تھر میں جو کچھ ہوا، یہ قحط تو ہرگز نہیں تھا؛ البتہ اور بہت کچھ تھا۔ یہ بدانتظامی اور سماجی بے حسی کا ایک شرمناک نمونہ تھا۔ قحط غذائی قلت کا نام ہے۔ یہ کمی نہیں، وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات کا مظاہرہ تھا۔
تھر کا واقعہ، ایک بڑے سماجی المیے کا عنوان ہے۔ ایسا المیہ جس نے انسان کے فکر اور سماج کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ ابتدائی اشتراکیت سے فلاحی مملکت کے تصور تک، انسان نے غوروفکر کا طویل سفر اس سوال کے جواب کے لیے طے کیا کہ معاشرے میں وسائل کی منصفانہ تقسیم کیسے ممکن ہے؟ اسلامی سوشلزم بھی اسی سوال کے ایک جواب کے طور پر نمودارہوا۔ آج دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ وسائل کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا ہے؛ تاہم دنیا بھر میں سرمایہ دار اتنا ہوشیار ضرور ہے کہ وہ اپنے خلاف غم و غصے کو منظم نہیں ہونے دیتا۔ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کوئی بھوک سے مر نہ جائے۔ اپنے نفع سے ویلفیئر کے نام پر محروم طبقات پر خرچ کرتا رہتا ہے۔ وہ یہ کام ریاست کی سطح پر کرتا ہے اور غیر ریاستی دائرے میں بھی۔ ہمارا سرمایہ دار نو دولتیے کا مزاج رکھتا ہے۔ اپنے نفع میں کسی کو شریک نہیں کر نا چاہتا۔ اس کی آنکھوں کا ندیدا پن ختم نہیں ہوتا۔ بلاول بھٹوکا کہنا ہے: ''ہم اپنا پیٹ کاٹ کر تھر کے بچوں کا پیٹ بھریں گے۔‘‘ بے آسرا لوگوں سے یہ مذاق صرف پاکستان ہی میں ہو سکتا ہے۔
دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام نے یہ سیکھ لیا ہے کہ وسائل اور روزگار کو چند افراد اور مقامات تک محدود نہیں رکھنا چاہیے۔ پاکستان کا سرمایہ دارانہ نظام ابھی صنعتی عہد میں جی رہا ہے جب انسانوں نے بڑی تعداد میں شہروں کا رخ کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زندگی کی سہولتیں اور روزگار شہروں تک محدود ہو گئے تھے۔ ہمارے ہاں ابھی تک یہی ہو رہا ہے۔ پنجاب کے حکمرانوں کو لاہور کی تزئین و آرائش سے فرصت نہیں۔ صوبے کے وسائل کا زیادہ حصہ شہروں پہ خرچ ہو رہا ہے۔ سندھ میں تو لگتا ہے کہیں بھی خرچ نہیں ہو رہا۔ نہ شہروں میں، نہ دیہات میں۔ کہیں سے کسی تعمیراتی منصوبے کی کوئی خبر نہیں آئی۔ کراچی میں انفراسٹرکچر بہتر ہوا لیکن بلدیاتی نظام کے تحت۔ اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان کو جاتا ہے یا ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کو۔ ملک کے تما م دیہاتی علاقوں میں، وہ سندھ میں ہوں یا پنجاب میں، بلوچستان میں ہوں یا خیبر پختون خوا میں، صرف بھوک اگتی ہے اور افلاس جنم لیتا ہے۔ اگر روزگار کے امکانات اور سہولتوں کو دیہات تک پھیلا دیا جاتا تو وہ المیہ جنم نہ لیتا جس کا ایک مظہر تھر ہے۔ دیہات آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ جیسے جیسے ان کے فاصلے بڑے شہروں سے بڑھتے جاتے ہیں، انسانی مسائل میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی نے نئے شہر آباد کرنے کے بارے میں سوچا ہو۔
تھر کے لوگ ایک بڑے انسانی المیے کا شکار ہیں جو ہمارے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ اقبال نے اس خطے کے مسلمان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ 'کشتہء پیری و سلطانی و ملائی‘ ہے۔ تھر مخدوموں کاعلاقہ ہے۔ مدت سے یہاں مخدوم امین فہیم کے خاندان کی حکمرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے چار بیٹے اس وقت کسی نہ کسی طرح حکومت کا حصہ ہیں۔ یہاں کے لوگ ان کے مرید ہیں اور ووٹر بھی۔ بھوک یہاں اچانک نہیں اتری۔ اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پرانی، اس خاندان کی پیری اور جاگیرداری ہے۔ اگر یہ لوگ صرف صوبائی حکومت کے وسائل کا رخ اس طرف کر دیتے تو یہاں انسانی المیے جنم نہ لیتے۔ ان لوگوں سے یہ امید نہیںکی جا سکتی کہ یہ ذاتی وسائل عام آ دمی پر خرچ کریں گے۔ شریف خاندان کی یہ شہرت تو ہے کہ وہ ذاتی وسائل سے خیر کے بے شمار کام کرتے ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ مخدوم صاحب یا شاہ محمود قریشی جیسے لوگوں نے اُس پیسے سے عوامی فلاح و بہبود کا کوئی منصوبہ شروع کیا ہو جو دراصل ان مریدوں ہی کا صدقہ ہے۔ بلاول اپنا پیٹ نہ کاٹیں، اگر صرف اپنے والدِ گرامی سے یہ کہہ دیں کہ وہ اپنی دولت کا ایک حقیر حصہ تھر کے لوگوں پر خرچ کر دیں تو مجھے یقین ہے کہ یہاں سے کم از کم بھوک تو ضرور ختم کی جا سکتی ہے۔
ہم اپنے حکمران طبقے سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ ذاتی سرمایے سے کوئی فلاحی کام کرے گا؛ البتہ یہ مطالبہ تو کر سکتے ہیں کہ وہ ریاست کے وسائل کو تقسیم کرتے وقت ترجیحات کا درست تعین کرے۔ اس طبقاتی تفاوت کو ضرور مخاطب بنائیں جو سماج کے رگ و پے میں سرایت کر چکا۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ ایک سرمایہ دارانہ نظام اس کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے لیکن، اس باب میں کم از کم سرمایہ دارانہ معاشروں سے تو سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح اگر شریف خاندان جیسے چند لوگوں کو اللہ نے یہ توفیق دی ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ ایسے علاقوں میں فلاحی منصوبے شروع کریں جہاں بنیادی سہولتوں کی کمی ہے۔ ہمیں اس معاملے میں 'الخدمت‘ جیسے غیر حکومتی اداروں کی بھی مدد کرنی چاہیے جن کی خدمات بہت قابلِ قدر ہیں۔ یہ سارا کام اسی وقت ممکن ہو گا جب سماج بیدار ہو۔ تھر کا المیہ ایسا ہے جس سے ہم لوگوں کو اس جانب متوجہ کر سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ سماج کو ہدف بنائے بغیر جاگیرداری اور پیری جیسے سماجی مسائل کو مخاطب نہیں بنا یا جا سکتا۔
ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام واحد مسئلہ ہے۔ سرمایہ داری نے بھی جیسے میں نے کہا، ویلفیئر سٹیٹ کا تصور دے کر، اپنی خون خواری میں کسی حد تک کمی کر دی ہے۔ ہمارے لیے تو عوام کا خون چوسنے کے لیے اور بہت سی جونکیں ہیں۔ وہ سب جن کا اقبال نے ذکر کیا ہے۔ یہاں ان تینوں کے درمیان تعاون اور اشتراک میں اضافہ ہوا۔ یہ اتحاد ظاہر ہے کہ عوام کے خلاف ہے۔ اس المیے کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب کابینہ میں شامل تیرہ وزرا سجادہ نشین تھے۔ اب کون ہو گا جو تھر المیے کے اصل ذمہ داروں کا نام لے گا۔ یہ بات طے ہے کہ جب کسی طبقے کا مفاد ایک نظام سے وابستہ ہو جاتا ہے، وہ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔
جمہوریت کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک سماجی تبدیلی ناگزیر ہے۔ ایک شعوری تبدیلی جو اس اتحاد کو توڑے جو عوام کے خلاف وجود میں آ چکا۔ میڈیا نے اس المیے کو نمایاں کرنے میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ اگر خبر کے بعد، وہ اس کے تجزیے کو درست رخ دے سکے تو اس سے سوچ کی تبدیلی کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر اب غور کی ضرورت ہے کہ اس نوعیت کے المیے اور کہاں کہاں جنم لینے کو ہیں۔ تمام صوبوں میں انتظامیہ کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ مقامی حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے تاکہ حکومتی نااہلی کا کو ئی دوسرا واقعہ نہ ہو۔ کاش کسی شب کی تنہائی میں، اربابِ اقتدار اس سوال پر غور کر سکیں کہ تھر میں بھوک کا شکار بننے والے بچوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