔ارد گرد پھیلے شناسا چہروں کو دیکھتا ہوں تو سچ یہ ہے کہ ایسا دوسراچہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ فلسفہ، سیاست، سماج، ثقافت… کم لوگ ہوں گے جن کی دلچسپی کا دائرہ اتنا وسیع ہوگا۔ اس پر مزید اس کی خوش ذوقی اور حسنِ خلق۔ ایسی بے تکلفی کہ طبیعت نہال ہو جائے۔ خانۂ دل میں اس کی نشست برسوں سے خالی ہے اور شاید ہمیشہ خالی رہے۔ نے مژدۂ وصال نہ نظارۂ جمال مدت ہوئی کہ آشتیٔ چشم وگوش ہے اس کہانی یا قصے کا مرکزی کردار یونس جولاہا ہے ۔راوی کا کہنا ہے کہ یہ ایک سچا واقعہ ہے۔وہ ایک سادہ دیہاتی تھا جو بیمار ہو گیا۔ علاج میں کوئی کمی نہیں تھی لیکن معاملہ وہی رہا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ صحت باقی رہی نہ مال و اسباب۔ دونوں نہ رہیں تو پھر امید بھی باقی نہیں رہتی۔ بے بسی کا عجیب لمحہ تھا، یونس جولاہا جس کی گرفت میں تھا۔ہر آنے والا دن یوں نکلتا جیسے آخری ہو۔ بے بسی اور مایوسی جب اپنی حدوں کو چھونے لگی تو یونس رو دیا۔ اسباب کی دنیا میں کوئی ایسا نہ تھا جو اس کی مدد کو آتا۔اس بے چارگی کے ساتھ اس نے آسمان کی طرف نگاہ اُٹھائی اور اپنے رب کو پکارا۔انداز وہی سادہ جو ایک بندے کو سجتا ہے۔ عالم کا پروردگار‘ سچ یہ ہے کہ بے تکلفی اور اخلاص ہی کو دیکھتا ہے۔ اسے تصنع پسند ہے نہ بناوٹ۔ وہ تو الفاظ کا بھی محتاج نہیں ہے۔ لفظ تو ہمارے اطمینان کے لیے ہوتے ہیں کہ ہم نے اپنی درخواست پیش کردی ورنہ اسے معلوم کہ ہمارے دل میں کیا ہے اور اس پر ہمارے یقین کا عالم کیا ہے۔ یونس جولاہے نے اپنی سادگی کے ساتھ اپنے رب کو پکارا: ’’ پروردگار آپ میرے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ ذرا دھیان کیجیے! میں یونس پیغمبر نہیں، یونس جولاہا ہوں!‘‘ یونس بے بسی اور لاچارگی کا پیکر بن گیا۔ اس کا رب یہ کیسے گوارا کرتا کہ کوئی بندہ اس عاجزی کے ساتھ اس کے سامنے دامن پھیلائے اور وہ اسے خالی لوٹا دے۔ یہ تو اس کی غیرت کے خلاف ہے۔ پروردگار کی رحمت نے جوش مارا اور یونس کے دن پھرنے لگے۔ صحت لوٹی اور مال و اسباب بھی۔ مایوسی کی دہلیز پر بیٹھے یونس کو لوگوں نے دیکھا کہ زندگی کے آنگن میں چارپائی بچھائے آسودگی کی آغوش میں سو رہا ہے۔اﷲ نے اس کی بے بسی اور اپنی غیرت کی لاج رکھی۔ سچ یہ ہے کہ اس سے بڑھ کر کون ہے جو اپنے بندوں کی لاچارگی کا مداوا کرتا ہے۔ پاکستانی قوم کی حالت بھی آج یونس جولاہا جیسی ہے۔ لاچارگی اور بے بسی کی مکمل تصویر۔ یہ ایک ایسی آزمائش سے دوچار ہے جو اس کی قوتِ برداشت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ قوم اس وقت نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ ہمارا قومی رویہ غیر فطری ہے۔ پوری قوم آج امن اور بھوک کی آزمائش سے دوچار ہے۔ جسم باقی ہے نہ روح۔ صحت ہے نہ مال و اسباب، یونس جولاہے کی طرح۔ دہشت گردی کے خوف نے سماج کا حصار کیا ہوا ہے۔ ریاستی ادارے مفلوج ہیں۔ دہشت گرد، حکومت، عدالت، میڈیا معلوم نہیں کتنے محتسب ہیں جو ان کے درپے ہیں۔ انہیں یہ خوف دامن گیر ہے کہ ایک جال سے اگرنکل گئے تو دوسرے میں پھنس جائیں گے۔ لکھاری اور نام نہاد دانش ور ابہام کا شکار ہیں یا پھر سطحیت کے۔ مذہب کی دوچار باتیں اِدھر اُدھر سے سن کر مذہب کے معاملات پر یوں کلام کرتے ہیںجیسے حرفِ آخر کہہ دیا۔ضعیف بلکہ موضوع روایات کو پورے یقین کے ساتھ فرمان رسولؐ کے طور پر کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ آدمی لرز اٹھتا ہے۔