جنرل پرویز مشرف کے وکلاکا اصل مخاطب عدالت نہیں، فوج، میڈیا اور حکومت ہے۔ اُن کے 'دلائل‘ میں قانون کا کم، سیاست کا حوالہ زیادہ ہے۔اب وہ زبانِ حال اور زبانِ قال سے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ مشرف صاحب کا نہیں، دراصل پاک فوج کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ اب فوج پر واجب ہوگیاہے کہ اس باب میں اپنا موقف بیان کرے۔
آئی ایس پی آر کا اصل وظیفہ یہی تھا کہ میڈیا کی معرفت فوج کا مقدمہ عوام پر واضح کرے جب اس کی ضرورت ہو۔ان دنوں یہ ادارہ' تعلقاتِ عامہ‘ کا کام کرتا ہے۔اہلِ صحافت میں چند پسندیدہ افراد سے رابطہ رکھتا اور ایک سیاسی جماعت کی طرح لابنگ کرتا ہے۔مخصوص افراد کو بریفنگ اور مخصوص نقطہ نظر کی ترویج۔اب بھی لگتا ہے کہ کسی خبریا کالم کی معرفت اپنی بات کہہ دی جائے گی جو ظاہر ہے کہ ایک مصدقہ ذریعہ نہیںہوگا۔لازم ہے کہ مشرف صاحب کے معاملے میں بھی،اسی طرح یہ ادارہ اپنا موقف بیان کرے جس طرح اُس نے سید منور حسن کے جواب میں کیا تھا۔ کسی ابہام کے بغیر۔
جنرل مشرف کے مقدمے میں دوپیچیدگیاں ہیں۔ایک کا تعلق فوج اور دوسری کا حکومت سے ہے۔جنرل مشرف کااقدام شخصی تھا یا اداراتی ،جب ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی ایم آئی کے ساتھ انہوںنے جسٹس افتخار چوہدری کو استعفے کے لیے کہا؟اس سوال کے جواب میں جو پیچیدگی ہے،اس کا تعلق فوج سے ہے۔پاک فوج کا سربراہ اگر کوئی ایسا قدم اٹھاتا ہے جو آئین کے خلاف ہے اور فوج بطور ادارہ اس کا ساتھ دیتی ہے توکیا دوسرے افراد کو اس سے بری الذمہ قرار دیا جا سکتا ہے، محض اس دلیل کی بنیادپرکہ وہ قانوناً حکم ماننے کے پابند تھے؟یہ دلیل اس لیے قابلِ قبول نہیں سمجھی جا تی کہ ہر سرکاری اہل کار اپنی ذمہ داریاں قانون کی حدود میں ادا کرنے کا مکلف ہوتا ہے۔اگر اسے کوئی ایسا حکم دیا جا تا ہے جس کی قانون اجازت نہیں دیتا تو وہ حکم عدولی کر سکتا ہے۔بھٹو صاحب کے مقدمے میں وہ لوگ بھی پھانسی چڑھے تھے جنہوں نے محض حکم کی تعمیل کی۔اصل مقدمے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔اعانتِ جرم قانون کی نگاہ میں قابلِ تعزیزجرم ہے۔یہی وہ پیچیدگی ہے جس سے جنرل مشرف کے بظاہرایک ذاتی فعل کی ذمہ داری سے ،ان کے ادارے کو مستثنیٰ قرار دینا مشکل دکھائی دیتا ہے۔فوج کی پیچیدگی یہی ہے کہ اگر مقدمہ یہ رخ اختیار کرتا ہے تو وہ ایک فرد اور ادارے میں کیسے فرق کرے گی۔
حکومت کی پیچیدگی دوسری ہے۔وہ قانون شکنی کی اس داستان کا آغاز1999ء کے بجائے،2007ء سے کرنا چاہتی ہے۔1999ء سے کیوں نہیں؟ اس سوال کا کوئی قابلِ اطمینان جواب حکومت کی طرف سے سامنے نہیں آیا۔2007ء کے واقعات نے تو 1999ء کے واقعے کی کوکھ سے جنم لیا۔اصل کو نظرا نداز کرکے، فرع کا تعاقب قابل ِفہم نہیں۔معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور فوج دونوں اپنی اپنی پیچیدگی کے اسیر ہیں۔ شاید اس لیے دونوں کے خیر خواہ انہیں مشورہ دے رہے ہیں کہ ''مٹی پاؤ‘‘۔ دونوں کی نگاہیں آسمان کی طرف ہیں کہ کوئی طیارہ نمودار ہو اور اس 'مصیبت‘ کو اڑا لے جائے۔' مصیبت ‘ کا معاملہ یہ ہے کہ خیر خواہوں کے ہر مشورے کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ اس حال میںہے کہ' نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘۔مشرف صاحب بھی لگتا ہے کہ اب سوئے افلاک ہی دیکھ رہے ہیں۔ دیکھیے،آسمان سے ،ان نالوں کا کیا جواب آتا ہے۔
سب سے نازک معاملہ فوج کا ہے۔اسے بہر حال ایک فیصلہ کرنا ہے۔آخر کب تک وہ چند لوگوں کے ہوسِ اقتدار اور آئین شکنی کا بوجھ اٹھائے گی؟مشرف صاحب نے اپنے ادارے کے خلاف بھی ایک جرم کیا۔انہوں نے اس نیک نام ادارے کو اپنی قوم میںا جنبی بنا دیا۔ فوج اور عوام کے مابین ایک واضح خلیج دکھائی دی۔ یہ کام جنرل یحییٰ خان نے بھی کیا ۔انہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام اور فوج میں ناقابلِ عبور فاصلہ پیدا کیا۔جنرل ضیاالحق نے بھی بھٹو صاحب کو پھانسی دے کرقوم کے طبقے اور فوج میں دوریاں پیدا کیں۔جو کسر رہ گئی تھی وہ مشرف صاحب نے پوری کرد ی۔اللہ کا شکر ہے کہ جنرل اشفاق کیانی نے اس فضا کو بدل دیا۔فوج اور عوام کے درمیان اعتماداور محبت کا رشتہ پھر سے استوار ہوا۔اگر جنرل راحیل شریف اس ادارے کو جنرل ضیاالحق صاحب کی عطا ''سٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ کے تصور سے نجات دلا سکیں تو پاکستان میں اداراتی کشمکش کا خاتمہ ہو جائے گا۔اس سے ملک کو داخلی استحکام نصیب ہوگا۔تاہم اس منزل کے راستے میں ایک اور پڑاؤ بھی ہے اور وہ جنرل مشرف صاحب کا مقدمہ ہے۔
میرا خیال ہے کہ فوج کو اس مقدمے سے اعلانیہ اظہارِ برأت کر نا چاہیے۔فوج کا موقف یہ ہو نا چاہیے کہ ریاست کا ہر ادارہ آئین کے تحت اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتا ہے۔فوج بھی خود کو اس سے ماورا نہیں سمجھتی۔جنرل مشرف صاحب کے کردار کو اگر عدلیہ اس حوالے سے پرکھتی ہے تو بطور ادارہ اسے کوئی اعتراض نہیں۔ فوج اس باب میں عدالت کے ہر فیصلے کا احترام کرے گی۔ اس کے بعد یہ کام عدلیہ اور حکومت کا ہے کہ وہ اس مقدمے سے کس حکمت کے ساتھ نمٹتے ہیں۔اس موقف سے فوج کے بارے میں کوئی منفی بات کہنا ممکن نہیں رہے گا۔بایں ہمہ احمد رضا قصوری صاحب جیسے لوگوں پر بھی واضح ہو جائے گا کہ ان کی موکل فوج نہیں،مشرف نامی ایک فرد ہے۔انہیں ساری توجہ ان کے دفاع پر دینی چاہیے۔اس وقت تومشرف صاحب کے حسنِ انتخاب کی داد ہی دی جا سکتی ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے وکلا کے باب میں کیا۔ان وکلاکی کارکردگی یحییٰ بختیار صاحب کی یاد دلا تی ہے،بھٹو صاحب کے مقدمے میں، جن کے عدالتی بیان ، جج صاحبان سے زیادہ اُس اخباری ضمیمے کے لیے ہوتے تھے جو شام کو چھپتاتھا۔
فوج کو اس درپیش الجھن سے نکالنے میں عدلیہ ،حکومت اور میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کر نا چاہیے۔اس وقت کم وبیش اتفاق ہے کہ کسی فرد کو سزا دلانا ،ا صل مقصد نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ آئین شکنی کاباب بند ہو۔ یہ تصور پختہ ہوکہ کوئی آئین اور قانون سے ماورا نہیں ہے۔اصل حاکمیت بندوق یا ووٹ کی نہیں، آئین کی ہے۔ ووٹ کے زور پر قانون شکنی کو روا رکھا جا سکتا ہے نہ بندوق کی طاقت سے کوئی آئین پامال کر سکتا ہے۔وزیر اعظم اور آرمی چیف ایک طرح قانون کے سامنے جواب دہ ہیں۔یہ قدر اگر مستحکم ہو تی ہے تویہی اس قوم کی جیت ہے۔مشرف صاحب کے مقدمے کو ایک الجھن کے بجائے،ہم ایک موقع (Opportunity) میں بدل سکتے ہیں۔دنیا یہ تجربات کر چکی ہے۔ایک راستہ اور بھی ہوسکتا ہے۔ اگر مشرف صاحب اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگ لیں تو ان کے خلاف مقدمہ واپس لے لینا چاہیے۔ میں ان سے اس اعلیٰ ظرفی کی توقع نہیں رکھتا۔یہ'اگر‘ عملی زندگی میں بہت مشکل ہوتا ہے۔'اگر‘اسامہ بن لادن خود کو امریکہ کے حوالے کردیتے تو افغانستان اور ساری دنیا ایک عذاب سے بچ سکتے تھے اور شاید اسامہ خود بھی۔اس لیے اس 'اگر‘ کی خواہش تو کی جا سکتی ہے، توقع نہیں۔قابلِ عمل یہی ہے کہ فوج مشرف صاحب کے مقدمے سے اعلانِ برأت کرے اورپھرسب مل کر فوج کو اس پیچیدگی سے نکالیں، جس کا اسے سامنا ہے۔ اس سے احترامِ قانون کی روایت مستحکم ہو گی اورریاستی اداروں کے باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی۔