کیا میری کوئی تہذیبی شناخت ہے؟اگر ہے تو کیامجھے اس کی حفاظت اور بقا کی فکرنہیں ہو نی چاہیے؟
جی ہاں، میری ایک تہذیب ہے۔ یہ چند اقدار کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک طرزِ معاشرت ہے، یہ اظہارِ غم کے اپنے اسالیب رکھتی ہے اور اظہارِمسرت کے بھی۔ میری تہذیب نے اسی سرزمین پہ جنم لیا ہے لیکن ہر تہذیب کی طرح اس میں ارتقا ہے۔ مذہب، میری تہذیب کے اجزائے ترکیبی میں بھی شامل ہے ۔ یہ میرے ساتھ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہوا۔ہر خطے میں رہنے والوں کا مذہب اُن کی تہذیب میں شامل ہو تا ہے۔ میرے آبائو اجداد نے جب اسلام کو اپنا مذہب بنا لیا تویہ فطری تھا کہ وہ میری تہذیبی شناخت پر اثر انداز ہو۔اسلام نے عرب میں جنم لیا لیکن اس نے عرب کی تہذیب پر اصرار نہیں کیا۔یہ جہاں گیا، اس نے مقامی طرزِ معاشرت کو مسترد نہیں کیا۔اس کا معاملہ تو چند اقدار کے ساتھ تھا۔ایک طبقے نے چاہا کہ وہ عرب معاشرت کو بھی اسلام کے نام پر یہاں رائج کردے۔ عامۃالناس نے اسے قبول نہیں کیااور یہ فطری تھا۔اسلام نے دنیا میں ہر جگہ، خود کو ممکن حد تک مقامی تہذیب سے ہم آہنگ کیا۔ایک آ فاقی مذہب کو ایسا ہی ہو نا چاہیے تھا۔ تعددِ ازدواج، مثال کے طور پر اسلام کی 'ایجاد‘ نہیں۔ یہ عرب میں پہلے سے رائج معاشرت کا حصہ تھا۔اسلام نے اسے اپنے نظامِ اقدار سے مطابقت دے دی۔اسلام اور ہر مقامی تہذیب کا باہمی تعلق یہی ہے۔
حیا،میری تہذیب کی ایک بنیادی قدر ہے۔ میرے لیے یہ کوئی موضوعی (Subjective) معاملہ نہیں ہے۔کراچی سے خیبر اورپوٹھوہارسے بلوچستان تک، اس کا ایک ہی مفہوم ہے۔ میری تہذیب میں حیا صرف دل ہی میں نہیں ہوتی، نگاہ،لباس اور رہن سہن میں بھی ہوتی ہے۔ حیامیری تحریر وتقریر کا حصہ ہے۔ یہ مرد میں ہوتی ہے اور عورت میں بھی۔ حیا چو نکہ انسانی فطرت میں ہے، اس لیے یہ میری مقامی قدروں میں شامل ہے۔اسلا م بھی دینِ فطرت ہے، اُس نے اس قدر کو اپنے نظام ِاقدار میں شامل کیا اور اسے وسعت بھی دے دی۔میرے رسولﷺ نے فرمایا:''اللہ کو سفید بالوں سے حیا آتی ہے‘‘۔مقامی اور مذہبی تصورات کی آ میزش سے حیا کے جس تصور نے جنم لیا،آج وہ میری تہذیب کا حصہ ہے۔
حفظِ مراتب بھی میری تہذیبی قدر ہے۔ میں بڑوں کا احترام کرتا ہوں ، میں چھوٹوں سے پیار کرتا ہوں۔یہ تصور صرف یہاں تک محدود نہیں۔ میری معاشرت کی بنیادخاندان ہے ،اس سے رشتے وجود میں آتے ہیں۔ باپ، ماں، اولاد،خالہ، چچا، رشتوں کا ایک خوب صورت حصار ہے۔ میں اس حصار میں جنم لیتا اور اسی میں دنیا سے رخصت ہو جا تا ہوں۔ والدین، میری زندگی کے اہم ترین فیصلوںکا حصہ ہیں۔ مجھے کیا کھانا ہے، مجھے کیا پڑھنا ہے، میرا نکاح کس سے ہو نا ہے،میرے بچوں کی تربیت کیسے ہونی ہے، میرے والدین، ان سوالات کے جواب تلاش کرنے میں،گود سے گورتک، میرے ساتھ شریک ہیں۔اس رشتے کا کوئی تعلق عمر سے نہیں ہے۔ والدین اگر بوڑھے ہو جائیں تو میں ان کے بارے میں مزید محتاط ہو جا تا ہوں۔میری آوازباپ کی آواز سے بلند ہو نے لگے تومجھے بد تہذیب کہا جا تا ہے۔ میں زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں والدین کی رائے کو نظر انداز کروں تو میرا سماج مجھے قبول نہیں کرتا ، میں اس کے لیے اجنبی ہو جاتاہوں۔اس کا تعلق مذہب سے کم اورمقامی تہذیبی اقدار سے زیادہ ہے۔
