عذرہائے لنگ تو بہت تراشے جا سکتے ہیں مگر امرواقعہ یہی ہے کہ طارق ملک کے قصے میں حکومت نے کوئی نیک نامی نہیں کمائی۔ وجہ بے وجہ حکومت کی مدح پہ آ مادہ رہنے والے بھی مجبور ہوئے کہ اس اقدام کو غلط کہیں۔شریف خاندان اپنی ساکھ کے بارے میں بہت حساس ہے۔معلوم ہوتا ہے ان کے بعض رفقا اس باب میں ان کی حساسیت سے واقف نہیں ہیں۔
آصف زرداری صاحب صدر بنے توابتدائی دنوں میں میری ان سے ایک ملاقات ہوئی۔یہ وہ شب و روز تھے جب وہ ان لوگوں کی قدر کرتے اور ان سے مشورہ بھی کرتے تھے جنہوں نے مشکل لمحات میں ان کے لیے کلمۂ خیر کہا۔بعد میں اُن کے اسلوبِِ حکمرانی سے یہ آشکار ہوا کہ وہ کسی کی رائے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن ازراہ کرم مشورہ ضرورکرتے تھے۔ان کی ذرہ نوازی تھی کہ انہوں نے مجھے بھی اس قابل سمجھا اور پو چھا کہ انہیں اب کیا کر نا چاہیے۔میں نے ان سے تین باتیں کہیں،ایک کا تعلق ساکھ سے تھا۔میں نے عرض کیا کہ انہیں اپنی ساکھ کے بارے میں حساس ہو نا پڑے گا۔ان کے بارے میں سچ جھوٹ کی آمیزش سے سماج میں بہت کچھ مشہور ہے۔انہیں زبان حال سے اب بتا نا ہوگا کہ''یہ جھوٹی باتیں ہیں،یہ لوگوں نے پھیلائی ہیں‘‘۔ میں داد دیتا ہوں کہ انہوں نے کمال تحمل سے میری بات سنی اور بظاہر اس کا برا نہیں منا یا۔آنے والے دنوں نے بتا دیا کہ انہوں نے اس بات کو پرکاہ کے برابربھی اہمیت نہیں دی۔ساکھ کا یہ بحران انہیں لے ڈوبا۔صرف ان کو نہیں، اُن کی جماعت کو بھی۔
شہباز شریف صاحب نے اُسی عہد میں اس بات کی شعوری کوشش کی کہ بحیثیت صوبائی منتظم،ان کی ذات سے کوئی سکینڈل منسوب نہ ہو،وہ اس میں بڑی حد تک کا میاب رہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج نے بتا دیا کہ ساکھ سیاسی کامیابی کے لیے کتنی اہم ہوتی ہے۔بر سر اقتدار آنے کے بعد ابتدا میں یہی اندازہ ہوا کہ مسلم لیگ اس روایت کو زندہ رکھے گی اور اپنی اخلاقی ساکھ کے بارے میں حساسیت کا مظاہرہ کرے گی۔یہ پہلا واقعہ ہے جس سے حکومت کو دھچکا لگا۔افسوس در افسوس یہ ہے کہ اس کی تلافی میں بھی سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔میرا خیال یہ ہے کہ طارق ملک نے اس معاملے میں زیادہ وقارکامظاہرہ کیا۔ان کا کہنا ہے کہ اگران سے استعفیٰ طلب کیا جا تاتووہ انکار نہ کرتے۔مسئلہ یہ نہیں کہ حکومت کی قانونی پوزیشن کیسی ہے،ممکن ہے مضبوط ہو، لیکن سوال یہ ہے کہ شب خُون کا جواز کیا تھا؟حکومتوں کو قائم رہنے کے لیے قانونی جوازہی کی نہیں،اخلاقی دلیل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اس ملک میں ہرمارشل لاکے قانونی جوازکو قبول کیا گیا لیکن کسی کی اخلاقی ساکھ نہیں تھی۔جمہوری حکومتوں کا معاملہ تو فوجی آمروں سے بھی نازک تر ہوتاہے۔ان کی تما م ترطاقت عوام سے آتی ہے۔اگر عوام میں ساکھ بر باد ہو جائے تو پھر ان کے پاس کوئی اوراثاثہ نہیں ہوتا جو اس کا متبادل قرار پائے۔
کچھ اخبار نویسوں نے طارق ملک کاتعلق پیپلزپارٹی سے جوڑنے کی کوشش کی۔یہ عذرِگناہ بدترازگناہ کے سواکچھ نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ پاکستان کسی ایک جماعت کا نہیں ہے۔اگر آج کسی با صلاحیت اوردیانت دارآ دمی کا تعلق مسلم لیگ سے نہیں ہے توکیا اُسے یہ ملک چھوڑ دینا چاہیے؟میں جانتا ہوں کہ نہ تو نوازشریف صاحب کی یہ سوچ ہے اورنہ ہی ان کے قریبی رفقا کی، جن سے میں واقف ہوں۔ایک بار پی ٹی وی پرعمران خان اورمولانا فضل الرحمن کا ذکرقدرے استہزا کے لہجے میں ہوا تومیری مو جودگی میں پرویزرشید صاحب نے اس پرشدید ناراضی کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ کسی قومی رہنما کا اس اسلوب میں تذکرہ قابلِ قبول نہیں۔اس لیے اگر طارق ملک صاحب کے ہاںبالفرض پیپلزپارٹی کے لیے کوئی نرم گوشہ ہو بھی تو یہ برائی کیسے ہوگئی؟ اس لیے حکومت کے جو وکیل یہ دلیل تراشتے ہیں،وہ صاحبانِ اقتدارسے نادان دوستی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔پھر میرے علم کی حد تک یہ امرواقعہ بھی نہیں ہے،میں طارق ملک کے والد محترم فتح محمد ملک صاحب کو برسوں سے جانتا ہوں،میں ان کے علمی کام کا خوشہ چین اور خود کو بالواسطہ ان کا شاگرد سمجھتا ہوں۔برسوں کی رفاقت سے میں یہی جان سکا ہوں کہ ان کے