سماج اور تاریخ کا مطالعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔علم کے ظنی ماخذ سے یقینی نتائج بر آمد کرتے ہیں۔اس کا حاصل ہے فکری پراگندگی یا پھر گمراہ کن تعبیرات۔ اس آزمائش سے بڑھ کر آزمائش یہ ہے کہ اہل سیاست اخلاقی بصیرت کے بحران میں مبتلا ہیں۔کوئی اس کی جھلک دیکھنا چاہے تو مولانا فضل الرحمٰن اور عمران خان کے مابین حالیہ مسلسل مکالمے کو دیکھ لے۔ایک قدامت کے نمائندے ہیں اور دوسرے جدت کے۔معلوم ہوتا ہے کہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ہم سیاست کو مذہبی اور غیر مذہبی خانوںمیں اگر تقسیم کرتے ہیں تو یہ محض ایک تکلف ہے۔اقتدار کی سیاست میں اہل مذہب کا بھرم باقی ہے نہ سیکولر سیاست کا۔سیاسی قیادت کا یہ اخلاقی اور فکری بحران ایک بڑی آزمائش ہے۔ سب سے بڑی آزمائش تو تعلیم کو درپیش ہے۔تعلیم کو تربیت سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔والدین اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں نہ اساتذہ۔سب کا اصرار گریڈز پر ہے۔تعلیمی اداروں میں ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہے جو تشدد کو بطور روز مرہ اختیار کر چکی ہے۔اگر تعلیمی ادارہ مذہبی ہے تو تشدد کا رنگ مذہبی ہے اور اگر عمومی تعلیم کا کوئی مرکز ہے تو پھر تشددکے دوسرے عنوانات ہیں۔انا،گرل فرینڈ یا پھر کوئی اور۔ریاست کے زیر اثر بعض ’مفکرین‘ بھی حب الوطنی کے نام پرتشددکو ہوا دے رہے ہیں۔یوں دہشت گردی کے علاوہ بھی تشددکی ایک اور لہر ہے جس کا تعلق سماجی عوامل سے ہے اور اس میں سب سے بڑا عامل یہی تعلیم اور تربیت میں طلاق کا ہونا ہے۔ یہ چند شعبوں کا ذکر ہے۔ہر شعبے میں بے بسی ہے اور لاچارگی۔اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ خود ریاست بے بس ہے۔وہ نہیں جانتی کہ اصلاح احوال اگر ہو تونقطۂ آغاز کیا ہو۔یہ وہی کیفیت ہے جو یونس جولاہے کی تھی۔اس درماندگی میں اس کے سوا کیا راستہ ہے کہ نگاہیں آسمان کی طرف اٹھائی جائیں اور اپنے رب سے مخاطب ہوا جائے۔لیکن اس کا کیا علاج کہ آسمان سے نالوں کا جواب اسی وقت آتا ہے جب معاملہ اﷲ کی سنت کے مطابق ہو۔جب اسباب کی دنیا میں ،جو کچھ ممکن ہو ،ہم کر چکے ہوں۔یونس جولاہے نے جب اپنے رب کو آواز دی تھی تو وہ ہر طبیب اور ہر چارہ گر کا دروازہ کھٹکھٹا چکا تھا۔اس نے اپنی جمع پونجی اپنی بیماری کی نذر کر دی تھی ۔جب عالم اسباب میں کچھ کرنا اپنے بس میں نہیںرہا تو پھر اس نے ماورائے اسباب ہستی کو پکارا تھا۔اس کے بعد یہ ممکن کہاں تھا کہ وہ مایوس ہوتا۔ آج بے بسی کے اعتبار سے تو ہم یونس جولاہا ہیں۔کہیں امید کی کوئی کرن پھوٹتی دکھائی نہیں دیتی۔ریاست کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔سیاست ہم نے عمران خان اور مولانا فضل الرحمٰن کے حوالے کر دی اور مذہب… خیر چھوڑیے۔ کس کس کا نام لیں۔ہر شعبہ زندگی میں تیسرے اور چوتھے درجے کے لوگوں کی پذیرائی ہے۔میں بے بسی کی اس کیفیت میں اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں: ’’اے میرے رب! سرداران قوم کی بے توفیقی تو واضح ہے لیکن ایک عام پاکستانی کا کیا قصور ہے جس کو آپ نے بصیرت ارزاں کی ہے نہ حالات۔وہ سیاست میں کوئی انقلاب لا سکتا ہے نہ تعلیم میں ۔ وہ تو وقت کے دھارے پر تیرتا ایک پتھر ہے، جسے ہر ٹھوکر ایک نیا روپ دے دیتی ہے۔ اے میرے مالک! کیا ایک عام پاکستانی یونس جولاہے سے مختلف ہے؟کیا تو اس کی بے بسی کا جواب نہیں دے گا؟‘‘