کیا اس ملک میں اب خارجہ امور کے فیصلے سڑکوں پر ہوں گے؟کیا تحریکِ انصاف جانتی ہے کہ وہ کس خطرناک رجحان کی آبیاری کر رہی ہے؟عمران خان نوازشریف صاحب کو لیڈر بنا نا چاہتے ہیں،کیا وہ جانتے ہیں لیڈر کیا ہوتاہے؟دنیا اعتدال کی طرف لوٹ رہی ہے۔ایران کی قیادت احمدی نژاد سے حسن روحانی کو منتقل ہو چکی ۔ایران اور 'شیطانِ کبیر‘گلے مل رہے ہیںلیکن پاکستان روز بروزانتہا پسندی کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔حیرت ہے کہ اس ملک میں لوگ اس راہ کے مسافر کو لیڈر کہنے لگے ہیں۔
ایک بار پہلے بھی لکھاتھا:''ایک مدت ہوئی، اس ملک میں کوئی لیڈر پیدا نہیں ہوا۔ عوامی جذبات کی منڈی لگی ہے جہاں وہ سوداگر بیٹھے ہیں جن کا خیال ہے کہ جماعت بنا لینے یا سیاست کے چندکھلاڑیوں کو جمع کرنے سے کوئی بھی لیڈر بن سکتا ہے۔اس پر مستزاد سرمایہ۔ اگر پیسے ہیں تو نعرہ لگانے والے بھی بہت مل جائیں گے۔سیاست اب ایک تماشے کا نام ہے اور مداریوں کو جدید لغت میں لیڈر کہا جانے لگا ہے۔
لیڈر وہ نہیں ہوتا جو عوام کے پیچھے چلتا ہو،وہ فنکار ہوتا ہے جسے ساری دلچسپی داد اور تالی بجانے سے ہوتی ہے۔ جتنی داد ملی، جتنے ہاتھ تالی کے لیے بلند ہوئے وہی اس کا حاصل ہے اور منزل بھی۔اس کے برخلاف لیڈر اپنی ایک رائے رکھتا ہے، وہ کسی کا مقلد نہیں ہوتا، لوگ اس کی تقلید کرتے ہیں۔ یہ لازم نہیں کہ وہ عوامی جذبات کا ناقد ہی ہو۔ وہ ان سے ہم آہنگ بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ اس کا مقصود نہیں ہوتا۔ اگر اس کے خیال میں کوئی بات عوامی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی اور سچ ہے تووہ کہہ گزرتا ہے اور اسے امید ہوتی ہے کہ اس کا اخلاص عوام کو اس کا ہم خیال بنا دے گا۔
لیڈر عوام کے جذبات سے نہیں کھیلتا، ضرورت پڑے تووہ انہیں مشکل راستے بھی دکھاتا ہے، اس کا ایک مؤقف اور نقطۂ نظر ہوتا ہے،اس کی بنیاد پر وہ ہم خیال تلاش کرتا اور سیاست کرتا ہے۔ ہماری سیاست میں بھٹو لیڈر تھے۔ اس سے پہلے قائداعظم تو تھے ہی لیڈر۔علامہ مشرقی بھی لیڈر تھے۔ علما کی صفوں سے مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی بھی لیڈر تھے۔ انہوں نے جسے درست سمجھا، اسے بیان کیا۔ لوگوں کی مخالفت مول لی لیکن اپنے نقطۂ نظر سے محض اس بنا پر رجوع نہیں کیا کہ وہ عوامی سطح پر غیر مقبول ہے۔وہ دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن سطحِ زمین پر اپنے نقش چھوڑ گئے‘‘۔یا پھرجیسے عمران خان کرکٹ کی دنیا میں لیڈر تھے،جب تک گیند اور بلا ہے، عمران کا ذکر ہوتا رہے گا۔
پاکستان کو آج لیڈر کی ضرورت ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک وژن کی۔قوم کو چند بنیادی باتوں کا فیصلہ کرنا اور پھر یکسو ہو نا ہے۔وحدتِ عمل کے لیے وحدتِ فکرچاہیے۔پراگندگیٔ خیال اور حکمت سے دوری کا ثمر وہی ہو سکتا ہے جو ہم سمیٹ رہے ہیں۔تحریکِ انصاف کو یہ حق ہے کہ وہ نیٹو سپلائی کے باب میں اپنا نقطہ نظر قوم کے سامنے رکھے۔اس کا یہ حق بھی ثابت ہے کہ وہ حکومت کی حکمت عملی کواگر غلط سمجھتی ہے تو احتجاج کرے لیکن خارجہ پالیسی کا تعین اس کا کام نہیں، یہ حکومت کا حق ہے۔ یہ حق اُسے آئین دیتاہے ، مذہب دیتا ہے اور اخلاق بھی۔نیٹو کے ٹینکر ایک معاہدے کے تحت پاکستان کی سرزمین سے گزر رہے ہیں۔جب ایک حکومت کوئی معاہدہ کرتی ہے تو آئین اور مذہب دونوں کی رُو سے عوام اس کے پابند ہوتے ہیں۔نیٹو کی گاڑیوں کی حفاظت پاکستان کے عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔معاہدے کے باب میں یہی بات علمائے دین نے لکھی ہے اور یہی نقطہ نظر علمائے قانون کا بھی ہے۔نیٹو کنٹینرزکے ڈرائیوروں پر جو تشدد کیا گیا، غیر آئینی تھا اور غیر اخلاقی بھی۔لیڈر قوم میں اخلاق اور آئین کی پابندی کا ذوق پیدا کرتا ہے۔متحدہ ہندوستان کی ساری قیادت سول نا فرما نی کا مطالبہ کر رہی تھی،قائد اعظم نے اسے غلط سمجھا، تنہا ہوگئے لیکن اپنی رائے پر قائم رہے۔خلافت عثمانیہ کے نام پر جذبات کا بے مقصد بازار گرم تھالیکن وہ اس سے دور رہے۔ قائد اعظم اسی طرح بنتے ہیں۔
