پاکستان کی کیا چیز آپ کے لیے فخر اور افتخار کا باعث ہے؟ گیلپ کے ایک تازہ ترین سروے میں یہ سوال عوام کے سامنے رکھا گیا۔ اکثریت ( 26فیصد) کے خیال میں ایٹم بم ان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ بارہ فیصد کے نزدیک افواجِ پاکستان۔ پندرہ فیصد کا کہنا ہے کہ کچھ باعثِ فخر نہیں۔ عوام کا یہ حسنِ انتخاب اس وقت میرا موضوع ہے۔ میں ان جوابات میں قومی مزاج کے اجزائے ترکیبی تلاش کر رہا ہوں۔ میں یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ قومی مزاج کیسے بنتا ہے اور وہ کیا عوامل ہیں جو اس کی تشکیل کرتے ہیں۔ عوامی رائے جس طرح متنوع ہے، اس سے پہلا تاثر یہ ملتا ہے کہ لوگوں کو اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں دقت پیش آئی ہے۔ انہیںکچھ دیر سوچنا پڑا ہے۔ قومی زندگی میں کوئی ’خوبی‘ ایسی نمایاں نہیں تھی کہ بغیر کسی کاوش کے، نگاہ اُس کے طرف اٹھتی۔ عوام کو کچھ دیر ذہن پہ زور دینا پڑا ہو گا پھر کہیں جا کر، کسی خوبی تک رسائی ہو ئی ہو گی۔ میرا یہ تاثر اس لیے بھی ہے کہ اگر میرے سامنے یہ سوال رکھا جاتا تو میں بھی شاید فی البدیہہ کوئی جواب نہ دے سکتا۔ یہ بات سب سے زیادہ باعثِ تشویش ہے۔ وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے۔ اس کے باوصف، ہمیں اپنے ملک میں ان خوبیوں کی تلاش میں مشکل پیش آتی ہے جو باعثِ افتخار ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بے پناہ فطری حسن ہمارا امتیاز ہو سکتا ہے جو ملک کے چاروں اطراف پھیلا ہوا ہے۔ سوات…؟ جی ہاں لیکن وہاں فضل اللہ بھی تو ہے۔ نانگا پربت…؟ جی ہاں، لیکن وہ تو غیرملکی سیاحوں کا مقتل ہے۔ گلگت‘ بلتستان؟ جی ہاں، لیکن فرقہ واریت کا عفریت بھی تو وہیں بسیرا کرتا ہے جس سے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں۔ فطرت نے اپنا حسن ہم پہ نچھاور کر دیا لیکن اِسے سنوارنا تو ہم نے تھا۔ اب ایسی کون سی جگہ ہے جس پر ہم ناز کر سکیں؟ اہل پاکستان کی اکثریت نے ایٹم بم کو باعثِ افتخار سمجھا ہے۔ کیا کوئی ہتھیار کسی قوم کے لیے فخر کا سبب ہو سکتا ہے؟ میرے لیے تو یہ بات باعثِ افتخار نہیں، باعثِ تشویش ہے۔ ہتھیار بدست ہونا تو وہ ناپسندیدہ صورت حال ہے جو کسی مجبوری ہی میں قبول کی جا سکتی ہے۔ پاکستان کبھی ایٹمی قوت نہ بنتا اگر بھارت پہل نہ کرتا۔ انسان کا اصل کمال یہ ہے کہ اس نے زندگی کو خوب صورت اور حسین بنانے میں کیا کردار ادا کیا۔ سماج تب حسین ہوتا ہے جب اس کا تزکیہ ہو جائے۔ یہی معاملہ فردکا بھی۔ پیغمبر اسی لیے انسانی تاریخ کا گلِ سرسبد ہیں کہ وہ زندگی کا تزکیہ کرتے ہیں۔ شہروں کو ’بلادِ امن‘ بنا دیتے ہیں۔ سکندر جیسے جنگجوئوں پر انسانیت کبھی فخر نہیں کر سکتی‘ جن کی شہرت بستیاں اجاڑنے کی ہے۔ جنگ کبھی کسی مہذب آ دمی کا انتخاب نہیں ہو سکتا‘ لیکن یہ بھی اس کا شرف ہے کہ جنگ اس پر مسلط ہو جائے تو وہ بہادری سے لڑتا ہے۔ جو ایسے موقع پر بزدلی دکھائے، تاریخ اسے معاف کرتی ہے اور نہ اس کا خدا، اگر معاملہ جہاد فی سبیل اللہ کا ہے۔ ایٹم بم کے انتخاب کی ایک وجہ ہے۔ ہمارے ہاں ریاست اور اہلِ دانش نے قوم کو یہی سکھایا ہے کہ جنگجو ہونا کسی شخص کی بہت بڑی خوبی ہے۔ بغاوت کو انسانی شرف شمار کیا جاتا ہے۔ لوگ آپ بیتی لکھتے ہیں اور فخر کے ساتھ عنوان باندھتے ہیں: ’ہاں، میں باغی ہوں‘۔ کسی کے فضائل بیان ہوتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ بغاوت تو اس کی سرشت میں تھی۔ بغاوت ہر موقع پر خوبی نہیں ہوتی۔ بغاوت اور جنگجوئی، مستثنیات ہیں۔ سماج میں ہمیشہ جنگ ہوتی ہے نہ بغاوت۔ ہم نے اسے ایک مستقل قدر مان کر اس طرح آئیڈیلائز کیا ہے کہ ہیرو کے لیے جنگجو ہونا لازم ہو گیا ہے۔ اسی تربیت کا یہ نتیجہ ہے کہ کسی کو’بالِ جبریل‘ دکھائی نہیں دی کہ وہ اس پر فخر کرے۔ وہ بال جبریل‘ جو اردو نظم کا تاج محل ’مسجدِ قرطبہ‘ اپنے اوراق میں آباد کیے ہوئے ہے۔ ’جاوید نامہ‘ نظر نہیں آیا کہ، باعثِ افتخار ہو۔ اگر دکھائی دیا تو ایٹم بم۔ مجھے معلوم ہے کہ لوگ اس پر جواباً اقبال کا مصرع پڑھیں گے: شمشیروسناں اول طاؤس و رباب آخر۔ ایسے لوگوں کو میرا مشورہ ہو گا کہ اقبال کے نظامِ فکر کوسمجھنے کے لیے ایک بار پھر ان کا بالاستیعاب مطالعہ کریں اور اس بار شاعری کے ساتھ ان کی نثر ضرور پڑھیں۔ اس سروے کے مطابق سات فی صد کی رائے میں پاکستان کا اسلامی ریاست ہونا ان کے لیے باعثِ فخر ہے۔ اس وجہ سے پاکستان میرے لیے بھی باعث ِ فخر ہوتا اگر یہ امرِ واقعہ ہوتا۔ یہ ایک حسین خواب تھا لیکن بدقسمتی سے اس کی ایسی بھیانک تعبیریں ہمارے سامنے آئی ہیں کہ اب یہ خواب دیکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ یہ اللہ کا شکر ہے کہ خلافتِ راشدہ تاریخ کی ایک معلوم حقیقت ہے۔ اسلامی ریاست کو دنیا نے اپنی آنکھوں کے ساتھ دیکھا ہے اور اس فرق کو جانا ہے جو ایک اسلامی اور ایک غیراسلامی ریاست میں ہوتا ہے۔ اس بنا پر ہم اس تصور کا دفاع کر سکتے ہیں ورنہ دورِ حاضر میں اسلامی ریاست کے علمبرداروں نے تو لوگوں کو اس سے بددل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ مجھے معلوم نہیں کہ وہ سات فی صد لوگ کون ہیں جنہیں پاکستان ایک اسلامی ریاست معلوم ہوتا ہے۔ اب تو حافظ سعید صاحب جیسی شخصیت کو بھی برطانیہ ہی اسلامی ریاست کا مثیل دکھائی دیتا ہے۔ (محترم اظہارالحق صاحب نے چند دن پہلے اس باب میں اُن کا موقف نقل کیا ہے جو انہوں نے عدالت کے روبرو اختیار کیا ہے) سروے عصرِ حاضر میں عوامی رائے کو جاننے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم اس سے معلوم کر سکتے ہیں کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ اگر اس سروے پر بھروسہ کیا جائے جس کا میں نے ذکر کیا ہے تو میرے نزدیک یہ باعثِ تشویش ہے؛ تاہم غیرمتوقع نہیں۔ ہم نے قومی مزاج کی تشکیل کو کبھی اپنا موضوع نہیں بنایا۔ جن لوگوں کا یہ کام تھا، انہوں نے بھی عوامی مقبولیت کو مطمحِ نظر بنایا۔ زخموںاور جذبات کی سوداگری مقبولیت کا سب سے آسان راستہ ہے۔ مجھے تشویش ہے کہ اب سنجیدہ لکھنے والوں نے بھی اسی اسلوب کو اختیار کر لیا ہے۔ جنہیں قدرت نے شعور بخشا تھا، انہوں نے بھی، محسوس ہوتا ہے کہ اس کٹھن راستے سے گریز کا ارادہ کر لیا ہے۔ ریٹنگ اب ٹی وی اینکر ہی کا نہیں کالم نگار کا مسئلہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ یہ سروے ہی نہیں، میرا مشاہدہ اور تجربہ بھی یہ کہتے ہیں کہ سماجی تعمیر کے باب میں بہت کم کام ہوا ہے۔ جوکچھ ہوا ہے، وہ زیادہ تر غلط سمت میں۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے قومی شاکلہ ( مزاج، راستہ) کی تشکیل میں چند عوامل کا کردار بنیادی ہے۔ مثال کے طور پر: فکرِ اقبال، فکرِ مودودی، روایتی دینی فکر، مغربی افکار سے مستعار فکر، ریاستی اداروں کا فکر۔ میرا احساس ہے کہ 1971ء کی دہائی میں، ان افکار کے دورِ اول کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد دوسرا دور شروع ہوا۔ دوسری نسل میں ان افکار کو کوئی ایسی شخصیت مل سکی نہ ادارہ جو انہیں آگے بڑھاتا یا نئے حالات میں ان کی تفہیمِ نو کرتا۔ اس دور میں ریاست کا دیا گیا فکری بیانیہ (Narrative) غالب ہوا اور یہ سب افکار اس کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ میرا احساس یہ بھی ہے کہ اس دوسرے دور میں ان افکار کے مثبت پہلو نظروں سے اوجھل ہو گئے اور ان کے وہ پہلو نمایاں ہوئے جنہیں متروک ہو جانا چاہیے تھے۔ اسی عہد میں طاہرالقادری صاحب جیسے لوگوں کا ظہور ہوا جنہوں نے قومی مزاج کو متاثر کیا۔ ان کا معاملہ یہ رہا کہ انہوں نے دورِ اول کو بطور مثال سامنے رکھا جس کے تحت، ایسی ہر کوشش کا حاصل سیاست ہے۔ یوں انہوں نے اپنا کاتا ہوا سوت، اپنے ہی ہاتھ سے ریزہ ریزہ کرنا شروع کر دیا۔ جاوید احمد غامدی صاحب اس حوالے سے بڑی خدمت سرانجام دے سکتے تھے لیکن ایک ٹریجڈی کا عنوان بن گئے۔ یہ ٹریجڈی ان کی نہیں، قوم کی ہے۔ آج اگر ایٹم بم کا ہونا اکثریت کے نزدیک باعثِ افتخار ہے تو یہ اظہار ہے کہ قومی مزاج کی تشکیلِ نو ناگزیر ہو چکی۔ کاش کوئی یہ بھاری پتھر اٹھا سکے۔ کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب اک آبلہ پا وادیٔ پُرخار میں آوے