جنرل ہارون اسلم نظر انداز ہوئے تو انہیں دکھ ہوا۔ یہ فطری ہے لیکن جس طرح انہوں نے اس کا اظہار کیا‘ وہ کسی ایسے شخص کے شایانِ شان نہیں تھا جو پاک فوج جیسے ادارے کی سربراہی کا خواہش مند ہو۔ ایسے شاندار اور باوقار ادارے کی قیادت اُسی کو زیبا ہے جو خوشی اور غم میں اپنے وقار سے دست بردار نہ ہو۔ اُس کے دشمن بھی جانتے ہوں کہ یہ اُس روایت کا امین ہے جس میں صلاح الدین ایوبی جیسے لوگ ہو گزرے ہیں اور جس کے نصاب میں خالد بن ولیدؓ جیسی جلیل القدر شخصیات کے تذکرے بطور مثال شامل ہیں۔ فتح ہو یا شکست، غازی ہوں یا شہید، یہ اپنے وقار کو قربان نہیں ہونے دیتے۔
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن‘ مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پس مرگ ہم نے بُھلا دیا
جنرل ہارون نے وزیر اعظم کے عشائیے میں شرکت نہیں کی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی صدارت میں ہونے والے کور کمانڈرز کے آخری اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوئے۔ استعفیٰ بھی دے دیا۔ چلیں، استعفے کو کسی حد تک روایت کہا جا سکتا ہے لیکن باقی معاملات میں اُن سے مختلف رویے کی توقع تھی۔ میں فوج کے معاملات سے زیادہ باخبر نہیں لیکن یہ ردِعمل دیکھنے کے بعد مجھے خیال ہوتا ہے کہ نواز شریف صاحب کا فیصلہ حکیمانہ ہے۔ اللہ کرے کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں اس پاک ادارے کا دامن داغوں سے پاک رہے۔ ہم ایک اور یحییٰ خان یا پرویز مشرف کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اگر حالات غیرمعمولی نہ ہوں تو نئے سپہ سالار کا تقرر معمول کا واقعہ ہے۔ پاکستان آج جس صورتحال سے گزر رہا ہے وہ غیرمعمولی ہے۔ ہمیں بعض بنیادی فیصلے کر نے ہیں۔ حالات نے فوج کے کردار کو مرکزی بنا رکھا ہے۔ ہماری فوج اس سے پہلے بھی داخلی تنازعات کی زد میں رہی ہے لیکن اُس کا عنوان دوسرا تھا۔ ماضی کے چند جرنیلوں نے جب آئین سے انحراف کیا تو اُن کے پیرہن پر لگے داغوں نے اس ادارے کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس دامن کو پھر سے اجلا کر دیا؛ تاہم اب فوج کو ایک نئے تنازعے کا سامنا ہے۔ اِس کی ایک جھلک سید منور حسن کے خیالات میں دیکھی جا سکتی ہے اور دوسری لاپتہ افراد کے مقدمے میں۔ جنرل راحیل شریف اگر فوج کو اس نئے تنازعے سے نکال سکیں تو یقیناً ان کا شمار ان افراد کی فہرست میں ہو گا جن کی عظمت کے آفتاب کو کبھی گرہن نہیں لگتا۔ میرے نزدیک اس کے لیے چار کام نا گزیر ہیں:
1: جنرل ضیاالحق مرحوم کے دور میں فوج نے ایک تصور (narrative) کو اختیار کیا جسے 'سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کے نام سے شہرت ملی۔ اس عنوان سے پاکستان نے فوج کی قیادت میں ایک حکمت عملی اپنائی جس کا تعلق اس پورے خطے کے ساتھ تھا۔ افغانستان سے سوویت یونین کی رخصتی کے بعد، اِس کو تبدیل نہیں کیا گیا اور ایک خیال کے مطابق، تادمِ تحریر، یہ حکمت عملی جاری ہے۔ تین عشرے اور اُن پر بھی چار سال مزید گزر گئے۔ ہم نے بچشمِ سر دیکھ لیا کہ 'سٹریٹیجک ڈیپتھ ‘ کے اس خیال نے اس ملک اور سماج کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ افغانستان میں گہرائی تلاش کر تے کرتے، ہم نے پاکستان کو اس پستی کے حوالے کر دیا کہ الامان والحفیظ۔ قومی سلامتی سے لے کر سماجی اقدار تک، ہر شے اس کی نذر ہو گئی۔ ہزاروں شہری اور فوجی اس کا ایندھن بن گئے۔ کسی جنگ میں ہم نے اتنا نقصان نہیں اٹھایا جتنا اس حکمتِ عملی کے نتیجے میں ہمیں سہنا پڑا۔ اس تصور سے نجات کے بغیر فوج درپیش تنازعے سے نہیں نکل سکتی۔
