دفاعِ پاکستان کیا ہے؟ اگر اس سے مراد پاکستان کے جغرافیے کا تحفظ اور بیرونی حملہ آوروں سے بچاؤ ہے تو ہم نے ایک عمرانی معاہدے کے تحت، جسے آئینِ پاکستان کہتے ہیں،یہ ذمہ داری فوج کو تفویض کردی ہے۔ہم محاورتاً نہیں، لفظاً اپنا پیٹ کاٹتے اور فوج کی ہر ضرورت پوری کرتے ہیں۔ہم اپنے بجٹ کا کم و بیش نصف پاکستان کے دفاع پہ خرچ کرتے ہیں۔ہم دفاعِ پاکستان کے لیے وسائل ہی نہیں، اپنے بھائی، بیٹے اور بیٹیاں بھی دیتے ہیں۔ہماری بیٹیاں بھی اب لڑاکا طیارے اڑانے لگی ہیں۔ جس قوت سے ہمیشہ ہماری سلامتی کو خطرات لاحق رہے ہیں، ہم نے ایٹم بم بھی بنا لیا ہے۔ ہم نے کہا ہم گھاس کھالیں گے لیکن اپنی فوج کو ایٹم بم لے کر دیں گے۔پاکستان جیسا ترقی پزیر ملک اس عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتاتھا لیکن ہم نے اپنے قول کو سچا کر دکھایا۔ہم نے گھاس کھائی لیکن ایٹم بم بنا لیا۔ہم یہ کسی جبر سے نہیں،خوش دلی سے کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اتنا کچھ کرنے کے باوصف، کیا پاکستان کے جغرافیے کی حفاظت کے لیے ہمیں مزید کچھ کر نا پڑے گا؟کیا لاکھوں جاں بازسپاہیوں کے ہوتے ہوئے بھی ہمیں ایسے رضا کاروں کی ضرورت ہے جو وطن کے لیے کٹ مرنے پر آمادہ ہوں؟کیا فوج پر اتنا کچھ صرف کر نے کے بعد بھی ہمیں ان جہادی تنظیموں کو چندہ دینا ہوگا جو دفاعِ پاکستان کے لیے جلوس نکالتے اوررضا کار بھرتی کرتے ہیں؟ایک سوال اور بھی ہے۔یہ سب کچھ کر نے کے با وجود ہم پاکستان کے جغرافیے کی حفاظت نہیں کر سکے۔ 1970ء میں فوج مو جود تھی بلکہ پورا اقتداراور تمام ریاستی وسائل اس کے پاس تھے۔ ہمارے پاس ’البدر‘ اور ’الشمس‘ جیسے رضا کار بھی مو جود تھے جو پاکستان کے لیے کٹ مرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ان سب کے ہوتے ہوئے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔جو حکمت عملی 1970ء کی دہائی میں کامیاب نہیں رہی، اب کیسے ہوگی؟ جغرافیائی سالمیت کے باب میں کچھ اور پہلو بھی ہماری تو جہ چا ہتے ہیں۔ہماراتجربہ یہ ہے کہ بھارت کو ہمارا وجود گوارا نہیں رہا۔قیامِ پاکستان ہندوستان کی تقسیم کا نتیجہ ہے۔کانگرس کا موقف اس کے برعکس تھا۔اس کی پہلے دن ہی سے یہ خواہش رہی کہ پاکستان بقا کی جنگ ہار جائے۔پاکستان کے حصے کے وسائل فراہم نہیں کیے گئے۔گاندھی جیسی شخصیت کو اس پر صدائے احتجاج بلند کر نا پڑی۔ باؤنڈری کمیشن کے ساتھ مل کرسازش کی گئی۔یہ سب کچھ کانگرس کی قیادت نے کیا۔بی جے پی کا معا ملہ تواس سے دو چند ہے۔وہ تو آر ایس ایس آر کا سیاسی ونگ ہے جس کا خمیر مسلم اور پاکستان دشمنی سے اٹھا ہے۔تاہم حالات کے جبر نے واجپائی صاحب کو مینارِ پاکستان کے سائے میں لا کھڑاکیا جہاں انہیں یہ کہنا پڑا کہ پاکستان کو اپنے وجودکے ثبوت کے لیے بھارت کی مہر نہیں چاہیے۔