میں اس دل خوش کن خبر کے سحر میں تھا کہ اب راولپنڈی میں بھی میٹرو بس چلے گی۔ چشمِ تصور سے میں خوبصورت اور آرام دہ بسوں کو کشادہ سڑکوں پر دوڑتے دیکھ رہا تھا‘{ جن میں سلیقہ مند شہری قطار اندر قطار سوار ہو رہے ہیں۔ کوئی شور ہے نہ ہنگامہ، خاموشی اور اطمینان! جاگتی آنکھوں سے یہ خواب دیکھتے دیکھتے گھر پہنچا۔ جیسے ہی گھر میں داخل ہونے لگا، چوکیدار کی آواز کان سے ٹکرائی ''سلام صاحب! آپ نے سنا امتیاز صاحب کے گھر ڈاکہ پڑا ہے‘‘۔ ''کیا کہا؟‘‘ میں چونک گیا۔ جیسے میری نیند کھل گئی، خواب جیسے ٹوٹ گیا۔ ''کیا کہا؟‘‘ میں نے ایک بے معنی سا سوال کیا حالانکہ اس کی بات کسی وضاحت کی محتاج نہ تھی۔ ''صاحب! امتیاز صاحب کے گھر ڈاکہ پڑا ہے، دن ایک بجے‘‘ امتیاز صاحب میرے پڑوسی ہیں۔ اُن کے اور میرے گھر کے درمیان صرف ایک گھر ہے۔ ایک پُرامن اور شریف آدمی۔ میں اداس ہو گیا اور پریشان بھی۔ اب ان گنت واقعات کا ایک دفتر کھل گیا۔۔۔ برباد امن اور میٹرو۔۔۔میں ان کے درمیان تعلق تلاش کرنے لگا۔
ڈاکے اور میٹرو کے اس خیال کے ساتھ مجھے اپنی گاڑی یاد آئی جو راولپنڈی کے آباد علاقے سے سرِ شام چوری ہو گئی تھی۔ ایک سال اور تین ماہ ہو گئے۔ ایس ایچ او سے شہر کے ایس پی تک، سب سے مل لیا، کسی نے کوئی مدد نہیں کی۔ معلوم یہ ہوا کہ میں اکیلا نہیں ہوں، اس شہر سے ہر روز گاڑیاں چوری ہوتی ہیں۔ میرے محلے میں اس سے پہلے کئی ڈاکے پڑ چکے۔ لوگوں نے اپنی حفاظت کے لیے بیریئر لگا کر پوری سڑک بند کر رکھی ہے۔ کوئی قانون ہے نہ ضابطہ۔ چوروں کو کوئی روکنے والا ہے نہ تجاوز کرنے والوں کو۔ روز شہر میں دھرنے ہوتے ہیں اور جلوس۔ کہیں پانی کے لیے، کہیں بجلی کے لیے اور کہیں گیس کے لیے۔ چلیے گیس اور بجلی پوری قوم کا مسئلہ ہے لیکن امن و امان؟ روز قتل، روز ڈاکے، روز گاڑی چوریاں، روز اغوا۔ معلوم ہوتا ہے ہم کسی شہر میں نہیں، جنگل میں رہتے ہیں۔ اخبار اُٹھاتے ہیں تو خبر ملتی ہے، سارے پنجاب میں یہی حال ہے۔ فیصل آباد میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں، لاہور میں سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔ صوبے کا امن برباد ہے اور خبر آ رہی ہے کہ شہباز شریف اب راولپنڈی میں میٹرو بس چلائیں گے۔
ایک ترقی پذیر معاشرے میں بہتری کے دو ماڈل ہیں۔ ایک یہ کہ بڑا انفراسٹرکچر ترتیب دیا جائے۔ میٹرو بس، بلٹ پروف ٹرین، دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ مال۔۔۔ یوں ایک چکاچوند ہو۔ دنیا یہ محسوس کرے کہ ترقی اور خوشحالی کا ایک باب کھل گیا ہے۔ سرمایہ کار مینہ کی طرح برسنے لگیں اور معیشت میں بہتری آئے۔ یہ ماڈل ان ممالک میں کامیاب ہے جہاں سماجی اور سیاسی استحکام ہے، جیسے ملائشیا یا دبئی۔ جہاں ایک مضبوط ریاست اور حکومت موجود ہے اور عام آدمی کے جان و مال کو تحفظ حاصل ہے۔ بایں ہمہ عام شہری کی قوت خرید مناسب ہے، روزگار کے مواقع بھی ہیں۔ ایسے سماج میں اگر مزید سرمایہ کاری آئے تو بہتر انفراسٹرکچر معاشی سرگرمیوں کو مہمیز لگا دیتا ہے۔ ان ممالک میں یہ محض وقت اور سرمائے کا ضیاع ہے
جہاں سماجی انصاف میسر ہو نہ امن، لوگ نان جویں کو ترس رہے ہوں اور دہشت گردی جیسا عذاب ملک پر مسلط ہو، ایسے سماج میں بڑا انفراسٹرکچر گزرتے دنوں کے ساتھ اثاثے سے زیادہ ایک ذمہ داری بن جاتا ہے اور اس کا بوجھ اٹھانا ملکی معیشت کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے پاکستان جیسے سماج میں ایسے منصوبے نتیجہ خیز نہیں ہوتے۔ موٹر وے کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بلاشبہ یہ ایک بڑی سہولت ہے، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ روزانہ کتنی گاڑیاں یہاں سے گزرتی ہیں اور اس سے کیا آمدن ہو رہی ہے۔ جب مطلوبہ تعداد میں گاڑیوں کا گزر نہیں ہوتا تو اس سہولت کو برقرار رکھنے کے تمام اخراجات ریاست کی ذمہ داری بن جاتے ہیں اور یوں ان منصوبوں کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو پی آئی اے کا ساتھ ہوا۔ حکومتیں پھر نج کاری کا رخ کرتی ہیں۔