فکری مرشد اقبال، رہنما قائد اعظم اورجماعت پاکستان ہے۔ بھٹوصاحب کی 'پاکستانیت‘ کے بھی وہ مداح ہیں۔اس کے سوا جوکچھ ہے،ان کے نزدیک اسے اِسی معیار پر پرکھا جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے عہدِ اقتدار میں ملک صاحب نے جو کچھ لکھا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ بھارت اورامریکہ کی طرف ان کے جھکاؤپراتنی شدید تنقید شاید ہی کسی نے کی ہو۔بطورریکٹر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی انہوں نے اپنامنصب قربان کر دیا لیکن اپناموقف نہیں۔یہ اُس دور میںہوا جب آصف زرداری صاحب ملک کے صدر تھے اورچانسلر بھی۔ انہوں نے اپنی بچوں کو بھی یہی سکھایا ہے کہ ان کی پہلی جماعت 'پاکستان‘ ہے۔ اگر طارق ملک نے اس منصب پر رہتے ہوئے، اپنی اس 'جماعت‘ سے کوئی بے وفائی کی ہے تو اس کو سامنے آنا چاہیے۔ بصورتِ دیگر عذرِ لنگ تراشنے سے بات مزید بگڑتی چلی جائے گی۔دانشِ برہانی،اگر دانشِ نورانی سے تعلق توڑ لے توپھر سچ کی ڈور ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
مسئلہ اب عدالت میں ہے۔قانون اپنی جگہ بنائے گا لیکن اس میں سبق یہ ہے کہ حکومت کو گناہِ بے لذت سے اجتناب کرنا چاہیے۔میاں صاحب نے بہت فراخ دلی کے ساتھ اپنے نئے سفر کا آغاز کیا ہے۔انہوں نے خیبر پختون خوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے قیام میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔آزادکشمیر میں سیاسی جوڑ توڑ کو مسترد کیا۔ بلوچستان میں وزارتِ اعلیٰ کا منصب ایک نیک نام آ دمی کے حوالے کیا جس کا ان کی جماعت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔سرکاری اداروں میں غیر ضروری تبدیلیوں سے گریزکیا۔کراچی میں ایساآپریشن شروع کیا جس پر متاثرین کے سوا کسی نے اعتراض نہیں کیا۔پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم،تحریک انصاف سب حکومت کے ساتھ ہیں۔یہ وہ آغاز ہے جس کی ہر طرف سے تحسین ہوئی۔اگر کسی نے اعتراض کیا بھی تواس کے حصے میں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں آیا۔
میاں صاحب سے سب کو یہ توقع ہے کہ وہ اپنے عہدِ اقتدار میں اس نیک نامی کی حفاظت کریںگے۔ان سے بہتر کوئی نہیں جانتاکہ حکومت صرف سیاسی وفاداریوں سے نہیں چلتی،اس کے لیے باصلاحیت لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اس امتزاج کے ساتھ حکومتی ٹیم تشکیل دی جاتی ہے۔اگر کوئی آ دمی کسی ریاستی ادارے میں اپنا کام دیانت داری اور اہلیت کے ساتھ کررہا ہے تو وہ دراصل حکومت کی نیک نامی میں اضافہ کر رہا ہے،وہ حکومت کا اثاثہ ہے۔یہ بات بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ جمہوریت میں عدلیہ اور میڈیا آزاد ہوتے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی غلطی کا نظروں سے اوجھل رہنا کم و بیش نا ممکن ہو تا ہے۔اپوزیشن اپنی جگہ موقع کے انتظار میں ہوتی ہے،اس لیے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔طارق ملک کا معا ملہ حکومت کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک جمہوری حکومت کوکبھی اپنی ساکھ پر سمجھوتہ نہیں کر نا چاہیے۔زرداری صاحب نے کیا تو ان کا انجام ہمارے سامنے ہے۔