یہ افتادِ طبع ہے جو جو اظہارِ محبت کے لیے اسالیب طے کرتی ہے۔
روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ جب وضو کرتے تو کچھ صحابہؓ ایسے تھے جو فرطِ محبت میں آگے بڑھتے اور پانی کی اُن بو ندوں کواپنی ہتھیلیوں میں تھام لیتے جو جسمِ اقدس کو چھو کر آتیں۔میں نے ان روایتوں میں کہیں ابو بکر و عمر، عثمان و علی رضی اللہ عنھم کا نام نہیں پڑھا۔ان کے اظہارِمحبت کااسلوب دوسرا تھا۔رسالت مآب ﷺ نے فرمایا:زمین پر بسنے والوں کا کو ئی احسان ایسا نہیں کہ میں نے چکا نہ دیا ہو۔ہاں مگر ابوبکرؓ!ان کے احسانات کا بدلہ اللہ ہی دے گا۔عمرؓ ابن خطاب حسرت کے ساتھ اپنے دوست سے کہتے:آپ میری عمر بھر کی نیکیاں لے لیں، مجھے ایک غارِ ثور کی رات دے دیں۔ 'یارِ غار‘ اب قیامت کی صبح تک محبت کا لافانی استعارہ ہے۔
اسی بر صغیر کو دیکھیے!محبت کا ایک اظہار غازی علم دین نے کیا۔ایک سر سید احمد خان نے۔غازی علم دین اورراج پال کو ہم زیادہ جانتے ہیں ،سرسید اور ولیم مور کو کم۔ولیم مور نے آفتاب پر تھوکنے کی جسارت کی۔سر سید بے چین ہوگئے۔گھر سے نکلے اور برطانیہ کی لائبریریوں تک جا پہنچے۔ انگریزی نہیں جا نتے تھے۔ مترجم کی خدمات مستعار لیں۔گھر میں جو کچھ تھا بیچ ڈالا،یہاں تک کہ برتن بھی۔کہا اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوگی کہ میدانِ حشر میں اللہ کے رسول مجھے دیکھیں اور ارشاد فرمائیں:دیکھو ،یہ وہ ہے جس نے میری محبت میں اپنا سب کچھ قربان کر ڈالا۔کتاب کے جواب میں کتاب لکھی۔محض کتاب نہیںِ، رجحان ساز کتاب۔برصغیر میں اس کے بعد سیرت نگاری کا ایک نیا باب کھلا:اہلِ استشراق کے اعتراضات اور ان کا رد۔ شبلی سے لے کر قاضی سلمان منصور پوری تک،سب کو یہ راستہ سر سید نے دکھایا۔کیسی پذیرائی ہے جو اللہ نے ان کے کام کو دی۔ ہمارا ردِ عمل مگر دوسرا ہے۔ 'عاشقِ رسول‘غازی علم دین یاد ہے اور باعثِ تقلید بھی۔'عاشقِ رسول‘ سرسید یاد نہیں۔تقلید کا تو سوال ہی نہیں۔بہت احسان کریں گے تو 'مخلص گمراہ‘ کہہ دیں گے۔یہ فرق کیوں ہے؟ وہی افتادِ طبع۔
اس سال ربیع الاول آیا توہم سب نے بھی اپنی اپنی افتادِ طبع کے ساتھ اللہ کے رسو لﷺ کے ساتھ اظہارِ محبت کیا۔میں خوش گلو ہوں نہ اجتماع پسند،اس لیے اظہارِ محبت کے مروجہ اسالیب ایسے ہیں کہ طبیعت کو سازگارنہیں۔قرآن مجید سے میں یہ جان سکا ہوں کہ دین کی اساس اللہ کی محبت ہے۔اللہ کا یہ آخری الہام متوجہ کرتا ہے کہ اگر اللہ سے محبت کرتے ہو تواُس کے رسول کی اطاعت کرو۔پھر اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ رسول سے ہمارا اصل تعلق اطاعت کا ہے۔ آپﷺکی بعثت ہم پر اللہ کا احسان ہے۔آ دمی قرآن مجید کی اس آیت پرغور کر تاہے تو رسالت مآب ﷺ سے محبت کا ایسا سیلاب امڈتا ہے کہ دل اس کی تاب نہیں لا سکتا۔پھر یہ حقیقت شعوری سطح پر نمودار ہوتی ہے کہ ایمان کی تکمیل اس کے ساتھ مشروط ہے کہ آپﷺ مجھے دنیا کے ہر رشتے اور ہر شے سے عزیز تر ہوں۔اللہ کے اس احسان ِعظیم کا شکر صرف اسی طرح ادا ہو سکتا ہے۔محبتِ رسول کا شعوری سطح پر ظہور،میرا خیال ہے کہ اسی ترتیب سے ہوتا ہے:قرآن سے رسول تک۔یہ میری افتاطِ طبع کا حاصل ہے۔کسی کے نزدیک ممکن ہے کہ کوئی اور ترتیب ہو۔غالباًرشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ اقبال کو اسلام کی تعلیمات سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی سحر انگیز شخصیت نے متاثر کیا۔اس فرق کا محرک بھی یہی افتادِ طبع ہے۔
