گزشتہ تین روز کراچی میں گزرے۔ میں جب بھی کراچی جانے کا نام لیتا ہوں، مخالفت شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ پھر اس کا دائرہ ہر اُس خیر خواہ تک پھیلتا چلا جاتا ہے، جس تک یہ خبر پہنچتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ مجھے جیسا سفر گریز آدمی اس کے لیے بہانے ڈھونڈتا ہے کہ فرار کا کوئی راستہ نکل آئے؛ تاہم اس دفعہ سفر کا عنوان ایسا تھا کہ کراچی کے حالات اور طبیعت کی عدم آ مادگی، کچھ بھی حائل نہ ہو سکا۔
کراچی یونیورسٹی نے دو روزہ عالمی سیرت کانفرنس کا انعقاد کیا۔ سیرت چیئر کے ذمہ دار ڈاکٹر شکیل اوج نے دعوت دی تو انکار نہ ہو سکا۔ بھارت سے ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی اور علی گڑھ یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی کے ساتھ پاکستان سے ڈاکٹر خالد مسعود اور مولانا زاہدالراشدی جیسے اہلِ علم کے بارے میں بتایا گیا کہ تشریف لائیں گے۔ خیال ہوا کہ ایسے علما اور سکالرز حضرات کے خیالات اور تحقیق سے استفادے کا یہ موقع ضائع نہیں کر نا چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ کشش بھی تھی کہ ڈاکٹر شکیل اوج صاحب کے ساتھ ڈاکٹر طاہر مسعود جیسے اہلِ علم و ادب سے بھی صحبت رہے گی۔ پہنچا تو معلوم ہوا کہ اور بہت سے فضلا بھی جمع ہیں۔ برادرم عامر تحسین اور یونس عالم کے ساتھ ساحلِ سمندر کے عشائیے نے اس سفر کو مزید پُررونق بنا دیا۔ راولپنڈی اسلام آباد کے باسیوں کے لیے سمندر کی قربت کیا کشش رکھتی ہے، یہ کراچی والے شاید کبھی نہ سمجھ سکیں۔ اس رات ہم ذوق احباب کے ساتھ یادگار وقت گزرا۔
کراچی جا کر یہ اندازہ ہوا کہ سماج حادثات سے اثر تو لیتا ہے لیکن اس کی سانسیں کبھی تھمتی نہیں۔ تکلیف دہ واقعات زندگی کے چہرے پر نقش چھوڑ جاتے ہیں لیکن اس کا سفر رکتا نہیں۔ یوں بھی اب تو سارا ملک ہی کراچی ہے۔ خوف اور عدم تحفظ صرف اہلِ کراچی کا مقدر نہیں، اس ملک کے تمام مکینوں کی قسمت میں اب یہی لکھا ہوا ہے۔ جیسے وقت نے یہاں کے باسیوں کو حادثات کے ساتھ جینے کا ڈھنگ سکھا دیا ہے، ویسے ہی اب تمام پاکستانی وقت کے تلمیذ ہیں اور اس سے یہی سبق لے رہے ہیں۔ میں کراچی ہی میں تھا‘ جب پولیس کے جوانوں کی شہادت کا حادثہ ہوا۔ کبھی ایک ناحق قتل پہ لال آندھی آتی تھی۔ اب آ سمان بدلتا ہے نہ زمین۔ شہر اسی طرح رواں دواں تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ بڑے ہو ٹل آباد تھے اور ساحلِ سمندر پر بھی ہجوم تھا۔ معلوم ہوا غلامی ہی میں نہیں، قوموں کا ضمیر ظلم میں بھی بدل جاتا ہے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے، میں صرف یہ بتانا چا ہتا تھا کہ زندگی حادثات سے اثر تو لیتی ہے لیکن اس کا سفر رکتا نہیں کہ اس کی فطرت یہی ہے۔ ہمیں حیرت ہوتی تھی کہ اہلِ عراق کیسے زندہ رہتے ہیں۔ اب دنیا ہمارے بارے میں سو چتی ہو گی کہ ہم کیسے زندہ رہتے ہیں۔ ہمیں اگر کوئی جان سکتا ہے تو وہ افغانستان کے لوگ ہیں یا عراق کے۔
کالم تو اس ارادے سے شروع کیا تھا کہ کراچی یونیورسٹی کی سیرت کانفرنس کا حال لکھوں گا‘ لیکن کراچی شہر نے اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ اس شہر کی کشش ہی ایسی ہے کہ اس سے سرسری طور پر گزرنا ممکن نہیں۔ اب میں سیرت کانفرنس پر اتنا ہی اظہار خیال کر پاؤں گا جتنی اجازت مجھے کالم کی ضخامت دے گی۔ کانفرنس کے بارے میں اپنا مجموعی تاثر بیان کرنے سے پہلے میں دو اہم باتوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ ایک بات جو ڈاکٹر خالد مسعود نے کہی اور دوسری مولانا زاہدالراشدی نے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس تاثر کی نفی کی کہ رسالت مآبﷺ سے پہلے اہلِ عرب علم و دانش اور انسانی اوصاف کے معاملے میں بہت فروتر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبل از اسلام دور کے لیے 'جاہلیت‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ جاہلیت کا متضاد حلم اور بردباری ہے۔ گویا اسلام سے پہلے عربوں کا المیہ یہ تھا کہ وہ انتقام اور عدم برداشت میں مبتلا تھے۔ حلم اور برداشت سے تہی دامن تھے۔ اسی وجہ سے وہ نسلوں تک انتقامی جنگوں میں مصروف رہتے اور انتقامی رویے کو باعثِ عزت سمجھتے تھے۔ اسلام نے انہیں اس جاہلیت سے نکالا اور حلم کے راستے پر ڈالا۔ صدیوں کی دشمنیاں دوستی میں بدل گئیں۔ رسالت مآبﷺ کی قیادت نے جو عظیم الشان سماجی انقلاب برپا کیا، اس کی طرف کم لوگوں نے توجہ دی ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ آج کے مسلمان معاشرے میں دعویِٰ اسلام کے باوصف ہر روز جاہلیت کے مظاہر دیکھے جا سکتے ہیں۔ مولانا زاہدالراشدی نے یہ اہم نکتہ اٹھایا کہ رسالت مآبﷺ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ساری دنیا کے لیے اللہ کے رسول ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ عالم انسانیت کو درپیش مسائل کا حل سیرتِ رسولﷺ کی روشنی میں پیش کریں۔ ڈاکٹر خالد مسعود نے جدید تحقیقی منہاج کی روشنی میں، یہ بھی بتایا کہ مطالعہ سیرت میں کیسے ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کی تفصیلات ایک عام قاری کے لیے شاید دلچسپی کا باعث نہ ہوں۔
کانفرنس میں شریک ہو کر مجھے یہ جاننے میں مدد ملی کہ اس وقت دینی علوم کے باب میں ہماری جامعات کا معیارِ تحقیق کیا ہے۔ ڈاکٹر شکیل اوج کے ہاں ندرتِ خیال ہے۔ شخصی حیثیت میں، انہوں نے گزشتہ چند سالوں میں جو تحقیقی کام کیا ہے، وہ ایک ادارے جتنا ہے۔ ان کی بعض تصانیف کا اس کالم میں پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے۔ انہوں نے اس کانفرنس کے ذریعے یہ کوشش کی کہ اس تحقیقی کام کو علومِ اسلامیہ کے ماہرین کی اجتماعی سوچ بنا دیا جائے۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے۔ کانفرنس میں یہ احساس ابھر کر سامنے آیا کہ سیرتِ نبوی اور اسلامی علوم میں ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری جامعات سے وابستہ لوگ اس کا زیادہ ادراک نہیں رکھتے۔ باایں ہمہ وہ تحقیق کے جدید منہاج سے واقف ہیں نہ اپنی علمی ضروریات سے۔ ہم اس باب میں دینی مدارس کے گرتے تحقیقی معیار کا رونا روتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جدید اداروں کا حال بھی ان سے کچھ مختلف نہیں۔ اس میں اس وقت تک بہتری نہیں آ سکتی جب تک ہم ملک میں اعلیٰ تعلیم کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔
ان دنوں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کا تقرر ہونا ہے۔ اخباری اطلاعات پر بھروسہ کیا جائے تو جو دو نام اس وقت حکومت کے زیرِ غور ہیں، ان میں ایک ڈاکٹر شعیب سڈل ہیں۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو نیک نام ہیں لیکن تعلیم ظاہر ہے کہ ان کا شعبہ نہیں۔ اگر حکومت ان سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو ملک کو جرائم سے پاک کرنے میں ان سے مدد لے۔ اس میدان میں ان کے جوہر پوری طرح کھلیں گے۔ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ تو ایسے افراد کے حوالے کرنا چاہیے جو تعلیم اور تعلیمی اداروں کے بارے میں جانتے ہوں۔ ہمارے ہاں حکومتیں جب کسی آ دمی کو مشکور کرنا چاہتی ہیں تو بیوروکریسی کے ذمہ یہ کام لگاتی ہیں کہ وہ یہ دیکھے کہ کہاں کہاں خالی مناصب موجود ہیں۔ یوں کام سے مناسبت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس کے بعد اداروں کا وہی حال ہو نا چاہیے جو اس وقت ہو رہا ہے۔ فوجی ادوار میں ریٹائرڈ فوجی افسران کے لیے یہ خدمت سرانجام دی جا تی ہے اور جمہوری ادوار میں عام لوگوں کے لیے۔ اس سے معیار متاثر ہوتا ہے اور تعلیم میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ جامعہ کراچی کی اس سیرت کانفرنس کا افتتاح صدر مملکت نے کیا۔ ڈاکٹر شکیل اوج نے سیرت اور اسلام پر اپنے تحقیقی اداروں کا ذکر کیا۔ مجھے خیال ہوا کہ اگر ایسے لوگوں کو ریاست کی سرپرستی مل جائے تو ہمارے ہاں تحقیق کا معیار بہتر ہو سکتا۔ آج سب سے بڑا چیلنج فکرِ اسلامی کو درپیش ہے اور بدقسمتی سے یہی شعبہ علما اور جدید اہلِ علم کی کم مائیگی پر نوحہ کناں ہے۔