آج تفریح کے نام پر میرا میڈیا،ان اقدار کے درپے ہے۔ وہ ایسے ڈرامے دکھاتا ہے جس میں میرے تصورِ حیا کی نفی کی جا تی ہے۔ وہ میرے بچوںکوبتاتاہے کہ حیا تو صرف آنکھوں میں ہوتی ہے، اس کا لباس سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ اُن مو ضوعات کو چھیڑتا ہے جو میرے تصورِ حیا کے تحت سرِ عام زیرِ بحث نہیں لائے جاسکتے۔ وہ مو ضوعات مقامی نہیں ہیں۔ میری تہذیب میں یہ تصورنہیں کیا جا سکتا کہ ایک شادی شدہ خاتون، اپنے خاوندکے علاوہ کسی سے بے تکلف ہو ۔ یا یہ کہ نکاح کے بغیر کوئی خاتون ایک بچے کی ماں بن جائے۔ ٹی وی ڈرامے اس بے تکلفی کو اپنا موضوع بنا تے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ جیسے یہ ایک عام سی بات ہے ، جیسے یہ ہمارا روز مرہ ہے۔گھر کے افراد گفتگو میں جو تصورات زیرِ بحث لاتے اورگفتگو کے لیے جن الفاظ کا انتخاب کرتے ہیں،یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں ان کا کبھی رواج نہیں تھا۔ میرے لیے اب مشکل ہو رہا ہے کہ میں اپنے بچوں اور اہلِ خانہ کے ساتھ یہ ڈرامے دیکھ سکوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو اپنی تہذیب سے وابستہ رکھوں۔ میرا تفریحی میڈیامیری اس خواہش میںمزاحم ہے۔
میڈیا کے ڈرامے، مارننگ شوز یاسماجی وفلمی گفتگو کے پروگرام بھی میری تہذیب کے درپے ہیں۔ وہ ایک مہم کے تحت میرے بچوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ تم اپنے فیصلوں میں خود مختار ہو۔ والدین کا کوئی حق نہیں کہ تمہارے ذاتی معاملات میں کوئی رائے دیں۔ جو باپ جوان اولاد کو نصیحت کرتا ہے، وہ اس تفریحی میڈیا کی نظر میں ولن ہے۔ والدین کے سامنے نہ صرف اونچی آواز میں گفتگو کی جا سکتی ہے، بلکہ ان کی سرِ عام مذمت بھی کی جا سکتی ہے۔ میڈیاحفظِ مراتب کی قدرپر یقین نہیں رکھتا۔اشفاق احمد، منو بھائی، عطاء الحق قاسمی یا ناہید سلطانہ اختر کے ڈراموںمیں جن تہذیبی اقدار کا اظہار ہو تاتھا، آج کا میڈیا انہیں مسترد کرتا ہے۔ میں سماجی ارتقا پر یقین رکھتا ہوں ؛ تاہم میرا خیال ہے کہ یہ ارتقا،اقدار پرنہیں، ان کے مظاہر پر اثر اندازہوتاہے۔ مجھے عالمگیریت کے اثرات کا بھی علم ہے لیکن یہ میری ذمہ داری ہے کہ میںعالمی تہذیبی بہاؤ کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کروں جو مقامی تہذیبی قدروں کو بہا لینا چاہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا میڈیا،اس جنگ میں میرے ساتھ کھڑا ہو۔ وہ تہذیبی اقدار کے دفاع میں میرا دست و بازو بنے۔
میرا یہ بنیادی حق ہے کہ میں اپنی تہذیبی شناخت پر اصرار کروں۔اپنے میڈیا سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ اس معرکے میں میری صف میں کھڑا ہو۔ دنیامیںاکثرایسا ہی ہو تا ہے کہ میڈیا مقامی تہذیب کے ساتھ ہو تا ہے۔ مغربی تہذیب، مثال کے طور پر حفظِ مراتب پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ جس نظامِ اقدار کو مانتی ہے، اس میںفرد کی مکمل آزادی بنیادی قدر ہے۔ مغرب کا میڈیا اس قدر کا دفاع کرتا ہے۔ مجھے شکایت ہے کہ میرے میڈیا نے مجھے تنہا چھوڑ دیا ہے۔ یہی نہیں،وہ میری تہذیبی بر بادی میں حصہ دار بن گیا ہے۔ میں اس پر احتجاج کر تاہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میرا بنیادی انسانی حق پا مال ہو رہا ہے۔ مجھے میڈیاکی مدد چاہیے۔نیوز میڈیانے آزادی رائے کے لیے ایک مثبت کردار ادا کیا ہے، جس کے لیے،میں اس کا شکرگزار ہوں۔ میری شکایت تفریحی میڈیا سے ہے۔تفریح یقیناً میری ضرورت ہے۔ڈرامہ، موسیقی،دیگر فنونِ لطیفہ تہذیب کا ناگزیر حصہ ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ تمام فنو ن کو میری تہذیبی اقدار سے ہم آہنگ ہو نا چاہیے۔اسی سے میری تہذیب زندہ رہ سکتی ہے۔ میں اگر اس کی بقا کے لیے میڈیا سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ میری مدد کرے تو کیا میں غلط کہتا ہوں؟
میری خیال ہے کہ اس پر سماج میں گفتگو ہو نی چاہیے کہ ہم اپنی تہذیبی شناخت کو باقی رکھنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔اس 'ہم‘ میں یقیناً ہمارا میڈیا بھی شامل ہے۔ سچ یہ ہے کہ 'ہم‘ اسی وقت زندہ ہیں جب ہماری تہذیب زندہ ہے ، ورنہ مشتِ خاک ہیں اور ہوا کے ساتھ ہیں ، پانی ہیں جس کا کوئی وجود نہیں ، جس برتن میں ڈالو وہی اس کی صورت !