پست ذہنی سطح اور اخلاق کے لوگ تاریخ نہیں بناتے اور بناتے بھی ہیں تو مذموم۔ دمِ رخصت آصف زرداری صاحب کے اعزاز میں نواز شریف صاحب کا ظہرانہ ایک تاریخ ساز واقعہ ہے۔ یہ اُس وقت ممکن ہواجب دونوں اپنے تعصبات سے بلند ہوئے۔ میں جانتا ہوں کہ اس دعوت کی ایک دوسری تعبیر بھی ہوگی۔’’دونوں ایک ہیں‘‘۔’’ باری باری ملک و قوم کو لوٹنے آ جاتے ہیں‘‘۔ فرینڈلی اپوزیشن‘‘۔حافظ حسین احمد صاحب جیسے علماکی لغت مستعار لوں تو ’’مک مکا‘‘۔ تاریخ کا معاملہ یہ ہے کہ کبھی اس کی ایک تعبیر ممکن نہیں ہو سکی۔ مسلمانوں میں جو سب سے بڑافکری خلفشار ہے، اس کی اساس تاریخ کی دو تعبیرات پرہے۔ شیعہ سنی اختلاف اصلاً تاریخِ اسلام کی دو مختلف تعبیریں ہیں۔ اس لیے میں اس نقطۂ نظر کو صحیح سمجھتا ہوں کہ دین کے با ب میں تاریخ کو حوالہ نہیں بنایا جا سکتا۔ دین کے مآخذ ظنی نہیں یقینی ہونے چاہییں اور وہ دو ہی ہیں: قرآن اور سنت۔ ایک قولی تواتر اور دوسرا عملی تواتر۔ تاریخ بالاتفاق ایک ظنی ماخذ ہے، اس لیے کسی یقینی بات کے لیے بنیاد نہیں بن سکتا۔تاریخ کی بے مائگی اس سے بھی واضح ہے کہ6ستمبر جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں،5ستمبر کے واقعہ کی بھی دو تعبیریں ہو رہی ہیں۔ میرا رجحان اس تعبیر کی طرف ہے جو حسنِ ظن پر مبنی ہے۔ ایک سماج میں سیاسی اختلاف فطری ہے۔ اسی لیے سیاسی جماعتیں بنتی ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دو بڑی سیاسی حقیقتیں ہیں۔ ان میں نظری اختلاف ہے اورحکمتِ عملی کا بھی۔دو نوںسماج کے مختلف نقطہ ہائے نظر کی ترجمان ہیں۔دونوں ایک نہیں ہو سکتیں کیوںکہ سماج ایک طبقے پر مشتمل نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے جس کا اِس ظن سے کوئی تعلق نہیں کہ دونوں ایک ہیں۔ پیپلز پارٹی اگر قصۂ پارینہ بنے گی تو وہ نقطۂ نظر کسی نئے سیاسی نام سے منظم ہو جائے گا، پیپلزپارٹی جس کی نمائندگی کر رہی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ مسلم لیگ کا حصہ بن جائے۔ گویا پاکستان میں یک جماعتی سیاسی نظام ممکن نہیں۔ یہ آمریت میں ہو سکتا ہے جب سماج ذہنی طور پر مردہ ہو جاتا ہے۔ نواز شریف صاحب نے اگر آصف زرداری صاحب کو مدعو کیا تو اس کا قطعی مطلب یہ نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی والوں نے میاں صاحب کی بیعت کر لی یا مسلم لیگ والے زرداری صاحب کے مرید ہو گئے۔ اس ملاقات کا تعلق آداب کے ساتھ ہے۔دنیا میں فساد اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ لوگ سیاست یا مذہب کے معاملے میں اختلاف کرتے ہیں۔فساد کی وجہ اختلاف کے آداب سے ناواقفیت ہے۔ یہ ملاقات بتا رہی ہے کہ پاکستان کے اہلِ سیاست نے اختلاف کے آداب سیکھنا شروع کر دیے ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کاآغاز جدہ کی اس ملاقات سے ہوا تھا جس کا حوالہ وزیرِ اعظم نے اپنی تقریر میں دیا تھا۔آصف زرداری صاحب کی ایوانِ صدر سے باعزت رخصتی دراصل اس عمل کاایک ثمر ہے جس کا آغاز بے نظیر بھٹو صاحبہ اور میاں نواز شریف صاحب نے کیا تھا اور جس کا کریڈٹ میاںصاحب ، زرداری صاحب کودے رہے ہیں۔ مفاہمت کے اس عمل کو آگے بڑھنا چاہیے،لیکن اس کو باہمی مفادات کا اسیر نہیں ہونا چاہیے۔مفاہمت کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے نقطۂ نظر سے رجوع کر لیا جائے یا ایک دوسرے کے مبینہ قومی جرائم سے صرف نظر کر لیا جائے۔انتخابی مہم کے دوران میں جو کچھ کہا گیا،اسے دہرانا خوش ذوقی نہیں لیکن جو سنگین الزامات ایک دوسرے پر عائد کیے گئے ،لازم ہے کہ انہیں منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔یہ عمل قانون اور آئین کی بالا دستی سے ممکن ہے۔