سماجی سطح پہ چند باتیں ہمیں ضرور طے کر لینی چاہئیں۔ ان میں سے ایک احتجاج کے آداب ہیں۔ ہمارے شہروں میں کم و بیش ہر روزاحتجاج ہو تا ہے۔ اس کے لیے بڑی شاہ راہوں کا انتخاب ہو تا ہے۔ایک جلوس برآمد ہو تا ہے اور پھر اس کے بعد پورا شہر معطل ہو جا تا ہے۔ بیمار، بچے، بوڑھے، خواتین، سب بلا امتیاز متاثر ہوتے ہیں۔روکا اس لیے نہیں جا سکتا کہ ریاست بہت کمزور ہے۔اس میں یہ صلاحیت ہے نہ ہمت کہ وہ کسی گروہ کو روک سکے۔کبھی مذہب اس کی راہ میں رکاوٹ بنتاہے،کبھی جمہوری آزادی،کبھی سیاسی مفاد اور کبھی کچھ اور۔کمزور حکومت اور ریاست میں یہ جرأت نہیں ہو تی کہ وہ کسی کا ہاتھ تھام سکے۔اس کا نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔چنانچہ وہ بھگت رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ دو سطحوں پہ اب اقدام ہو نا چاہیے۔ایک قانون سازی کی سطح پہ اور دوسراشعوری سطح پر۔پارلیمنٹ کے حوالے سے یہ شکایت رہتی ہے کہ عوامی حمایت میں کوئی قانون نہیں بنتا۔ قانون سازی کے باب میں ترجیحات کا تعین کچھ اس طرح ہو تا ہے کہ بالائی طبقات کے مفادات ہی پیش نظر رہتے ہیں۔اس اعتراض کو رفع کرنے کا ایک مو قع ہے کہ احتجاج کی قانونی حدود کا تعین کر دیاجائے۔ایک تجویزاکثرسامنے آتی رہی ہے کہ ہر بڑے شہر میں ایسی جگہ مختص کر دی جا ئے جہاں لوگ احتجاج کر یں۔اس ضمن میں ہائیڈ پارک لندن کی مثال بھی دی جا تی ہے۔یہ ایک قابلِ عمل تجویز ہے اور اس پر ضرور سوچا جا نا چا ہیے۔ میڈ یا جب کسی احتجاج کو عام کر دیتا ہے تو عوامی زندگی کو متاثرکیے بغیر بھی احتجاج کو موثر بنا یا جا سکتا ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں اگرچہ عام شاہراہوں پہ بھی احتجاج ہو تا ہے لیکن یہ بات تسلیم کر نی چاہیے کہ وہ لوگ احتجاج اور اختلاف کے آداب سے واقف ہیں۔وہ احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرتے ہیں لیکن بالعموم ٹریفک متاثر ہوتی ہے نہ زندگی کے عمومی مشاغل ۔ ہمارا معاملہ یہ نہیں ہے۔ ہم تشدد کو احتجاج کا حصہ سمجھتے ہیں اور یہ بات ثابت ہے کہ اس حوالے سے کسی سیاسی یا مذہبی جماعت نے اپنے کا رکنوں کی تربیت نہیں کی۔ماضی میں جماعت اسلامی کے لوگ بہتر رویّے کا مظاہرہ کرتے تھے۔اگر دفعہ144 کے نفاذمیں بھی ان کو احتجاج کر نا ہو تا تو چار چار کی ٹو لیوں میں کرتے تا کہ قانون کا احترام باقی رہے اور عام آ دمی بھی متاثرنہ ہو۔ خیر اب جماعت کا معا ملہ بھی قصہ پارینہ ہے۔ اِس وقت تو کو ئی گروہ ایسا نہیں جس سے غیر متشدد احتجاج کی امید رکھی جا سکے۔ اس بنا پہ میری تجویز تو یہ ہو گی کہ عام سڑکوں پہ ہر قسم کے مظاہروں پہ پابندی ہو نی چا ہیے اور اس کی خلاف ورزی قابلِ تعزیر جرم ہو۔ شعوری سطح پہ بھی ہمیں اس معاملے کو مو ضوع بنا نا ہو گا۔ میڈیا اور دوسرے ابلاغی ذرائع کو استعمال میں لاتے ہو ئے، ہمیں عوام کو سمجھاناہو گا کہ احتجاج کا مہذب اسلوب کیا ہے۔این جی اوز کو مہم چلانی چاہیے جس کے تحت عوام میں یہ شعور پیدا کیا جا ئے کہ احتجاج کا مطلب تشدد نہیں ہو تا۔اس سے مطلوب عوامی زندگی کو متاثر کر نا نہیں ۔یہ احتجاج کے موثر ہونے کی دلیل نہیں۔اسی طرح غیر سرکاری سماجی تنظیموں کو وفود بنا کر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملنا چاہیے اور ان پر سماجی دباؤ بڑھا نا چاہیے کہ وہ اپنے منشور اور سیاسی حکمت عملی میں اس کا اہتمام کریں کہ احتجاج تہذیب کے دائرے میں رہے۔میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک دوسرے حوالے سے اس طرح کی ایک کوشش کی تھی۔ ’ادارہ تعلیم و تحقیق ‘کے اہتمام میں ہم نے مکالمے کی ضرورت اور آداب پر ایک مہم منظم کی۔ اس کے ایک سیمینار میں اہل سیاست کو مدعو کرتے ہوئے ان کے سامنے یہ سوا ل رکھا گیا کہ کیا ٹی وی مباحثوں میں وہ مہذب انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش نہیں کر سکتے؟سیمینار کے اختتام پر شریک اہلِ سیاست نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اس کا خیال رکھیں گے۔عملاً ایسا کم ہی ہوا لیکن اس کا فائدہ ضرور ہوا۔اگر اسے ایک مستقل مہم بنا دیا جائے تو رویّوں میں تبدیلی ممکن ہے۔یہی طریقہ ہم احتجاج کے حوالے سے بھی اختیار کر سکتے ہیں۔ ہم سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کوجمع کریں اورانہیں آ مادہ کریں کہ وہ احتجاج کے مہذب طریقے کو اپنی جماعت میں رائج کریں گے۔ میرے نزدیک احتجاج کی نفسیات اصلاًغیر تعمیری ہے۔ایک ایسی قوم ہی میں اس کا چلن ہو سکتا ہے جس کے پاس مثبت طور پر کر نے کوکچھ نہیں ہو تا۔سیاسی و مذہبی جماعتیں جب فکری دیوالیہ پن کا شکار ہو تی ہیں تووہ اپنے کارکنوں کو مصروف رکھنے کے لیے انہیں احتجاج پر لگا دیتی ہیں۔ ایسی قیادت کا صرف ایک کام ہو تا ہے کہ وہ احتجاج کے لیے موضوعات کا انتخاب کر تی رہے‘ تاکہ ایک ختم ہو تو دوسرااحتجاج شروع کر دیا جائے۔اگر پاکستان میں کو ئی مسئلہ سامنے نہ ہو تو مصر اور شام تو ہیں ہی۔یوں سارا سال ان کارکنوں کے شب و روز کا بڑا حصہ سڑکوں پہ ہی گزرتا ہے۔ وہ اپنی تعمیر کے لیے کچھ کر سکتے ہیں‘ نہ ملک و قوم ہی کے لیے کوئی مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ جو لوگ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے احتجاج کا مستقل حصہ ہو تے ہیں، ان کی زندگی میں کوئی معا شی و سماجی ارتقا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ان جماعتوں کی قیادت شاید یہی چا ہتی ہے کہ ان کے کارکن ایسے ہی رہیں تا کہ ان کی سیاست کا ایندھن بنتے رہیں۔ اکثر ان کے اپنے بچے باہر پڑھتے ہیں لیکن یہ عوام کے بچوں کو تعلیم سے دور کرتے اور انہیں سارا سال احتجاج پہ لگا ئے رکھتے ہیں۔ احتجاج کی نفسیات یہ ہو تی ہے کہ آپ کے مسائل کا سبب کوئی دوسرا ہے۔احتجاج ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی کے خلاف ہو تا ہے۔یہ بات بعض اوقات درست بھی ہوتی ہے لیکن ہر بار نہیں۔ مسلسل احتجاج کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مسائل کے اسباب خارج میں تلاش کر رہے ہیں۔ اس کے بر خلاف تعمیری سوچ حالات کے معروضی جائزے کا ذوق پیدا کر تی ہے۔آپ اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور ہر مسئلے کا الزام دوسروں پہ نہیں تھوپتے۔ احتجاج کی نفسیات میں رہتے ہو ئے یہ سوچ پیدا نہیں کی جا سکتی۔اس سے عوام کی زندگی تو متاثر ہو تی ہے،اس کے ساتھ جو اندازِ نظر جنم لیتا ہے وہ غیر تعمیری ہوتا ہے۔میرا خیال ہے اس سے نجات کے لیے اب سماجی سطح پہ اقدام کیے جا نے چاہئیں۔ سماج کی چند روایات اگر مستحکم ہو جا ئیں تو سیاسی اتار چڑھاؤ عام زندگی کو زیادہ متاثر نہیں کر تا۔سماج میں جب رواداری ہو تو سرحدوں پہ اضطراب سے سماجی زندگی متاثر نہیں ہوتی‘ لیکن جب اقدار ختم ہو جاتی ہیں تو پھر حکومتی اور ریاستی عدم استحکام سماجی زندگی پر بھی اثر انداز ہو نے لگتا ہے۔ ہمارے ہاں اقلیتوں کے حقوق کا مسئلہ اسی سے پیدا ہوا ہے۔اس لیے میرا اصرا ر ہو تاہے کہ ہمیں اپنے نظام ِ اقدار کو مضبوط بنا نا چاہیے اور یہ ایک غیر سیاسی عمل ہے۔کیا ہی اچھا ہو اگر اس کا آ غاز ہم احتجاج کے آداب سیکھ کر کریں۔اپنی اپنی سطح پہ ہم لو گوں کو باور کرائیں کہ ہر بات پراحتجاج ضروری نہیں ہو تا اور پھر اگر احتجاج لازم بھی ہو جا ئے تو اس کے آداب ہیں اور اس کاپہلا ادب یہ ہے کہ عوامی زندگی متاثر نہ ہو۔حتجاج کرتے وقت ہمیں وہ بچے،بیماراور بو ڑھے یاد رہنے چاہئیں، ہمار ااحتجاج جن کی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے۔