دوسرا ماڈل یہ ہے کہ پہلی ترجیح سماجی استحکام کو دی جائے۔ امن و امان اور سماجی رویوں کی تعمیر کو مقدم رکھا جائے۔ وسائل کا رخ اس طرف ہو کہ عام آدمی کو انصاف ملے، اسے بنیادی سہولیات زندگی میسر ہوں۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع کے ساتھ اسے جان اور مال کا تحفظ حاصل ہو۔ ریاست سیاسی اور سماجی طور پر اتنی مستحکم ہو چکی ہو کہ اگر بہتر انفراسٹرکچر میسر آجائے تو معیشت کو مہمیز مل جائے۔ پاکستان جیسے سماج کے لیے یہی موزوں ماڈل ہو سکتا ہے، لیکن اس جانب کسی کی توجہ نہیں۔
بڑے انفراسٹرکچر چند مفروضوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ جب وہ حقیقت نہیں بنتے تو قوم کو ایک اور ہاتھی پالنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر لاہور میں جب میٹرو بس کا آغاز ہوا تو چند مفروضے پیش نظر تھے۔ اتنی بسیں چلیں گی، اتنے مسافر روزانہ سفر کریں گے۔ اس کے بدلے میں ٹریفک میں اتنی کمی آئے گی اور یوں اس منصوبے سے اتنی آمدن ہو گی۔ اس طرح پانچ سال میں اس کی لاگت واپس مل جائے گی۔ عملاً ایسا نہیں ہوا کیونکہ کوئی مفروضہ حقیقت نہیں بن سکا۔ 27 کلومیٹر کے اس منصوبے پر 29.8 بلین روپے خرچ ہوئے، اس وقت یہاں 45 بسیں چل رہی ہیں، دوسرے لفظوں میں ایک کلومیٹر کے لیے 1.1بلین روپے اور ایک بس کے لیے 66.2 ملین۔ اب اگر بسوں کی تعداد بڑھ جائے تو لاگت اس نسبت سے کم ہوتی جائے گی۔ موجودہ معیشت کے ساتھ اس کا کوئی امکان نہیں۔ سرکاری دعویٰ یہ ہے کہ ہر روز 140000 شہری اس سروس سے استفادہ کرتے ہیں۔ بسوں کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ عملاً یہ تعداد بہت کم ہے۔ گویا یہ اندازہ بھی درست ثابت نہیں ہوا۔ یہ ساری تفصیلات ایک معتبر انگریزی اخبار میں شائع ہو چکی ہیں۔
میاں برادران ترقی کا پہلا ماڈل پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ وہ ترکی کے موجودہ نظام اور قیادت کو آئیڈلائیز کر رہے ہیں۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ ترکی اور ملائشیا سے بہت مختلف ہے۔ یہ سیاسی اور سماجی طور پر ایک غیر مستحکم سماج ہے۔ ترکی نے پہلے یہ منزل سر کی، اس کے بعد وہ بڑے بڑے انفراسٹرکچر تعمیر کر رہا ہے۔ جس ملک میں امن و امان برباد ہو چکا ہو، لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، عام شہری تعلیم اور صحت کی سہولتوں سے محروم ہو، وہاں بڑے انفراسٹرکچر ملکی معیشت کے لیے بوجھ کے سوا کچھ نہیں ہوتے۔ ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان سے کتنا سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوا۔ یہ انسان ہو یا سرمایہ، اسے سب سے پہلے اپنی بقا کی فکر ہوتی ہے۔ بقا کی ضمانت کے بعد ہی وہ پھلنے پھولنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے، اس لیے پہلی توجہ جان اور مال کے تحفظ کو دینی چاہیے اور بدقسمتی سے پنجاب کے عوام اس سے محروم ہیں۔
سو چتے سوچتے میں بھول گیا کہ ابھی گھرکی دہلیز پر کھڑا ہوں۔ پھر مجھے ابھی امتیاز کو پرسا بھی دینا ہے۔ چوکیدار بتا رہا ہے کہ ڈاکوؤں نے ان کی اہلیہ کے کانوں سے بالیاں بھی اتروا لیں اور انگوٹھی بھی۔ میں مناسب الفاظ کی تلاش میں ہوں کہ ان سے اظہارِ ہمدردی کر سکوں۔ سچ یہ ہے کہ میں نے اپنے پڑوسی کا دکھ سنا تو گاڑی کی چوری کا اپنا غم مجھے کم دکھائی دیا۔ میٹرو کے سفر کو بھی بھول گیا جو ابھی پردہ غیب میں ہے اور میںکھلی آنکھوں سے اس کا خواب دیکھ رہا تھا۔