2: پاکستانی فوج کا نظری تشخص ایک ابہام کی گرفت میں ہے۔ ہماری فوج پاکستانی فوج ہے یا اسلامی؟ ایک خاص خطہ زمین کی حفاظت اس کا مقصد ہے یا کسی نظریاتی سرحد کا دفاع؟ اگر یہ پاکستانی فوج ہے تو اس کے پیش نظر ایک خاص جغرافیے کا دفاع ہے۔ اگر یہ اسلامی فوج ہے تو اسلام ایک نظریہ ہے جس کی کوئی سرحد نہیں۔ پھر وہ ان لوگوں کے خلاف بھی نہیں لڑ سکتی جو اس کے ہم نظریہ ہیں۔ 1979ء سے پہلے فوج اس ابہام کا شکار نہیں تھی۔ افغانستان میں جب ہم ایک عالمگیر نظریے کے دفاع کے لیے میدان میں اترے تو فوج کی مخصوص نظریاتی تربیت کی گئی، جس میں جغرافیہ اہم نہیں تھا۔ ورنہ افغانستان میں لڑنے کا جواز پیدا نہ ہوتا۔ اب صورتحال بدل گئی ہے لیکن نظریہ (narrative) نہیں بدلا۔ اسی وجہ سے اب فوج کے لیے اپنے نظریے اور طرزِ عمل میں تطبیق پیدا کرنا مشکل ہو رہی ہے۔ یہی مشکل سید منور حسن اور ان جیسے بہت سے دوسرے لوگوں کو درپیش ہے۔ بالفاظِ دیگر فوج کو ایک 'قومی ریاست‘ اور ایک 'نظریاتی ریاست‘ میں فرق کو سمجھنا ہو گا یا دونوں میں کوئی مطابقت تلاش کر نا ہو گی۔ علامہ اقبال نے اسے موضوع بنایا ہے جب انہوں نے اسلام، نیشنل ازم اور نئی مسلم قومی ریاستوں کے سوال پر کلام کیا ہے؛ تاہم اس وقت اس مسئلے کا حل پیش کرنا میرے پیشِ نظر نہیں۔ میں صرف یہ واضح کر نا چاہتا ہوں کہ فوج کے بارے میں آج جس نظری ابہام کی بات کی جا رہی ہے، وہ اصلاً ہے کیا اور اس کو مخاطب بنائے بغیر بھی فوج نئے تنازعے سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتی۔
3: سماج میں بعض نیلی، پیلی‘ لال ٹوپیوں والے دکھائی دیتے ہیں جو میڈیا وغیرہ پہ چند خاص نظریات کی ترویج کرتے ہیں۔ وہ سماج میں دنیا کے ساتھ تصادم کے ایک خاص نظریے کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ ان اصولوں کے برخلاف ہے جن پر ہماری خارجہ پالیسی مبنی ہے۔ اُن کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ انہیں کسی ریاستی ادارے کی سرپرستی حاصل ہے۔ اسی طرح بعض جماعتیں اور گروہ ہیں جو عسکری نظریات کو پھیلاتے ہیں اورکہا جاتا ہے کہ لوگوں کی عسکری تربیت بھی کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں بھی یہی تاثر ہے۔ نئے آر می چیف کو اسے بھی موضوع بنانا ہوگا۔ میرے نزدیک کسی داخلی یا خارجی دشمن کے خلاف مسلح اقدام کا حق صرف ریاست کو حاصل ہے۔ ریاست نے یہ ذمہ داری فوج کو سونپ رکھی ہے۔ بطور قوم ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی فوج کو ممکن حد تک وہ اسلحہ فراہم کریں جو ہمارے دشمن کے پاس ہے۔ ہم اپنی فوج کو
جنگ اور مسلح تصادم کی جدید ترین تربیت بھی دیں‘ لیکن اسلحے اور فوجی تربیت کا دائرہ یہیں تک محدود رہنا چاہیے۔ اگر کبھی اس دائرے سے تجاوز کرنا پڑے، جیسے شہری دفاع وغیرہ کی تربیت ہے تو اسے قانون کے مطابق ہو نا چاہیے۔ جنرل راحیل شریف کو اس بارے میں بھی سوچنا ہو گا۔
4: گزشتہ تجربات سے ثابت ہے کہ سیاسی امور میں مداخلت سے فوج کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ سب سے بڑا نقصان تو یہ ہے کہ عوام اور فوج میں فاصلہ پیدا ہوتا ہے۔ میدان جنگ میں شکست اتنی نقصان دہ نہیں کہ اس کی تلافی ممکن ہوتی ہے لیکن اگر فوج اور عوام کے مابین محبت کا رشتہ ختم ہو جائے تو اس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اس حوالے سے رفو کا جو کام کیا ہے، اس نے فوج اور عوام میں پائے جانے والے اُس فاصلے کو سمیٹ دیا ہے جو مشرف دور میں پیدا ہوا۔ جنرل راحیل شریف اگر اس روایت کو قائم رکھتے ہیں تو یہ بڑی قومی خدمت ہو گی۔ اس وقت یہ تاثر موجود ہے کہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں فوج کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں، اگر یہ تاثر بدلتا ہے تو اس کے دوررس نتائج نکلیں گے جو یقیناً مثبت ہوں گے۔
قوم میں اپنی فوج کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح فاصلہ بھی نہیں۔ جنرل راحیل شریف کو اس باب میں منظم کوشش کرنا ہو گی۔ ان کا خاندانی پس منظر اور پیشہ ورانہ ریکارڈ بہت شاندار ہے۔ یہ قوم کے اس اطمینان کے لیے کافی ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ اُن کی شخصیت میں ہم ہمیشہ وہ وقار دیکھیں گے جو پاکستان کے سپہ سالار کو زیبا ہے۔ قوم کی دعائیں اُن کے ساتھ ہیں۔