طلبا تنظیموں نے اس ملک کوکیا دیا؟ اسلامی جمعیت طلبہ کی حمایت اور مخالفت سے با لاتر ہو کر ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہے۔ اس کو مزید نظرانداز کرنا قوم کے مستقبل کو اندھیروں کے حوالے کرنے کے مترادف ہو گا۔ تاریکی ویسے ہی بہت ہے۔ اگر کہیں سے امید کی کوئی کرن پھوٹ سکتی ہے تو وہ یہی تعلیمی ادارے ہیں۔ انہیں طلبا تنظیموں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کا مطلب، اس آخری کرن کو بھی بجھانا ہے۔ اس 'اندھیر نگری‘ کو ختم کیے بغیر اجالا نہیں ہو گا۔ ایک نہیں، ان گنت نظائر ہیں کہ طلبا تنظیموں نے بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا، ان کی تشکیل سیاسی جماعتوں کے حلقۂ فکر اور دفتروں میں ہوئی‘ جنہوں نے طلبا کو اپنے افکار کی ا شاعت یا اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا۔ انقلاب کے ساتھ کوئی نظریاتی سابقہ لگایا گیا اور جوان جذبات کو اُبھارا گیا۔ حسنِ ظن رکھا جا سکتا ہے کہ بعض افراد نے یہ کام نیک نیتی سے کیا ہو گا لیکن تجربات نے مہر تصدیق ثبت کی کہ ان تنظیموںکے ہاتھوں انقلاب کیا آتا، تعلیمی ادارے ہی بر باد ہو گئے۔
اِن تنظیموں کو سرکاری اداروں میںکھل کھیلنے کا موقع ملا‘ جہاں غریب والدین کے بچے پڑھتے ہیں۔ غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں انہیں قدم رکھنے کی اجازت نہیں‘ جہاں صاحبانِ وسائل کے بچوںکا مستقبل سنوارا جاتا ہے تاکہ کل وہ اہم مناصب پر متمکن ہوں۔ غریبوں کو ریاستی وسائل سے دور رکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ان کے بچوں کو تعلیم سے دور کر دیا جائے۔ انہیں تعلیمی سہولتوں سے محروم رکھا جائے، بجٹ میں ان کی تعلیم پر تین فیصد سے زیادہ وسائل خرچ نہ ہوں، اگر پڑھ بھی جائیں تو بس اتنا کہ کلرک کی اسامی کے لیے اہل قرار پائیں۔ اس پیش بندی کے باوجود، اگر قدرت کسی کو غیرمعمولی صلاحیت سے نواز دے کہ وہ اوصاف کو کسی ایک طبقے میں محدود نہیں کرتی تو انہیں 'لیڈری‘ کی لت لگا دی جائے۔ طلبا تنظیمیں یہی کام کرتی ہیں۔ طالب علم کا قیمتی وقت جلسے جلوسوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس طرح غریب خاندان کا نوجوان آگے بڑھنے کے واحد امکان کو بھی گنوا دیتا ہے۔
اس موضوع پر لکھتے ہوئے یہ سفاک حقیقت میرے قلم سے لپٹ جاتی ہے کہ طلبا تنظیموں کے بے شمار وکیل‘ جو سیاست میں سرگرم اور ان پر پابندی کے خلاف ہیں، انہوں نے جب خود کوئی تعلیمی ادارہ بنایا تو اسے طلبا تنظیموں سے پوری طرح پاک رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس سماج کو خرم مراد جیسی شخصیت ایک طلبا تنظیم نے دی ہے۔ حیرت ہے کہ انہی کا فرزند ملک میں تعلیمی اداروں کا جال پھیلا دیتا ہے لیکن کہیں کسی طلبا تنظیم کو قدم نہیں رکھنے دیا جاتا۔ میرے نزدیک اس کے دو ہی امکانات ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔ ان کے خیال میں اس ملک کو مزید کسی خرم مراد کی ضرورت نہیں یا پھر وہ جانتے ہیں کہ خرم مراد کسی تنظیم کے ٹیکسال میں نہیں، کسی اور جگہ ڈھلتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ہمارے سماج کو خرم مراد جیسی شخصیات کی بہت ضرورت ہے اور ایسے لوگوں کی تربیت گاہ سماج کے فطری ادارے ہیں۔۔۔۔۔ ماں کی گود، مکتب، مسجد، محلہ۔ اگر یہ آباد ہیں تو طلبا تنظیم کی ضرورت نہیں، اگر یہ ویران ہو گئے تو پھر کوئی تنظیم کسی کو نہیں بچا سکتی۔ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے وہ اس مقام تک اس لیے پہنچے کہ انہوں نے مو لانا ظفر احمد انصاری کے گھر میں آنکھ کھولی۔ میں نے ان کی صحبت میں کئی برس گزارے ہیں، ان کی قابلِ رشک زندگی کو دیکھا ہے۔ یہ کہنا انصاف نہ ہو گا کہ ان تنظیموں سے کوئی خیر صادر نہیں ہوئی۔ ہوئی ہو گی لیکن ان کا شر اتنا زیادہ ہے کہ اس خیر کی اہمیت باقی نہیں رہی۔
