روس کی انگڑائی کیا عالمی سیاست میںکسی تبدیلی کی خبر ہے؟ کیا عالمِ پیر مر رہا ہے؟ کیا ہم اپنی تاریخی نادانی کی کچھ تلافی کر پائیں گے؟
چند برس پہلے، پاکستان کے ایک ممتاز اور محترم صاحبِ دانش نے امریکہ کے معروف جریدے 'مسلم ورلڈ‘ کے لیے ایک مضمون لکھا۔ انہوں نے چند ذی علم افراد کے ساتھ اس طالب علم کو بھی مدعوکیا کہ اس مضمون پر تنقیدی نگاہ ڈالی جائے تاکہ اشاعت سے پہلے، اگر ضرورت ہو تو اس کو بہتر کیا جا سکے۔ جریدے کی یہ اشاعت پاکستان کے لیے مختص تھی اور یہ مضمون کلیدی تھا؟ عنوان تھا: کیا پاکستان ایک ناکام ہوتی ریاست ہے؟ مضمون نگار کا جواب نفی میں تھا۔ اس مقدمے کے حق میں انہوں نے پاکستان کے بعض 'کارناموں‘ کو بطور دلیل بیان کیا۔ ایک 'کارنامہ‘ ان کے خیال میں یہ تھا کہ پاکستان نے سوویت یونین کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس مجلس میں میرا کہنا یہ تھا کہ یہ واقعہ ہماری سیاسی و مذہبی قیادت کی بے بصیرتی کی دلیل ہے۔ ہماری قیادت یہ نہیں جان سکی کہ سوویت یونین کے بعد نیا ابھرنے والا منظرنامہ کیا ہو گا اور کس طرح ہم دنیا کو واحد عفریت کے حوالے کر رہے ہیں۔ 1990ء کے بعد دنیا امریکہ کے ہاتھوں جس عذاب سے گزری، اس میں ہمارا حصہ ہے اور یہ بات ہمارے لیے باعثِ شرمندگی ہونی چاہیے۔ نادانی کا اعتراف عام طور پر مشکل ہوتا ہے، اس لیے اس مجلس میں بھی نہیںکیا گیا۔ کیا آج یہ موقع پیدا ہو رہا کہ ہم اس نادانی کی تلافی کر سکیں؟
روس نے کریمیا کو ایک بار پھر اپنے وجود میں سمیٹ لیا ہے۔ 1954ء میں خروشچیف نے اسے یوکرائن میں شامل کیا کہ اُس وقت یہ سوویت یونین کے لیے گھر ہی کی بات تھی۔ کسے خبر تھی کہ وسطی ایشیا کبھی روس کے جغرافیے سے نکل جا ئے گا۔ آج روس کو موقع ملا تو اس نے کریمیا کو ایک بار پھر اپنے پروں کے نیچے لے لیا۔ اس پر عالمی سیاست کے ماہرین کا ایک گروہ یہ کہہ رہا ہے کہ اِسے محض ایک واقعہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ صدر پیوٹن اپنے پیش روئوں سے مختلف ہیں۔ انہوں نے تین امریکی صدور کے ساتھ کام کیا ہے اور تینوں نے ان کے بارے میں غلط اندازہ لگایا۔ مثال کے طور پر صدر بش ایک مذہبی آدمی سمجھے جاتے تھے۔ پیوٹن نے انہیں تاثر دیا کہ وہ بھی ایک مذہبی آدمی ہیں۔ 2001ء میں صدر بش جب ان سے ملے تو انہوں نے واقعہ سنایا کہ ایک بار ان کے آبائی گھر میں آگ لگ گئی، ہر شے جل کر خاکستر ہو گئی، صرف ایک صلیب بچی جو ان کی ماں نے انہیں تحفے میں دی تھی۔
ماضی قریب کے تین اور اہم واقعات بھی اس ضمن میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ 2008ء میں جارجیا کے ایک حصے پر بھی روس نے قبضہ کر لیا، یہ ابھی تک برقرار ہے، امریکہ اسے روک نہیں سکا۔ شام پر امریکہ نے چڑھائی کرنا چاہی تو روس مزاحم ہوا اور امریکہ کچھ نہ کر سکا۔ اب کریمیا کے معاملے میں بھی، نیٹو اور امریکہ بے بسی کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ اسے روسی پیش قدمی اور امریکی پسپائی کا عمل سمجھ رہے ہیں۔ اس کا ایک دوسرا پہلو باہمی مفادات ہیں۔ یورپی یونین کے ممالک چالیس فیصد گیس، پٹرول روس سے حاصل کرتے ہیں۔ برطانیہ، روس کے کروڑ پتی لوگوں کی میزبانی کرتا ہے اور اس کے بینکوں میں ان کے کروڑوں ڈالر جمع ہیں۔ جرمنی توانائی کی ایک تہائی ضروریات روس سے پوری کرتا ہے، جواباً اپنی گاڑیاں اور مشینیں روس کو بیچتا بھی ہے۔ اٹلی 28 فیصد توانائی روس سے لیتا ہے۔ اگرچہ روس کو G-8 سے نکال دیا گیا ہے لیکن باہمی انحصار کی وجہ سے ابھی تک اس کے خلاف موثر اقتصادی پابندیاں عائد نہیں کی جا سکیں۔