مثال کے طور پر اگر مسلم لیگ کا یہ مقدمہ درست ہے کہ سوئس بینکوں میں پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت پڑی ہے تو پھر اس کی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دولت کو قومی خزانے میں واپس لائے اور ذمہ داران کے ساتھ قانون کے تحت معاملہ کرے۔اس باب میںوہ اپنی قومی ذمہ داری پور ی کرے۔اسے مفاہمت کے عمل سے متصادم نہیں سمجھنا چاہیے۔بایں ہمہ پیپلز پارٹی کا یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ حکومت کی کار کردگی پر نظر رکھے۔اگر کہیں خرابی ہے تو اس کی نشاندہی کرے۔اگر وہ ایسا نہیں کرے گی تو یہ دراصل ایک جرم ہو گا اور یہ کہا جائے گا کہ اس باب میں پیپلز پارٹی نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔جو بات قابل گرفت ہے وہ سیاسی بنیادوں پر مخالفین کو ہراساں کرنا،ان پر جھوٹے مقدمات قائم کرنایا پھر مفاہمت کے نام پر قومی فرائض سے غفلت برتنا ہے۔ پاکستان کے اہل سیاست نے جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے، میرا خیال ہے،اس کا دائرہ اب وسیع تر ہونا چاہیے۔چوہدری شجاعت حسین کو وزیر اعظم ہاؤس میں خوش آمدید کہا گیا۔یہ بھی نیک شگون ہے اور میرا خیال ہے کہ میاں نواز شریف صاحب اگر اپنا دل مزید کھلاکریں تو ان تلخیوں میں مزید کمی آسکتی ہے جنہوں نے ان کے باہمی تعلقات میں سیاسی زہر گھول دیا تھا۔اگر زرداری صاحب سے مفاہمت ہو سکتی ہے تو چوہدری صاحب سے کیوں نہیں؟معیار یہاں بھی وہی ہونا چاہیے۔ایک دوسرے کے قومی جرائم سے صرف نظر نہیں کیا جائے گا لیکن اس عمل کو شخصی پسند و ناپسند سے ماورا رکھا جائے گا۔ایم کیو ایم سے بھی میرا خیال ہے کہ اب تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہونا چاہیے۔ اس کایک نکاتی ایجنڈا ہونا چاہیے:کراچی میں جرم اور سیاست کو کیسے الگ کیا جائے؟ میرا تاثر ہے کہ ایم کیو ایم کی وہ قیادت جو چالیس سال سے زیادہ عمر کی ہے اور اب سیاست کے اپنے دوسرے دور میں داخل ہو چکی ہے، اس کی خواہش بھی یہی ہے۔اس کے مفادات اب نئے سیاسی نظام سے وابستہ ہو گئے ہیں۔وہ بھی یہی چاہے گی کہ وہ جان کے خوف سے آزاد ہو کر سیاست کرے۔اس کے لیے جرم اور سیاست میں طلاق نا گزیر ہے۔یہ کیسے ہو،اس ایک نکتے پر اگر ایم کیو ایم سے مذاکرات کا عمل آگے بڑھے تو یہ کراچی اور پاکستان بھر میں استحکام کے لیے مہمیز ثابت ہوگا۔ میاں نواز شریف صاحب نے جس باوقار انداز سیاست کی آب یاری کی ہے،اسے اب آگے بڑھنا چاہیے۔تحریک انصاف کی قیادت کو بھی اب سوچنا ہے کہ سیاسی تنہائی اور انتہا پسندانہ موقف،سیاست کے مزاج سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ تحریکِ انصاف اس مصالحتی عمل کا حصہ بنے، اس جذبے کے ساتھ کہ بطور اپوزیشن اس نے اپنی قومی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔ بات بات پہ روٹھنا سیاسی بلوغت کی علامت نہیںہے۔ تحریکِ انصاف کی یہ انتہا پسندی سماج کے لیے بھی نیک شگون نہیں ہے۔ اگر اس نے سماجی سطح پر بھی ظہور کیا تو اس سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہو گی اور ایک بکھرے ہوئے سماج کے لیے یہ کوئی نیک شگون نہ ہوگا۔ پاکستان میں نیا سیاسی کلچر جڑ پکڑ رہا ہے۔ اس کو مضبوط بنانا چاہیے۔ ہمیں اختلاف کے آداب سیکھنا ہوں گے۔ سیاست کے ساتھ ساتھ مذہب میں بھی۔ دنیا بھر میں سماجی ارتقا اسی طرح ممکن ہواہے۔ پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو اسے سماجی طور پربالغ ہونا ہو گا اور اس کا اظہار سیاسی رویوں سے ہوتا ہے۔وزیرِ اعظم کا ظہرانہ بتا رہا ہے کہ سیاست کے تیور بدل رہے ہیں۔ اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ سید منور حسن کچھ بھی کہیں، آصف زرداری صاحب کی ایوان ِ صدارت سے رخصتی باوقار ہے اور باعزت بھی۔