ملک کے صاحبِ ثروت و اختیار کی اولاد ملک سے باہر یا نجی تعلیمی اداروں میں پڑھتی ہے جہاں تعلیم بکتی ہے اور بہت مہنگی، عام آ دمی اسے خرید نہیں سکتا۔ حصولِ تعلیم کی ایک فطری عمر ہے، گزر جائے تو اس کی تلافی ممکن نہیں ہوتی۔ جس عمر میںغریب کا بیٹا سرکاری تعلیمی اداروں میں ان تنظیموں، دوسرے لفظوں میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، امرا کے بچے صرف تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں اور یوں اس قابل ہو جاتے ہیں کہ ریاست کے اعلیٰ مناصب تک انہی کی رسائی ہو۔ تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کی اولاد ملک سے باہر پڑھتی ہے یا امرا کے اداروں میں، اس میں کوئی استثنیٰ نہیں۔ آپ کسی ایک لیڈر کے بارے میں سوچیے اور پھر تحقیق کیجیے کہ اس کے بچے کہاں ہیں۔ پاکستان میں وہی ملے گا جو باہر جا نہیں سکا۔ یہ صرف ان دو طبقوں کے ساتھ خاص نہیں، دانشور اور رائے ساز جو ان تنظیموں کی حمایت کرتا یا مقامی تعلیم پر زور دیتا ہے، اس کے بچے بھی آپ کو سرکاری تعلیمی اداروں میں نہیں ملیں گے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں کئی ایسی سفاک حقیقتیں آپ کے سامنے آئیں گی کہ حیرت، اضطراب اور غصہ آپ کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔ اس ردِ عمل کے بجائے، بہتر یہ ہے کہ اپنی بصیرت پر اعتبار کرتے ہوئے، اس مقد مے کو سمجھا جائے کہ ان طلبا تنظیموں نے ہمیں کیا دیا۔
اس باب میں کچھ واہمے (myths) بھی ہمارے دامن گیر ہیں۔ ایک یہ کہ ان تنظیموں نے ہمیں بڑے سیاسی راہنما دیے۔ یہ مقدمہ تاریخی طور پر ثابت نہیں ہے۔ اس ملک کی سیاسی قیادت جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں ہے۔ طلبا کی سیاست نے انہیں دست و بازو دیے۔ اس کے صلے میں ایک دو کو وزارت کی زکوٰۃ بھی مل گئی۔ ان کا سیاست میں اتنا ہی حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ان تنظیموں نے سیاست کو جو شخصیات عطا کیں، خود ان کا وجود اس بات کی دلیل ہے کہ ان تنظیموں پر پابندی ہونی چاہیے۔ میں نام نہیں لینا چاہتا، پڑھنے والوں ہی کو تحقیق کی زحمت دوں گا۔ دنیا نے جو سیاسی مدبر اور منتظم پیدا کیے، وہ کسی طلبا تنظیم کے تحفے نہیں ہیں۔ ایک واہمہ یہ ہے کہ اگر یہ تنظیمیں نہ ہوتیں تو ملک میں لادینیت کا سیلاب آ جاتا اور قومی اخلاق کا جنازہ اٹھ جاتا۔ اخلاقیات کسی سماج کی بُنت (social fabric) کا حصہ ہوتے ہیں۔ ہماری مسلم تہذیبی روایت کی حفاظت سماج کے روایتی اداروں نے کی۔ ان میں مسجد، مکتب اور والدین کی تربیت سب شامل ہیں۔ سماجی سطح پر بھی ایسے ادارے وجود میں آئے جو فطری دفاعی نظام کے تحت قائم ہوتے اور بروئے کار آتے ہیں۔ جس طرح جسم کا دفاعی نظام بیماریوں کے خلاف متحرک ہوتا ہے اسی طرح معاشرے کا فطری دفاعی نظام سماجی روایات کی حفاظت کے لیے متحرک ہو جاتا ہے۔ یہ نظام دارالعلوم دیوبند یا مسلم کالج علی گڑھ کی بنیاد رکھواتا اور جامعہ ملیہ تعمیر کرواتا ہے۔ یہی اقبال کی شاعری کو جنم دیتا یا انجمن حمایت اسلام کی بنا بنتا ہے۔ یہ سب کوششیں سماج کی سطح پر ہوتی ہیں، اس کے لیے کبھی ضرورت نہیں ہوئی کہ سماج کے کسی طبقے کو اس کے اصل کام سے ہٹا کر دفاعِ مذہب و اخلاق کا فریضہ سونپا جائے۔ طالب علم کا اصل کام تعلیم ہے۔ جب سماج میں اخلاقی تعمیر کا کوئی کام ہوتا ہے تو سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ تو دور جدید میں فروغ پانے والی ایک بدعت ہے کہ طلبا اصل کام چھوڑ کر کسی نظریے کے وکیل یا علمبردار بن جائیں۔ اسلام اس سماج کے خمیر میں ہے، اسے کسی طلبا تنظیم نے نہیں بچایا، اجتماعی شعور نے اس کی حفاظت کی ہے۔ اقبال اور سید مودودی جیسے لوگوں کے علم و فضل نے یہ کام کیا یا سرسید اور مو لانا محمد الیاس جیسے مخلصین کے دردِ دل نے۔ اگر ایک نظریہ فکری طور پر شکست کھا جائے تو پھر طلبا تنظیم تو کیا، ریاست بھی اسے نہیں بچا سکتی۔ اشتراکیت کو آج ماسکو میں بھی سر چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی۔ ماؤازم اب بیجنگ میں بھی ایک بھولی بسری داستان ہے۔
غیرمعمولی حالات میں عمومی کلیے بدل جاتے ہیں۔ تحریکِ پاکستان اٹھی تو ضرورت تھی کہ مسلمانوں کا ہر طبقہ متحرک ہو جائے۔ ایک منظم ریاست میں عمومی کلیے ہی کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کے تحت ایک طالب علم کا پہلا اور آخری کام حصولِ علم ہے۔ کاش ہماری سیاسی اور فکری قیادت کو اس کا احساس ہو جائے۔ بصورتِ دیگر میں عرض کر چکا کہ امید کی آ خری کرن بھی‘ خاکم بدہن، بجھ جائے گی۔