ایک رائے یہ کہ ہے کہ پیوٹن فطرت کے اصولوں سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ معروف تجزیہ نگار تھامس فرائیڈمین نے 'نیویارک ٹائمز‘ میں یہ پیش گوئی کی ہے کہ یہ جوش و خروش چھ ماہ سے زیادہ باقی نہیں رہنے والا، فطرت کے قوانین روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبورکر دیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ یوکرائن وغیرہ کی ترقی یورپی یونین سے وابستہ ہونے میں ہے۔ ہنگری، رومانیہ اور پولینڈ جیسے ممالک‘ جنہوں نے یورپی یونین کا انتخاب کیا‘ وہاں 2012ء میں جی ڈی پی 7000
ڈالر فی کس تھا، یوکرائن میں 6394 ڈالر۔ چونکہ خوش حال ہونا انسان کی فطری خواہش ہے، اس لیے یوکرائن کے عوام یہی چاہیں گے کہ وہ روس کے بجائے یورپی یونین سے وابستہ ہوں۔ ان کی ایک دلیل یہ ہے کہ دنیا اب ہائیڈروکاربن کے دور سے نکل رہی ہے۔ توانائی کے متبادل ذرائع امریکہ اور یورپ کے پاس موجود ہیں اس لیے روس پر توانائی کا انحصار زیادہ اہم نہیں رہے گا۔ وہ سائنس دانوں کا موقف دہراتے ہیں کہ زمین کا درجہ حرارت اگر دو درجے بڑھ گیا تو طوفان اور سونامی اٹھیں گے اور گیس پٹرول کے دریافت شدہ دوتہائی ذخائر کا استعمال ممکن نہیں رہے گا۔ یوں ماحولیات کی تبدیلی بھی روس کے ساتھ نہیں۔ اس تجزیے کی کمزوری یہ ہے کہ اس میں ایسی تبدیلیوں کو بنیاد بنایا گیا جو سالوں میں ہوتی ہیں، دنوں میں نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ توانائی کے متبادل ذرائع پر کام ہو رہا ہے لیکن ابھی کئی سال تک دنیا کا انحصار ہائیڈروکاربن پر ہی رہے گا۔ مئی میں صدر پیوٹن چین کا دورہ کر رہے ہیں اور چین روس سے ٹریلین ڈالرز کا معاہدے کر رہا ہے جن کا تعلق توانائی سے ہے۔
روس کے اندر خوشی کی ایک لہر ہے جیسے نشاۃ الثانیہ کا آغاز ہو گیا ہے۔ صدر پیوٹن کی مقبولیت میں دس فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ اب 72 فیصد ہو گئی ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کا اعلان کرنے والے گورباچوف کا کہنا ہے کہ کہ روس کو کریمیا تک رکنا نہیں چاہیے، جنوبی یوکرائن بھی روس کا ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ روس شاید آئندہ چند برسوں میں کھوئی ہوئی حیثیت تو شاید حاصل نہ کر سکے لیکن یہ واقعات چند تبدیلیوں کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ امریکہ کی عالمی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ایک تدریجی عمل ہے لیکن شاید اس کا آ غاز ہو گیا ہے۔ نئی دنیا میں روس فیصلہ سازی میں ایک کردار ادا کرے گا لیکن یہ فیصلہ کن نہیں ہو گا۔ دنیا میں طاقت کے اب بہت سے مراکز وجود میں آئیں گے۔ یہ دور باہمی انحصار (inter dependence) کا ہوگا۔
پاکستان اس صورتِ حال میں اپنا کردار تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کے لیے یہ موقع اب موجود ہے کہ اپنی اُس نادانی کی تلافی کرے جس کے نتیجے میں امریکہ دنیا کا واحد حکمران بن گیا تھا۔ روس کے عزائم سے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ وہ توسیع پسندانہ سوچ رکھتا ہے اور اگر خاموش ہے تو اس لیے کہ حالات ابھی اس کے لیے سازگار نہیں۔ یہ سوچ چین میں بھی موجود ہے۔ اس میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں قوت ہو گی، وہ دنیا پر اپنے غلبے کی کوشش کرے گا اور اس میں اخلاقیات کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ پاکستان جیسے چھوٹے ممالک کی بقا اس میں نہیں ہے کہ ایک چھتری سے نکل کر دوسری کے نیچے چلے جائیں۔ ان کی سلامتی کا راز یہ ہے کہ دنیا میں کسی ایک قوت کو فیصلہ کن غلبہ حاصل نہ ہو۔ ایک ملٹی پولر دنیا ہی ہمارے مفاد میں ہے اور ہمیں اس کے لیے کوشش کر نی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون بھی یہی ہے کہ وہ ایک قوت سے دوسری کو تبدیل کرتا ہے، ورنہ ایک کی خود سری کسی عبادت گاہ کو باقی رہنے دے‘ نہ کسی گھر کو۔