نیٹو سپلائی کی بندش سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت رک گئی۔روزانہ کم از کم سات سے آٹھ سو ٹرک اس سرحد کو عبور کرتے ہیں۔کھانے پینے کی اشیا جاتی ہیں۔ سبزیاں،پھل اور دوسری اشیا برباد ہوگئیں۔تحریکِ انصاف کے پیش نظر یہ نہیں تھا لیکن یہ ایک غلط فیصلے کا غیر مطلوب نتیجہ(Side Effect) ضرور ہے ۔کیا لیڈر نتائج سے بے خبر ہوکرفیصلے کرتے ہیں ؟یک رخا پن جنرل مشرف صاحب کی حد تک گوارا ہے کہ وہ لیڈر نہیں تھے۔وہ کارگل جا نے کا فیصلہ کرسکتے تھے لیکن کوئی لیڈر یہ نہیں کر سکتا۔
تحریکِ انصاف کے اس اقدام سے یہ خطرناک رجحان بھی جنم لے گا کہ ہر گروہ جو حکومت کے کسی اقدام کو غلط سمجھے گا، اسے بزور بدلنے کی کوشش کرے گا۔ کل اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت نہیں ہو نی چاہیے تو تحریکِ انصاف کے اس فلسفے کے تحت وہ یہ حق رکھتا ہے کہ واہگہ بارڈر پر کھڑا ہو جائے اور تجارتی قافلوں کو روک لے۔ جو مقد مہ نیٹو اور امریکہ کے خلاف قائم ہو تا ہے،وہ بدرجہ اُتم بھارت کے خلاف کھڑا کیا جا سکتا ہے۔بھارت بھی پاکستان میں فساد کی کوششوں میں ملوث ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں پر ظلم کا مرتکب ہوا ہے۔ آگے چلیے! کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس ملک کی عدالتوں میں انصاف نہیں ہو رہاتووہ ایک جتھا بناکر عدالت کا گھیراؤ کر لے گا کہ چو نکہ یہاں انصاف نہیں ہو رہا، اس لیے عدالت بند۔اگلا قدم یہ ہو گا کہ قاضی سڑکوں پہ بٹھا کر عوام کو 'سستا اور فوری‘ انصاف فراہم کیا جائے گا۔طالبان آخر کس طرزِ عمل کا نام ہے؟تحریک انصاف نے پارٹی اور صوبائی حکومت میں امتیاز کر نے کا حیلہ استعمال کیا ہے۔حیلہ سازی اسلامی روایت میں محمودسمجھی گئی ہے نہ جدید اخلاقیات میں۔
آج پاکستان کا بحران جتنا بڑا ہے، افسوس یہ ہے کہ قیادت اتنی ہی چھوٹی ہے۔جہانبانی محض اخلاص سے نہیں ہو سکتی،اس کے لیے ایک لا زمی شرط بصیرت بھی ہے۔اس پہلو سے خلافتِ راشدہ کا جائزہ لیا جائے جو اخلاق کے باب میں بے مثال سیاست کا مظہر تھی تو حیرت ہوتی ہے۔سید نا عمر فاروقؓ کی کابینہ کیسی تھی؟عمال کیسے منتخب کیے جاتے تھے؟شورش پیدا ہو جائے تو اس سے کیسے معا ملہ کیا جاتا تھا؟ اہلِ اخلاص کا احترام بہت تھا لیکن اگرصلاحیت نہیں تھی تو امورِ سلطنت میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ عمران خان کی دیانت پر شبہ نہیں لیکن کیا ہم اُن کی بصیرت پر بھی اعتبار کر سکتے ہیں؟ اس سوال نے مجھے تو پریشان کر رکھا ہے۔میں اُن کے بارے میں حسنِ ظن رکھتا ہوں، اس لیے اس سوال کا سامنا کر نے سے ڈرتا ہوں۔کیا ان آ نکھوں نے جماعت اسلامی کے بعدایک نیا قومی سانحہ دیکھنا ہے؟ وقت بہت بے رحم ہے،جو اس کے پیمانے پر پورا نہیں اترتا،وہ اسے مسترد کر دیتا ہے۔ وقت کو اس سے غرض نہیں ہو تی کہ کوئی ماضی میں امام الہندتھا یا فخرِ ایشیا۔خسارہ لیکن قوم کا ہے جو ابھی تک ان سیاست دانوں کے ہاتھ میں کھلونا بنی ہوئی ہے جنہیں وہ غلطی سے لیڈر سمجھتی ہے۔