اس کا ہونا اس کے وجود کی گواہی ہے۔بھارتی قیادت پہ یہ واضح ہے کہ اب پاکستان کے ساتھ عسکری محاذ پر کوئی معرکہ جیتا نہیں جا سکتا۔ ایسی معرکہ آرائی کی ایک قیمت ہے اور بھارت اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ 28 مئی 1998ء کے بعدیہ طے ہوگیا۔نوازشریف صاحب نے اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پر امن بقائے باہمی کی بنیاد پر باہمی تعلقات کی تشکیلِ نو کر نا چاہی۔نوازشریف صاحب کوایک بار پھر عوام نے ملک کی باگ ڈورسونپ دی ہے۔ظاہر ہے اس باب میں عوام ان کے خیالات سے واقف تھے۔بعض دوسرے ذرائع بھی اس کی تائید کر رہے ہیں کہ پاکستانی قوم بھارت کے ساتھ تصادم نہیں چاہتی۔لوگ تجارت اور دوسرے معاملات میں تعاون کے خواہش مند ہیں۔ چند روز پہلے گیلپ نے ایک سروے میں یہ سوال لوگوں کے سامنے رکھا۔غیر معمولی اکثریت، 63 فی صدکی رائے تھی کہ بھارت سے تجارت کی جائے۔ کیا مناسب نہیں کہ کچھ وقت کے لیے اس حل کو بھی آ زما لیا جائے؟کیا بر صغیرہمیشہ ماضی کا اسیر رہے گا؟ دفاعِ پاکستان کے معا ملے میں ہم ابہام کا شکار ہیں۔ہم پر اس کا مفہوم واضح ہے نہ حکمت عملی۔میں نے جو سوالات اٹھائے ہیں، انہوں نے اسی ابہام سے جنم لیا ہے۔پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ملکی دفاع کے لیے جلوس برآمد ہوتے اور اپنے ہی شہریوں کو بار بار قائل کیا جا تا ہے۔میں نے کبھی نہیں سنا کہ امریکا میں کبھی دفاعِ امریکا ریلی برآمد ہوئی ہو۔کبھی نہیں پڑھاکہ ٹوکیو میں دفاعِ جاپان کے لیے دھرنا دیا گیا ہو۔لوگ قومی دنوں پہ اظہارِ مسرت کے لیے اجتماعات کرتے ہیں اور ہم بھی ایسا کرتے ہیں۔یہ قومی جذبات کو زندہ رکھنے کا ایک فطری طریقہ ہے۔لیکن میں نہیں جا ن سکا کہ اسلام آ باد کے ڈی چوک میں بھارت کو للکارنے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے؟پاکستان میں شاید ہی کو ئی ہو گا جسے دفاعِ وطن کے لیے قائل کرنے کی ضرورت ہو۔ پھر کروڑوں روپے خرچ کرکے اجتماع منعقد کرنے اور اس کے نتیجے میں معمول کی زندگی متاثر کرنے میں کیا حکمت ہے؟اسی لیے میری گزارش ہے کہ ہمیںاس معا ملے میں واضح ہو نا چاہیے کہ دفاعِ پاکستان سے کیا مراد ہے؟میں اس باب میں اپنے فہم کو چند نکات کی صورت میں بیان کر نا چا ہتا ہوں: جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت فوج کا فریضہ ہے۔قوم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دفاعی ضروریات کے لیے وسائل فراہم کرے۔اس لیے دفاعِ پاکستان کے نام پر فوج کے علاوہ کسی عسکری یا مسلح سرگرمی کی ملک میں اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ روایتی ہتھیاربہت مہنگے ہو چکے۔ان کے حصول کے لیے معیشت کا توانا ہونا لازم ہے۔