"KNC" (space) message & send to 7575

جھوٹ‘ سب جھوٹ!

جھوٹ، سب جھوٹ!ارکانِ پارلیمنٹ کی ٹیکس تفصیلات میرے سامنے ہیں اور میں چراغ حسن حسرت کو یادکر رہا ہوں۔
زرنیخ ، مریخ کاا یک باشندہ ہے ، انسانوں کو جاننے کے شوق میں،کرہِ ارضی کی طرف آ نکلا ہے۔ یہاں آکر اس نے جوکچھ دیکھا،اس کی تفصیلات اس نے اپنے ایک دوست ، تو بیخ کے نام خطوط میں بیان کیں جو مریخ پر رہتا ہے۔ حسرت صاحب نے ''زرنیخ کے خطوط‘‘ مرتب کر ڈالے۔ اپنا ایک تاثر بیان کرتے ہوئے زرنیخ لکھتا ہے: ''میں سمجھتا تھا کہ کرہ ِارض کے باشندے مجھے کوئی نئی بات سکھا نہیں سکتے۔ان کے پاس کو ئی ایسی چیز نہیں جو ہمارے پاس مو جود نہ ہو، لیکن اے تو بیخ! میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگیاکیونکہ ان کے پاس جھوٹ ہے جو ہمارے پاس نہیں ۔ دراصل ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ ہم جھوٹ بو لنے پربھی قدرت رکھتے ہیں ۔ میں پچھلے چند دنوں سے جھوٹ بو لنے کی مشق کر رہا ہوں۔اس میں ایک نا قابلِ بیان لذت ہے۔ ایک حیرت انگیزآسو دگی۔ قسم ہے اس نیلگوں وسعت کی کہ ترامید (مریخ)کی وادیوں میںکوئی پھل ایسا نہیں جو شیرینی میں جھوٹ کا مقابلہ کر سکتا ہو‘‘۔
مریخ کے اس باسی کا ایک اور مشاہدہ دیکھیے:''۔۔۔اصل میں جھوٹ بو لنا بڑا مشکل فن ہے۔ اہلِ زمین کے لیے تو نہیں کیونکہ جھوٹ ان کا روز مرہ کا مشغلہ ہے لیکن ہمارے تمہارے لیے بڑا مشکل ہے۔ پھر خود یہاں کے لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ بھدی قسم کا جھوٹ توہر شخص بول لیتا ہے لیکن لطیف قسم کا جھوٹ ،یعنی ایسا جھوٹ جو بظاہر سچ معلوم ہو،خاص خاص لوگوں کا حصہ ہے۔ شاعر، ادیب اور اخبارنویس اس فن میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ سیاست دان بھی ایسے ایسے جھوٹ تصنیف کرتے ہیں کہ جن کی لطافت پر روح وجد کرتی ہے۔ شکر ہے کہ مجھے استاد بھی ایسا ہاتھ آیا ہے جو اس ہنر میں یگانہ ہے، یعنی وہ شاعر بھی ہے،اخبار نویس بھی ۔ افسانے بھی لکھتا ہے، سیاست سے بھی واسطہ رکھتا ہے اور یہ ساری چیزیں ایسی ہیں کہ جن میں جھوٹ کے بغیر دو قدم چلنا بھی مشکل ہے۔کبھی کبھی ان کی باتیں سنتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے کہ اتنی زندگی گزرگئی اور جھوٹ سے بیگانہ ہی رہے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ ہماری تمہاری اکثر ناکامی کی وجہ جھوٹ سے بیگانگی ہے۔۔۔‘‘
اہلِ سیاست کی ٹیکس تفصیلات پڑھ کر میری روح بھی وجد کر رہی ہے۔315 ارکانِ قومی اسمبلی ایسے ہیں جن کے پاس کار ہے نہ بینک اکاؤنٹ، زیورات ہیں نہ شیئرز ۔ ایک سو تو نادہندہ ہیں ۔ جنہوں نے ٹیکس دیا ہے ان میں اکثرکا ٹیکس ہزاروں میں ہے۔ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک سوروپے سے کم ٹیکس دیا ہے ، ظاہر ہے شرط پوری کی ہے۔ اخبارکہتا ہے کہ سینٹ اور قومی وصوبائی اسمبلیوں کے 47 فیصد ارکان نادہندہ ہیں۔ دل یہ سب مان کر نہیں دیتا۔ جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہو تا ہے تو قیمتی گاڑیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا کاروان پارلیمنٹ کے چاروں اطراف پھیل جاتا ہے۔ ارکان ایسی ایسی گاڑیوں سے نمودار ہوتے ہیں کہ مجھ جیسے عامیوں نے پہلی بار دیکھی ہوتی ہیں۔آنکھیں چندھیا جا تی ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ انتخابی مہم کروڑوں کھا جاتی ہے۔اچھے خاصے متمول لوگ انتخابات کے خیال ہی سے توبہ کرگئے ہیں کہ اخراجات گرفت میں نہیں آتے۔ ان مشاہدات کے بعد کوئی یہ کیسے باورکر لے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس گاڑی تک نہیںیا یہ کہ ان کے اثاثے چند لاکھ ہیں۔
