ہم عبدالقادر ملا کو بچا نہیں سکے۔ بچانا کیا تھا، ہم تو احتجاج بھی نہیں کر سکے۔ برادرم شاہد شمسی مضطرب تھے۔ میرا موبائل فون ان کے پیغامات سے چھلک رہا ہے۔ میں نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا۔ جواب دیتا بھی کیا! میں اُن سے کیسے کہتا کہ پاکستان کا مقدمہ لڑنے والوں کا اب یہاںکوئی وارث نہیں۔ ہم انصاف بھی نہیں کرتے کہ اپنے اپنے تعصبات کے اسیر ہیں۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش، حالات کی گرفت میں ہے۔ یہ جماعت جب قائم ہوئی تو برصغیر کے جغرافی حقائق کچھ اور تھے۔ جیسے جیسے برصغیر تقسیم ہوتا گیا، جماعت بھی حصوں میں بٹتی چلی گئی۔ جماعت اسلامی نے نئی حقیقتوں کا زبانِ حال سے اعتراف کیا‘ لیکن ماضی نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ پاکستان میں اُس سے بڑھ کر کون محبِ وطن ہو گا لیکن آج بھی یہ طعنہ اس کے تعاقب میں رہتا ہے کہ اس نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی۔ پاکستان میں خیر ہوئی کہ بات طعنوں سے آگے نہیں بڑھی لیکن بنگلہ دیش میں بات کہیں دور جا نکلی۔ پھانسی گھاٹ تک۔ الزام وہاں بھی یہی ہے کہ یہ بنگلہ دیش کی مخالف اور غاصب فوج کی دست و بازو تھی۔ دونوں مقامات پر جماعت اسلامی کے 'جرائم‘ کا تعلق ان ممالک کے وجود میں آنے سے پہلے کے حالات سے ہے۔ جب سے پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ کا آغاز ہوا ہے، جماعت ملکی قوانین کی پابند رہی ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے تو اپنے دستور تک میں لکھ دیا کہ وہ ملک کے آئین کے تحت کام کرے گی اور کسی خفیہ سرگرمی میں ملوث نہیں ہو گی۔ بطور جماعت اُس نے اپنے عہد کو نبھایا۔ یہی معاملہ بنگلہ دیش میں رہا۔ جماعت حکومت کا حصہ بھی رہی۔ مسئلہ صرف حسینہ واجد کے ساتھ ہے کہ انتقام ان کی سیاست بن گیا ہے۔ ملک کے تمام ادارے بھی ان کی گرفت میں ہیں اور انہوں نے اپنے ملک کو ایک ایسی آگ میں جھونک دیا ہے‘ جس کی تپش سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔
سوال تین ہیں۔ ایک یہ کہ جماعت اسلامی کے خلاف مقدمات میں، کیا عدل اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے؟ دوسرا یہ کہ جو واقعات ان مقدمات کی بنیاد ہیں، اُس وقت رونما ہوئے جب ملک موجود نہیں تھا۔ کیا راکھ کا یوں کریدنا مثبت سیاست ہے؟ تیسرا یہ کہ پاکستان بطور ریاست اور قوم کیا کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ پہلا سوال پہلے! تمام بین الاقوامی ادارے کہہ چکے کہ عدالتی نظام شفاف نہیں ہے۔ عبدالقادر صاحب کے معاملے میں سپریم کورٹ کا رویہ کسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے شایانِ شان نہیں تھا۔ بالعموم اپیل کے بعد سزاؤں میں تخفیف ہوتی ہے۔ عبدالقادر ملا کی سزا میں اضافہ ہوا۔ پھر صاف دکھائی دے رہا تھا کہ عدالت اور حکومت، دونوں سزا کے معاملے میں عجلت کر رہے ہیں۔ یہ بھی انصاف کے مروجہ تقاضوں کے خلاف ہے۔ ان حالات میں موت کی سزا ظلم کے سوا کچھ نہیں۔
اب آئیے دوسرے سوال کی طرف۔ مشرقی پاکستان میں اٹھنے والی علیحدگی کی تحریک، جو بنگلہ دیش کے قیام پر منتج ہوئی، پاکستان کا داخلی معاملہ تھا۔ اس حوالے سے ایک سے زیادہ آرا سامنے آئیں۔ جماعت اسلامی اس علیحدگی کے خلاف تھی۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی فوج بھی ان لوگوں کے خلاف تھی جو علیحدگی کا رحجان رکھتے تھے۔ متحدہ پاکستان کے آخری دنوں کے واقعات اتنے واضح نہیں ہیں کہ ان پر دو اور دوچار کی طرح کوئی حکم لگایا جا سکے۔ اب دونوں طرح کی تحقیقات ہمارے سامنے آ چکی ہیں۔ تشدد دوطرفہ تھا۔ مکتی باہنی نے قتل عام کیا اور یہی بات فوج کے بارے میں بھی روایت کی جاتی ہے۔ یہ بات بھی معلوم ہے کہ جماعت اسلامی اور شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ سیاسی حریف تھے۔ اس کشمکش میں بھی تشدد کا گزر رہا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں جس طرح اسلامی جمعیت طلبہ کے عبدالمالک کو مارا گیا، اس کا ذکر ہمارے ہاں نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ مکتی باہنی اور عوامی لیگ کے تشدد کا شکار ہوئے‘ کیا وہ بنگالی نہیں؟ کیا پروفیسر غلام اعظم اور عبدالقادر ملا بنگالی نہیں ہیں؟ تاریخ کے ہر باب کے بارے میں ایک سے زیادہ نقطہ ہائے نظر رہے ہیں۔ سقوطِ ڈھاکہ کا معاملہ بھی یہی ہے‘ اس لیے ہمیں اس معاملے میں انصاف سے کام لینا چاہیے۔ نئی شائع ہونے والی کتب جو کہانیاں سنا رہی ہیں، ان پر بھی کان دھرنا چاہیے۔ اسی طرح کسی بڑے حادثے کے بعد سب سے زیادہ ضرورت قومی اتفاقِ رائے کی ہوتی ہے۔ حسینہ واجد کو اگر بنگلہ دیش سے کوئی دلچسپی ہے تو انہیں ماضی کو کریدنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ 1973ء میں اُس عہد کے تمام لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان ہو چکا ہے۔ اس کے بعد لوگوں کو پھانسی چڑھانے میں عجلت ایک پست سیاسی بصیرت کی علامت ہے۔ تاریخ سے ہم سبق لیتے ہیں، یہ اس لیے نہیں ہوتی کہ قومیں یا افراد اس کی اسیر ہو جائیں۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے 1971ء کے بعد کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر انگلی اٹھائی جا سکے۔ عبدالقادر ملا دو دفعہ پارلیمنٹ کے رکن رہ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی حکومت کا حصہ رہ چکی۔ اس کے بعد یہ رویہ بنگلہ دیش کی وحدت کے لیے تکلیف دہ ہو گا۔
تیسرا سوال۔ سفارتی آداب شاید براہ راست مذمت کی اجازت نہ دیں لیکن ہم بطور ریاست کچھ کام کر سکتے ہیں۔ جب پاکستان میں داخلی سطح پر حالات خراب ہوئے تو پاکستان کے دوستوں نے مداخلت کی اور پاکستان کو بحرانوں سے بچایا۔ مثال کے طور پر جب ساٹھ کی دہائی میں مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو پاکستان کے دوستوں نے مفاہمت کے لیے ایک کردار ادا کیا۔ یوں مولانا پھانسی اور پاکستان ایک بحران سے بچ گیا۔ اسی طرح ستر کی دہائی میں قومی اتحاد اور حکومت کے مابین اتفاقِ رائے کے لیے سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب متحرک رہے اور بعض دوستوں نے بھٹو صاحب کو پھانسی سے بچانے کی کوشش بھی کی۔ کاش ضیاالحق صاحب دوستوں کی بات
مان لیتے۔ میرا خیال ہے پاکستان کو اس باب میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ حسینہ شیخ کی موجودگی میں شاید پاکستان وہاں کی حکومت کو متاثر نہ کر سکے؛ تاہم اس حوالے سے پاکستان بالواسطہ کردار ادا کر سکتا ہے اور میرا خیال ہے کہ کرنا چاہیے۔ یہی بنگلہ دیش کے حق میں ہے۔ اسی طرح انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی متحرک کرنا چاہیے۔ کم از کم یہ تو ہونا چاہیے کہ انصاف اور قانون کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
پاکستان میں عبدالقادر ملا کے پھانسی اور اس سے پہلے وہاں کی عدالتی فیصلوں پر جو ردِ عمل ہوا، بدقسمتی سے وہ ہمارے تعصبات میں لتھڑا ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر متحرک تنظیموں کا تناظر چونکہ بالعموم سیکولر ہے، اس لیے وہ مذہبی لوگوں کے انسانی حقوق کے بارے میں زیادہ حساس نہیں ہوتیں۔ اسی طرح سزائے موت کے خلاف تحریک اٹھانے والے ان لوگوں کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے جنہیں یہ سزا مل رہی ہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے وقت یہی رویہ مذہبی جماعتوں کا تھا۔ میرا خیال ہے ہمیں تعصبات سے بلند ہو کر انصاف کی بنیاد پر سوچنا چاہیے۔ عبدالقادر ملا کو ہم نہیں بچا سکے لیکن ہم بنگلہ دیش کو خانہ جنگی سے بچانے کی کوشش کر سکتے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ جن لوگوں کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے، ان پر عمل درآمد کو روکنے کی سعی کریں۔ سنت سنگھ کا قتل ہوا تو ایک سکھ راہنما نے کہا: یہ لاش ہمیشہ سکھوں اور دلی کے درمیان پڑی رہے گی۔ بھٹو صاحب کی لاش کے بارے میں بھی یہی کہا گیا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ بنگلہ دیش میں اس عنوان سے مزید لاشیں نہ گرائی جائیں۔