ملالہ انعامات واکرام کی برسات میں بھیگ رہی ہے۔مغرب نے لطف و کرم کی انتہا کردی۔امریکا کے وائٹ ہاؤس سے برطانیہ کے بکنگھم پیلس تک پذیرائی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔میرے جیسا آ دمی بھی سوچنے پر مجبور ہے کہ :اک بندئہ خاکی اور اتنی مدارات؟میرے ملک کی معصوم بچی کسی نئی آزمائش سے تو دو چار نہیں؟ امام احمد ابن حنبلؒ کے سامنے سونے اور جواہرات کے ڈھیر لائے گئے کہ حاکمِ وقت نے ہدیہ بھیجا ہے۔نظر اٹھا کردیکھا تو رد کر دیے۔ کسی نے پوچھا: ہم نے آپ کو کبھی روتے نہیں دیکھا۔ اُس دن بھی نہیں جب آپ کی ننگی پیٹھ پہ تازیانے برسائے گئے اور آپ کے پاک وجود سے لہو کی آبشار بہہ نکلی۔کہا: ’’ظلم اور تشدد سے ترغیب اور لالچ کی آزمائش کہیں سخت ہو تی ہے‘‘۔اللہ ہماری بچی کو اس نئی آز مائش سے محفوظ رکھے کہ’’ ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں‘‘۔ میرے پاس ملا لہ کے خلاف اِس وقت کہنے کو کچھ نہیں۔اس سے کوئی ایسا کام یا ایسی بات صادر نہیں ہوئی جو قابلِ گرفت ہو۔جو کچھ سامنے آیا ہے،اُس پہ انگلی اٹھانا مشکل ہے۔ملالہ کی مذمت کے لیے بڑا حو صلہ اور ہمت چاہیے۔ایسی ہمت کہ سچ سامنے رکھا ہو اور آپ اسے جھٹلا سکیں۔مجھ میں یہ حو صلہ ہے اور نہ ہمت۔اُس کے مقاصد جلیل ہیں اور میں اس کی کامیابی کے لیے دعا گوہوں۔بات ملالہ کی نہیں ہے،اُن کی ہے جو اُسے اس وقت گود لے چکے۔کیا ان کا معاملہ محض اتنا ہے کہ وہ ایک مظلوم بچی کی جرات اور عزیمت کا اعتراف کر رہے ہیں؟میرا خیال ہے،اس بات پر گفتگو کی ضرورت ہے۔ پاکستان کا معا ملہ یہ ہے کہ یہاں صلاحیت کی پذیرائی نہیں۔سطحیت کا غلبہ ہے اور ہر شعبے پر دوسرے اور تیسرے درجے کے لوگوں کا قبضہ ہے۔ہم کوئی ایسا سماجی نظام تشکیل نہیں دے سکے جس میں باصلاحیت لوگ فطری طریقے سے نمایاں ہو سکیں۔اس کے لیے پہلا مر حلہ ادارہ سازی کا ہے۔ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت مو جود نہیں۔ہم جو ادارے دیکھتے ہیں،وہ اصلاً کسی فردِ واحد نے قائم کیے اور نتیجتاً اسی کی ذات اور افکار کے گرد گھومتے رہے۔فرد دنیا سے اٹھا تو ادارہ بھی ختم ہو گیا۔اعلیٰ تعلیم کے ریاستی اداروں سے توقع کی جاسکتی تھی کہ وہاں سے اعلیٰ صلاحیت کے تربیت یافتہ لوگ سامنے آئیں۔ ہمارے ہاں مختلف گروہوںنے انہیں اپنے افکار کی اشاعت اور فروغ کے مراکز میں بدل دیا یا بدلنے کی کوشش کی۔اس کا انجام کیا ہوا، اگرکوئی چاہے تو اعلیٰ تعلیمی اداروں کودیکھ لے، جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو۔انفرادی حیثیت میں اگر کسی نے کوشش کی تو پہلے فتویٰ اور اب گولی اس کا پیچھا کر تی ہے، یہاں تک کہ وہ دنیا یا پھر ملک کی سرحد عبورکرجائے۔ دوسری طرف مغرب ادارے بنا چکا۔اُن میں اس بات کا بھرپور اہتمام کیا گیا ہے کہ اعلیٰ صلاحیت کا آ دمی، دنیا میں کہیں پایا جاتا ہو،اسے اپنے ہاں لایا جائے۔اگر ہنر مند ہے تو اسے ہنر آ زمانے کا موقع دیا جائے۔اگر باصلاحیت نو جوان ہے تو اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے سازگار ما حو ل مہیا کیا جائے۔حتیٰ کہ اگر کوئی نام چومسکی ہو یا ایڈورڈ سعیدہو، اسے بھی اپنے خیالات کے اظہار کی آزا دی ہو۔برطانیہ کی بڑی یونیورسٹیوں میں مارکسزم کے مضبوط حلقے ہیں۔اپنے ہاں،میں تو یہ دلچسپ صورتِ حال دیکھتا ہوں کہ اردو کے کالم نگار خواتین و حضرات‘ جو امریکا کو سب سے زیادہ گالی دیتے ہیں ،امریکا ہی میں رہنا پسند کرتے ہیں۔میں چند دن پہلے امریکا میں مقیم ایک خاتون کا کالم پڑھ کے ہنس رہا تھا کہ امریکا کے لوگ سکون کی تلاش میں ہیں۔