میری افتادِ طبع کی تسکین کا سامان کچھ یوں ہوا کہ گجرات یونیورسٹی نے 12 ربیع الاول کو 'سیرتِ پاک اور سماجی تبدیلی‘کے عنوان پر ایک سیمینار منعقد کیا اور از راہِ کرم مجھے بھی مدعو کیا۔مجھے لگا کہ آج اللہ کے رسولﷺ کو یاد کرنے کے لیے اس سے بہتر عنوان شاید کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔عالمِ اسلام کے ممتازسکالر ڈاکٹر خالد مسعود کو اس سیمینار کی صدارت کرنا تھی۔ ان کی معیت میں گجرات روانہ ہوا ۔میں گجرات یو نیورسٹی سے کسی ایسی ہی فکر انگیز نشست کی توقع رکھتا تھا۔ڈاکٹر محمدنظام الدین کی قیادت میں یہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا ایک مثالی ادارہ بنتا جا رہا ہے۔اٹھارہ ہزار طلبا و طالبات اس وقت یہاں زیر ِتعلیم ہیں۔ مجھے پہلے بھی یہاں کئی بار ایسی علمی مجالس میں شریک ہو نے کا موقع ملا جن کی اسلام آباد اور دوسرے شہروں میں، صرف آرزو کی جا سکتی ہے۔جامعات دنیا بھر میں ندرتِ خیال اور فکرِ انسانی کے ارتقا کا مرکز ہوتی ہیں۔ہمارے ہاں جمود اور تقلید کی افسوس ناک مثال ہیں۔گجرات یو نیورسٹی کے استثنیٰ کی ایک وجہ ڈاکٹر نظام الدین اور دوسری وجہ شاید طلبا تنظیموں کا نہ ہو نا ہے۔اللہ کرے اس یونیورسٹی کے یہ دونوں امتیازات باقی رہیں۔
تقریب میں جماعت اسلامی کے مقامی امیر ڈاکٹر طارق سلیم بھی شریک تھے۔اساتذہ اور طلباو طالبات غیر معمولی جوش و خروش کے ساتھ تقریب میں شامل ہوئے۔ہال میں جگہ کم پڑ گئی اور لوگ کھڑے ہوکر سنتے رہے۔یہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ اظہارِ محبت کا ایک اسلوب ہے کہ ان کے ذکر کی مجلس میں لوگ احترام اوراہتمام کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔میں نے ختمِ نبوت کے سماجی مضمرات پر بات کی لیکن اس کا ذکر پھر کبھی۔ڈاکٹرخالد مسعودنے حسب روایت اور حسبِ توقع فکر انگیز صدارتی خطبہ دیا۔ان کا کہنا تھا کہ رسالت مآبﷺ کے ساتھ ایک زندہ تعلق مسلمان سماج کی اہم ترین ضرورت ہے۔یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم اسوۂ حسنہ کو ایک قابلِ اتباع نمونہ سمجھیں گے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اپنے سماج کو جانیںاور غور کریں کہ سیرتِ پاک کس طرح ہم سے متعلق ہوتی ہے۔عقیدت و محبت کے بعض رنگ ایسے ہوتے ہیں جو سیرت کو ہمارے لیے مرکزِ تقلید نہیں رہنے دیتے۔قرآن مجید نے اسی جانب متوجہ کرنے کے لیے ہمیں بتایا کہ اگر اس زمین پر فرشتے بس رہے ہوتے تو اللہ کسی فرشتے کو پیغمبر بناتا(بنی اسرائیل 93-95:17) آپﷺ کی ذاتِ پاک کا پورا ادراک ہمارے بس کی بات نہیں، ہماری رسائی تو بس یہاں تک ہے کہ ہم کس طرح اس اسوۂ کامل کی روشنی سے اپنی زندگی کو منور کر سکتے ہیں۔سماج تبدیل ہو تو اس کے مطالبات بھی بدل جاتے ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ کا اسوہ قیامت کی صبح تک ہمارا رہنما ہے۔ ہم کیسے اس اسوہ کی رہنمائی میں اپنی سماجی تشکیل کر سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جسے ہر مسلمان سماج کی جامعات میں زیرِ بحث آنا چاہیے۔ ڈاکٹرنظام الدین نے جامعہ ازہر اورمسلم دنیامیں اپنے قیام کے حوالے سے بتا یا کہ کس طرح معاصر مسلما ن معاشرے اس عہد کے مسائل کواسلام اور سیرتِ پاک کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔شیخ عبدالرشید صاحب کی نظامت نے اس تقریب میں سامعین کی دلچسپی کو کم نہیں ہونے دیا۔
میں گجرات یونیورسٹی سے واپس لوٹا توجذبات سے سرشار تھا۔مجھے بہت خوشی تھی کہ میں نے ایک ایسی تقریب میں شرکت کی جس میں اللہ کے آ خری رسولﷺ سے ایک زندہ تعلق قائم کرنے کی بات کی گئی۔ جس میں ہم نے سوچا کہ کس طرح اس سراجِ منیرﷺ سے اپنی زندگی کے اندھیروں کو کم کیا جا سکتا ہے۔واپسی کے سفر میں، میں نے دیکھا کہ ہر قصبے میں چراغاں ہیں اور جشن کا سماں ہے۔جلوس ہیں اور نعت خوانی ہے۔میں نے خیال کیا کہ یہ سب اظہارِ محبت کے اسالیب ہیں۔یہ جلوس بھی اور گجرات یو نیورسٹی کاسیمینار بھی۔پس منظر میں فرق وہی ہے، افتادِ طبع کا۔