سماجی اداروں کویہ حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے کہ نوجوانوںمیں دفاعِ پاکستان کا جذبہ انہیں اس پر ابھارے کہ وہ ا پنی صلاحیتیں پاکستان کے سیاسی و معاشی استحکام کے لیے صرف کریں۔ دفاعِ پاکستان کے نام پر ان کے جذبات کے استحصال کا ہر باب بند ہو نا چاہیے۔ نوجوانوں کی پہلی اور آخری ترجیح علم کا حصول ہو۔ریاست اور سماج کو سختی کے ساتھ ہر اس تحریک اور رحجان کو ختم کر نا چاہیے جو نوجوانوں کو اس مقصد کے ہٹانے کا باعث بنے۔ خارجی دشمنوں یا دوسرے ممالک کے ساتھ ہمیں کیا معاملہ کرنا ہے، اس کا فیصلہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔یہ اس نے طے کر نا ہے کہ کس کے ساتھ تجارت کر نی ہے اور کس سے جنگ؟ اس کا فیصلہ سڑکوں پہ اور جلوسوں میں نہیں ہو نا چاہیے۔ بھارت کے ساتھ معاملات کی صحیح نوعیت کیا ہے، حکومت قوم کے سامنے اپنا مو قف واضح کرے۔کشمیر کے علاوہ کسی معا ملے میں ریاست کا موقف معلوم ہے نہ حکمت عملی۔ مثال کے طور پرہم روز اخبارات میں پڑھتے ہیں کہ بھارت نے ہمارے پانی پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس سے کیا مراد ہے؟اس حوالے سے چند سوالات ہیں: پانی کی تقسیم پر کیا پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی معاہدہ مو جود ہے؟سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟کیا بھارت ایسی معاہدوں کی خلاف ورزی کر رہاہے؟اگر ایسا ہے تو حکومتِ پاکستان کی حکمت عملی کیا ہے؟ کیا پاکستان نے سفارتی آداب کے مطابق بھارت سے شکایت کی ہے؟ بھارت کا جواب کیا ہے ؟کیا پاکستان کسی بین الاقوامی عدالت میں جا سکتا ہے؟ اگر پاکستان شکایت کے باوجود نہیں گیا تو کیوں؟اگر بھارت معاہدوں کی خلاف ورزی کررہا ہے اور مذاکرات سے نہیں مان رہا تو کیا پاکستان اس کے خلاف جنگ کرے گا؟اگر نہیں تو کیا کرے گا؟اگر ایسا کچھ نہیں توکیا پانی کی چوری کا مقدمہ محض ایک افسانہ ہے؟عوام کے پاس ان سوالات کے واضح جواب مو جود نہیں۔ریاست کو اس حوالے سے اپنا موقف بتانا چاہیے تاکہ ابہام میں کمی آئے۔ دفاعِ پاکستان اس وقت ایک مذہبی اور جذباتی کاروبار ہے یا پھر ریٹائرڈ جرنیلوں کا مشغلہ۔دفاعِ پاکستان کے لیے ہم سب کواپنا کردار ادا کرنا ہے لیکن اس کا صرف ایک محاذ نہیں ہے۔پاکستان کے آئین نے سب کے لیے ایک کردار طے کر دیا ہے۔بلوچستان کے دیہی علاقے میں بچوں کو پڑھانے والا ایک استاد بھی دفاعِ پاکستان کی جنگ لڑ رہا ہے اور سیاچن کی برف پوش چوٹیوں پہ بیٹھا ایک سپاہی بھی۔سب کا ایک دائرہ کارہے۔دنیا کے ہر مہذب ملک میں اس کی پابندی کی جاتی ہے۔پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں دفاعِ پاکستان کا معرکہ دارالحکومت کے چوک میں لڑا جاتا ہے۔ آخر ہم ہر معا ملے میں مہذب دنیا سے مختلف کیوں ہیں؟