میں نہیں جان سکا کہ خاتون کالم نگار سمیت ہمارے مردو زن پھرکیوں امریکا میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں جہاں سکون نہیں۔وہ امن و آشتی کے اپنے آبائی گہوارے کا رخ کیوں نہیں کرتے؟ ان لوگوں کی وہاں مو جودگی دراصل اس بات کا اظہار ہے کہ مغرب ایک ایسا سماج تشکیل دے چکا جہاں اظہارِ رائے کی بڑی حد تک آزادی ہے اور اس کے ساتھ ایسے ادارے وجود میں آچکے جو دنیا بھر سے باصلاحیت لوگوں کو اپنے ہاں جمع کر تے ہیں اور پھر ان کی صلاحیتوں کو اپنی ترقی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔اس کا اہلِ مغرب کو دوہرا فائدہ ہو تا ہے۔ایک یہ کہ ایسے لوگ جب تک وہاں رہتے ہیں، وہ براہ راست ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اگر یہ اپنے آ بائی وطن کو لوٹ جائیں تو تہذیبی طور پر ان کے رنگ میں اس طرح رنگ جا تے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں جا کر بھی ان کے کام آتے ہیں۔بھٹو صاحب کی بیٹی اور پھر بیٹی کا بیٹا، عمران خان اور ان کے صاحب زادے، سب وہاں پڑھے ہیں یا پڑھ رہے ہیں۔ کل جب یہ ’’ملک کی خدمت‘‘ کے لیے تشریف لائیں گے تو مغرب کو ان کے ساتھ بات کرنے میں آسانی ہوگی۔ میں اسے کوئی سازش نہیں سمجھتا،حکمت کہتا ہوں۔اگر ہم اس قابل ہوں تو ہمیں بھی ایسا ہی کر نا چاہیے کہ تہذیبی ارتقا ذہین لوگوں اور تازہ افکار کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔ جس سماج کے پاس یہ اثاثہ ہو، تہذیب کی باگ اس کے ہاتھ میں رہتی ہے، جس طرح آج مغرب کے ہاتھ میں ہے۔ ملا لہ کی پذیرائی کو میں اسی تناظر میں دیکھتا ہوں۔پاکستانی سماج نے تو اُسے اگل دیا تھا۔مغرب نے پہچان لیا۔اس کی علالت کے دوران میںبڑی مہارت کے ساتھ اُس کی فکری و تہذیبی پرورش کی گئی۔اسے قدرت نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔اس کے پرانے انٹر ویو دیکھیے۔کم عمری میں اتنے بااعتماد اور قادرالکلام لوگ کم ہوتے ہیں۔مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کا خواب بھی اس کے ذہن میں کسی اور نے بو یا ہے۔تاہم مغرب نے مستقبل کے حوالے سے اس کا جو کردار سوچا ہے،اہلِ مغرب اس کے بارے میں اپنی گرم جو شی پر قابو نہیں رکھ سکے۔اسے قبل ازوقت اتنی پذیرائی دے دی کہ مجھ جیسے آ دمی کے کان بھی کھڑے ہو گئے جو کسی سازشی تھیوری پر یقین نہیں رکھتا۔ہمارے سماج میں اس کا جو ردِ عمل ہو رہا ہے وہ ملالہ کے لیے اچھا ہے نہ خود مغرب کے لیے ۔یورپ اور امریکا میں بیٹھے لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں کہ مو روثی سیاست کا معا ملہ عام سیاست سے بہت مختلف ہوتا ہے۔ اگر یہاں کسی کے بارے میں یہ شک ہو جائے کہ وہ امریکا کے قریب ہے تو سماج میں اس کی پیش قدمی رک جاتی ہے۔کسی دور میں جماعت اسلامی کے مخالفین اس کی فکری اورسیاسی پیش رفت کو روکنے کے لیے اسے امریکا کا ایجنٹ کہتے تھے۔یہی ہتھیار آج جماعت اسلامی اپنے فکری ناقدین پر آ زماتی ہے۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں یہ بات کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے کہ فلاں امریکایا مغرب کا آ دمی ہے۔ بدقسمتی سے آج ملالہ کے غیر معمولی پذیرائی نے پاکستان میں اُس کے روشن نقوش کو دھندلا دیا ہے۔مجھے تشویش ہے کہ وہ مستقبل قریب میں جو تعلیمی منصوبے شروع کر نا چاہتی ہے،یہ مغربی پذیرائی،ان کی کامیابی کے راستے میں حائل ہو جائے گی۔ ملالہ کو کیا کرنا چاہیے؟اس سوال کا جواب ،آپ چاہیں تواس تجزیے میں تلاش کرسکتے ہیں۔ مجھے توخاتمہ کلام میں احمد ندیم قاسمی یاد آگئے۔ بیگانۂ احساسِ جمال اچھا ہے غنچے کھلتے ہیں توبک جاتے ہیں بازاروں میں