میں نے حسنِ ظن کے ساتھ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کسی آ دمی کا کاروبار ہو اور وہ اس کا پورا ٹیکس ادا کردیتا ہو۔اس کے ذاتی اکاؤنٹ میں ہو سکتا ہے کہ زیادہ رقم نہ ہو۔ یہ ممکن ہے کہ اس کے پاس گاڑی کسی کمپنی کے نام ہو جو اس کی ملکیت ہے۔اگر میں یہ گمان رکھوں تو پھریہ سوال سامنے آتا ہے کہ وہ کاروبار کیا ہے اورکہاں ہے؟کیا اس سے اتنی آ مدن ممکن ہے جس سے ایک عالی شان زندگی گزاری جا سکے؟اس کی تفصیلات بھی شائع ہوتی رہی ہیں کہ اکثر ارکانِ پارلیمنٹ کا کوئی کاروبار نہیں۔ لوگ ان کے ذرائع آمدن سے بے خبر ہیں ۔ بہت سے سیاست دان ایسے ہیں جن کے تمام بڑے شہروں میں گھر ہیں۔ ان کے اثاثوں کی تفصیلات میں ان کا کوئی گزر نہیں۔ طرزِ زندگی اور آ مدن میں اس فرق کی کوئی تو جیہ ہمارے سامنے نہیں آ سکی۔ ٹیکس کی تفصیلات نے اس کی ضرورت کو مزید نمایاں کر دیا ہے کہ عوام کوحقیقت معلوم ہو۔میںخلافتِ راشدہ کی مثال نہیں دیتا لیکن اس باب میں مو جود ملکی قوانین کی پاس داری تو ہونی چاہیے۔ میں جا نتا ہوںکہ ایساکبھی نہیں ہو پائے گا۔اس کی ایک وجہ ہے۔
یہ ہمارے سماج کا آئینہ ہے۔یہ وہ سماج ہے جس کا نظامِ اقدار پامال ہو چکا۔ جھوٹ اب ایک سماجی قدر ہے، اس کو قبولیت ِ عام حاصل ہو چکی۔ بد دیانتی کوئی معاشرتی جرم نہیں رہی۔ پارلیمنٹ کیا ہے؟ ہمارے منتخب نمائندے۔ ہم کون ہیں، وہی جو جھوٹ کو اپنا چکے۔ ہمارے نمائندے ہم سے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں۔ عام شہری اگر ہما شما ہوں تو خلیفۂ وقت عمرؓ ابن خطاب کیسے ہو سکتے ہیں؟شہری اگر عمر، عبدالرحمٰن ابن عوف، عثمان،علی اور عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنھم جیسے ہوں تو پھر حکمران ابوبکرؓ ہی ہوسکتے ہیں۔ مولانا مودودی نے سچ لکھا، دودھ زہریلا ہو تو مکھن میں زہرضرور ہو گا۔ لوگوں کاخیال کہ اس سماج میںشرعی قانون نافذ ہو نا چاہیے ،کاش میں انہیں سمجھا سکتا کہ متعفن فضا میں گلاب نہیںکھلتے۔ 
ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھمانفاذِ شریعت سے پیدا نہیں ہوئے۔ یہ رسالت مآبﷺ کی برسوں کی محنت کا ثمر ہے۔اسلام کو ریاست اورنظام سمجھنے والے اس راز کو نہیں جان سکتے۔ اسلام ہدایت ہے۔ یہ اصلاً سماج کی تشکیل کرتا ہے جس کا ایک ماحاصل ریاست بھی ہو سکتی ہے۔ جب سماج بن جا تا تو شریعت کی طلب،اس کے داخل سے پیدا ہوتی ہے۔ قانون ریاست کی ناگزیرضرورت ہے اور نظام ِ اقدار سماج کی۔ سماج اگر انسانی جان کی حرمت کا قائل نہیں توکوئی سزائے موت کا قانون انسانی جان کو نہیں بچا سکتا۔ پہلے سماج کو انسانی جان کے بارے میں حساس بنا نا پڑتاہے۔ اسی طرح کی حقیقت یہ بھی ہے کہ اچھے حکمران اچھی قوم کا مقدر ہوتے ہیں۔ جہاں جھوٹ سماجی قدر بن جائے، وہاں ارکانِ پارلیمنٹ کے ٹیکس گوشوارے ایسے ہی ہوں گے جیسے ہم دیکھ رہے ہیں۔
یہ جمہوریت کی ناکامی کی دلیل نہیں ہے ، اس لیے کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ایسا نظام مو جود نہیں جو ہمیں بہتر حکمران دے سکے۔ خلافت کے بارے میں، میں بتا چکا کہ وہ بھی صالح معاشروں میں نتیجہ خیز ہو تی ہے ورنہ یہ بنوامیہ اور بنوعباس کا نظام بن کر رہ جا تی ہے۔ یوں بھی خلافت اصلاً جمہوریت ہی ہے۔ یہ جمہوریت ہی میں ممکن ہوا کہ ہم ان لوگوں کے بارے میںجان رہے ہیں جو ہماری نمائندگی کر رہے ہیں۔ جمہوریت ہمیں موقع دے گی کہ ہم ان کو بدل ڈالیں ، لیکن اس سے پہلے سماج کو بدلنا ہوگا، وہ سماج جہاں اخلاقی اقدار ختم ہو چکیں ، جہاں جھوٹ کو سماج نے بطور قدر قبول کر رکھا ہے۔ جھوٹ کی بات ہوئی تو مجھے پھر''زرنیخ کے خطوط‘‘ یاد آگئے۔ یہ سنجیدہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ، آپ کواگر موقع ملے تو یہ خطوط ضرور پڑھیے۔ آپ کے لبوں پر مسکراہٹ تو آئے گی لیکن ساتھ ہی آپ محسوس کریں گے کہ کوئی دماغ کے دروازے پر بھی دستک دے رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں