نمائندے نامزد ہوگئے، کمیٹیاں بن گئیں مگرابہام ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا تا ہے۔
حکومتی کمیٹی؟اس کا مفہوم کیا ہے؟بظاہراس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حکومت کی ترجمانی کریں گے۔حکومت کا نقطہ نظر مگر ہے کیا؟یہ ابھی تک کوئی نہیں جانتا۔طالبان کی کمیٹی؟خیال یہی ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو طالبان کا نقطہ نظر پیش کریں گے۔یہ نقطہ نظر ہے کیا؟یہ بھی کوئی نہیں جا نتا۔پروفیسر ابراہیم صاحب کا کہناہے کہ وہ ثالث بالخیر ہیں۔یہ نہیں بتا یا کہ کیسے؟آپ کو ایک فریق نے نامزد کیا ہے۔عرفِ عام میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ان کی ترجمانی کریں گے۔ثالث تو وہ ہو تا ہے جسے دونوں فریق اس منصب پر فائز کریں۔حکومتی کمیٹی کے ارکان کا انداز بھی وہی ہے جوثالث کا ہے۔حالانکہ وہ بھی ایک فریق کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ دونوں کی یہ حیثیت کہ وہ ثالث ہیں، اُس وقت مسلّم ہو گی جب دونوں فریق یہ اعلان کریں گے کہ جو یہ فیصلہ کریں گے، ہمیں قبول ہو گا۔تادمِ تحریر یہ بات اپنی کمیٹی کے بارے میں کسی فریق نے نہیں کہی۔پھر ثالث بھی بالعموم ایک ہی ہو تا ہے جس پر دونوں فریق اتفاق کرتے ہوں۔تو کیا پھر یہ وکیل ہیں؟یہ بھی طے نہیں۔وکیل موکل کا مقدمہ پیش کرتا ہے۔وہ ثالث نہیں ہوتا۔سوال وہی ہے کہ موکلوں کا مقدمہ ہے کیا؟یہ ابھی واضح نہیں۔اگریہ ثالث نہیں اور وکیل بھی نہیں تو پھر کیا ہیں؟دعا کی جانی چاہیے کہ یہ ابہام جلد دور ہو۔خیال ہوتا ہے کہ مذاکرات کی گرم جوشی میں سب گھر سے نکل پڑے ،زادِ راہ کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔عمران خان اور مو لانا فضل الرحمن نسبتاً سمجھ دار نکلے۔اپنا دامن بچا لیا۔
ایک ابہام اور بھی ہے۔تاثر یہ قائم ہوا کہ یہ سارا عمل طالبان کے خیر خواہوں کے مابین ہو رہا ہے۔یہ بات فرداً فرداً شاید درست نہ ہولیکن فی الجملہ یہی احساس ہوتاہے۔طالبان نے تو اس باب میں کوئی ابہام نہیں رکھا ۔ انہوں نے ایسے افراد کو نامزد کیا، جنہوں نے کشمکش کے بارہ تیرہ سالوںمیں اپنی سیاست اور صحافت،زبان اور قلم کا سارا زور ان کے پلڑے میں ڈالا۔یہ محض لفظی موشگافیاں ہیں کہ ایک بغیر داڑھی شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر طالبان نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ ایسے شخص کو بھی اپنے جیسا مسلمان مانتے ہیں یا آئین کو تسلیم کرتے ہیں۔آئین کو تسلیم کرنے والا ریاست کے خلاف ہتھیار کیسے اٹھا سکتا ہے؟طالبان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے موقف میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔اُن کی بات کا مفہوم جاننے کے لیے بین السطور جھانکنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔یعنی، گویا‘چنانچہ ‘یہ الفاظ ان کی لغت میں کم ملتے ہیں۔
حکومت نے اس بات کا خیال رکھا کہ اُن لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی جا ئے جنہیں طالبان اگر اپنا حامی نہیں تو اپنا مخالف بھی نہ سمجھتے ہوں۔ایک رائے یہ ہے کہ اس سماج میں دو نقطہ ہائے نظر اور بھی ہیں۔ایک سیکولر اور دوسرا غیر دیوبندی مذہبی نقطہ نظر ۔یہ دونوں گروہ اس سے پہلے جو گلہ دبے لفظوں میں کرتے تھے، اب اس کاآہنگ بلند ہو رہا ہے۔ان کا مقدمہ یہ ہے کہ طالبان کے بالمقابل اصل فریق وہ ہیں جو طالبان کی کارروائیوں سے براہ راست متاثر ہوئے۔ان کا شکوہ ہے کہ وہ مذاکرات کے اس سارے عمل کا سرے سے حصہ ہی نہیں ہیں۔ان کی رائے معلوم کی گئی ہے اور نہ انہیں مشورے میں شامل کیا گیا ہے۔حکومت کہہ سکتی ہے کہ اے پی سی نے اسے مذاکرات کا حق دیا ہے۔تاہم یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عمل میں تمام طبقات کو اعتماد میں لے۔ طالبان نے اس معاملے میں بھی زیادہ بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔انہوں نے دو کمیٹیاں،اس کے علاوہ بنا دی ہیں جو اس مذاکراتی عمل میں طالبان کے مفادات کا خیال رکھیں گی۔وہ یہ دیکھیں گی کہ کہیں ان کے مقاصد یا شرائط سے انحراف تو نہیں ہو رہا۔میرا خیال ہے، ایسی ایک کمیٹی حکومت کو بھی بنا دینی چاہیے۔اس میں ان طبقات کی بھی نمائندگی ہو جنہیں نظر انداز کیے جا نے کا گلہ ہے۔حکومت چونکہ ریاست اور آئین کی پاسبان ہے،اس لیے یہ کمیٹی اس بات کا جائزہ لے کہ کوئی ایسا مطالبہ تسلیم نہ کیا جائے جو آئین کے خلاف ہو۔اس سے امید ہے کہ اس مذاکراتی عمل کو پوری قوم کی تائید میسر آ جائے گی۔
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں لوگ آئین کی دُہائی تو بہت دیتے ہیں ، لیکن اسے ماننے والے بہت کم ہیں۔اس ملک کا آئین حکومت کو پابند بنا تا ہے کہ وہ ریاست اور سماج کومسلمان بنائے۔ہماراسیکولر طبقہ آئین کی بات کرتا ہے لیکن حکومت کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں کہ وہ سماج کی اخلاقی تعمیر کے باب میں کوئی قدم اٹھائے۔وہ اسے فرد کا انفرادی معاملہ قرار دے کر ریاست کے حق کو تسلیم نہیں کرتا جو اسے آئین دیتا ہے۔اس لیے اگر ان لوگوں کو بھی اس کمیٹی میں شامل کر لیا جائے تو آئین پسندی کا جو دعویٰ یہ لوگ کرتے ہیں،وہ بھی واضح ہو جائے گا۔جو بات ہم طالبان سے کہتے ہیں، وہی اِن سے بھی کہی جا نی چاہیے۔ طالبان کے نزدیک جمہوریت کفر ہے لیکن ہم ان سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ آئین کو مانیں جو جمہوری ہے۔سیکولر لوگوں کے نزدیک اخلاق ومذہب فرد کا معاملہ ہے مگر پاکستان کا آئین ایسا نہیں کہتا۔اس لیے انہیں بھی آئین کو ماننا چاہیے اور اس باب میں ریاست کے کردار کو تسلیم کر نا چاہیے۔
معلوم نہیں لوگوں کو اس بات کا کتنا خیال ہے کہ ہم اس وقت جس عذاب کا شکار ہیں،وہ اس بنیادی سوال کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے کہ ریاست،مذہب، سماج اور فرد کا باہمی تعلق کیا ہے؟اس باب میں ہمارے ہاں ایک سے زیادہ نقطہ ہائے نظر موجود ہیں۔آئین بھی ایک نقطہ نظر پر مبنی ہے۔اس میں غلط ا ورصحیح، دونوں طرح کی باتیں شامل ہو سکتی ہیں۔تاہم اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کو سماج کی نمائندہ جماعتوں نے ایک عمرانی معاہدے کے طور پر قبول کر رکھا ہے۔اس کی اساس پر ہماری ریاست قائم ہے اور قائم رہ سکتی ہے۔یہ انسانی تخلیق ہے اور اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔اس کا طریقہ بھی یہ آئین تجویز کر رہا ہے۔یہ طالبان ہوں یا سیکولر طبقہ، دونوں کو باور کرنا چاہیے کہ آئین جیسا ہے، ویسا ہی ماننا پڑے گا۔ وہ اگرچاہیں تو اسے حسبِ منشا تبدیل کر سکتے ہیں۔اس کی شرط یہ ہے کہ وہ اس طریقہ کار کی پابندی کریں جو اس آئین میں درج ہے۔
حکومت اگر اس بنیادی نکتے پر اتفاق رائے پیدا کرسکے تو یہی مذاکرات کی کامیابی ہو گی۔طالبان کی کمیٹی کو چاہیے کہ وہ طالبان کو اس پر آمادہ کریں کہ وہ آئین کے تحت، یہ نشاندہی کریں کہ نفاذِ اسلام کے باب میں یہ کام ہو نے چاہئیں۔ حکومت اگر سب طبقات کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنائے تو اس کے سامنے بھی یہی بات رکھے کہ اگر طالبان کا کوئی مطالبہ آئین کے خلاف ہے تو اسے قبول نہ کیا جا ئے۔یہ ممکن ہے کہ آئین کسی طبقے کی خواہشات کی مکمل ترجمانی نہ کرتا ہو لیکن یہ ہر شخص کو یہ حق ضرور دیتا ہے کہ وہ عامتہ الناس کو ہم نوا بنا کر اسے اپنی آرزئوں کے مطابق ڈھال لے۔اس لیے آج اگر کسی کو اس آئین میں کوئی کمی دکھائی دیتی ہے تو وہ جمہوری انداز سے جد وجہد کرے اور آئین کو بدل ڈالے۔اگر کوئی اس بات کو قبول نہیں کرتا تو پھر پوری قوم کو اس کے خلاف یکسو ہو جا نا چاہیے۔ابہام کی اس فضا سے نکلنے کا یہی راستہ ہے۔