جمہوریت دو مختلف خبریں لائی ہے۔ افغانستان میںپرامن انتخابات اوراُن میں عوام کی بھرپورشرکت کی خبر،سب کے لیے باعثِ اطمینان ہے۔دوسری طرف بھارت سے آنے والی اطلاع،تشویش اور اندیشوں کی دھول میں اٹی ہوئی ہے۔ یہ بی جے پی کے راہنما نریندر مودی کی عوامی پزیرائی ہے، جس کی خبر اس وقت گردش میں ہے۔ بھارت میں ایک طویل انتخابی عمل کا ابھی آ غاز ہوا ہے لیکن نوشتۂ دیوار یہی ہے۔خطے میں آنے والی والی ان تبدیلیوں کا ہم پر کیا اثر ہوگا؟یہ سوال سنجیدہ توجہ چاہتا ہے، بالخصوص ان لو گوں کے لیے جو اس وقت بر سرِ اقتدار ہیں۔
پاکستان افغانستان اوربھارت کی سیاست پر دو مختلف طریقوں سے اثر انداز ہوتا ہے۔ ہمارے برسر ِ اقتدار طبقے کی یہ کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں زمام کارپاکستان دوست قوتوں کے ہاتھ میں رہے۔جب فیصلہ بندوق سے ہو تا تھا تو ہم عسکری قوتوں میں اپنے حامی تلاش کرتے تھے۔سوویت یونین کے خلاف برسرِ پیکارمجاہدین سے لے کر طالبان تک،یہی ہو تا آیا ہے۔جب وہاں انتخابی عمل کا آ غاز ہوا تو ہم صدارتی امیدواروں پر تو جہ دینے لگے۔ یوں انتخابی مہم میں پاکستان کے خلاف نعرہ بازی ہوئی اور مداخلت کا الزام بھی لگا۔اس بار پاکستان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔اپنا وزن واضح طورپر کسی ایک پلڑے میں نہیں ڈالا۔اس لیے انتخابی مہم میں پاکستان زیرِ بحث نہیں آیا۔عبداللہ عبداللہ پاکستان کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے لیکن اس دفعہ انہوں نے پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔اب یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ جو کوئی بر سرِا قتدار آئے گا، پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کم از کم برے نہیں ہوں گے۔
بھارتی انتخابات میں پاکستان زیرِ بحث ہے۔بی جے پی کا منشور جوبہت تاخیر کے ساتھ سامنے آیا،اس میں پاکستان کو دہشت گردی کے ایک مرکز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔کشمیرکے حوالے سے بھارتی آئین تبدیل کرنے کی بات ہوئی ہے۔اُسے خصوصی سٹیٹس کے بجائے،بھارت کاباضابطہ حصہ بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔میرا تاثر ہے کہ یہ پاکستان میں اُن لوگوں کی سرگرمیوں کا ردِ عمل ہے جو مقبوضہ کشمیر میںعسکری کامیابیوں کا کریڈٹ لیتے ہیں۔جوپاکستان میں بھارت دشمنی کے جذبات کو سرد نہیں ہونے دیتے۔ممبئی کے دھماکوں کو بھی بھارت میں اسی مہم کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ،یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ بھارت میںبی جے پی کی سیاست ماضی کی ا سیر ہے جو مسلم دشمنی پر مبنی ہے۔وہ اعلانیہ بھارت کے مسلمانوں کا تعلق پاکستان سے جوڑتے ہیں۔جب پاکستان میں بھارت دشمنی کے جذبات ابھارے جاتے ہیں تو یہ رویہ بی جے پی کی عوامی پزیرائی کے لیے جواز بن جا تاہے۔یوں پاکستان ایک دوسری طرح سے بھارت کے انتخابات پر اثر انداز ہو ر ہاہے۔بی جے پی چونکہ داخلی سیاست کے حوالے سے انتہا پسند ہے،اس لیے یہ سوال خود بھارت میں تشویش کا باعث ہے کہ ایک ایٹمی ریاست کے معاملات اگر نریندر مودی جیسے انتہا پسندوں کے ہاتھ آگئے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے پاکستان کے اقتدار پر تحریکِ طالبان کا قبضہ ہو جائے۔ ممتاز بھارتی تجزیہ نگار جاوید نقوی نے سوال اٹھا یا ہے کہ پاکستان کے طالبان پر تو تشویش کا اظہار ہو تا ہے لیکن 'بھارتی طالبان ‘ پر کیوں توجہ نہیں جا رہی جو خطے میں ایٹمی آگ بھڑکا سکتے ہیں۔ان کا اشارہ مودی اور بی جے پی کی طرف ہے۔وہی مودی جو انتہا پسند ہندو تحریک آر ایس ایس کے رکن ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گاندھی کو پاکستان کے بارے میں کلمۂ خیر کہنے پر قتل کر دیا تھا۔
یہ بالکل واضح ہے کہ پاکستان اور بھارت میں انتہاپسندانہ رجحانات، دونوں طرف تشدد اورانتہا پسندی کے فروغ کا باعث ہیں۔پاکستان میںبھارت دشمنی کے تحریکیں بھارت میں نریندر مودی جیسے لو گوں کی سیاسی پزیرائی کا سبب بن رہی ہیں۔بایں ہمہ مودی جیسے لوگ، پاکستان میں بھارت دشمنی کے جذبات کو تقویت پہنچا رہے ہیں۔اس میں شبہ نہیں کہ کانگرس نے بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے کاکوئی موقع گنوایا نہیں۔ جب مشرقی پاکستان میں بھارت کی فوج اتاری گئی تو بھارت میں کانگرس ہی کی حکومت تھی۔تاہم بھارت کی داخلی سیاست کے حوالے سے دیکھیے تو جس مسلم دشمنی کی توقع آر ایس ایس کے لوگوں سے ہو سکتی ہے، وہ کانگرس سے نہیں ہو تی۔بی جے پی کا معاملہ اس طرح دو آ تشہ ہو جا تا ہے۔بھارتی مسلمانوں کے مفادات کو پیش نظر رکھنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔تقسیمِ ہندکے فوائد ہمارے حصے میں آئے لیکن اس کا کرب زیادہ تر ان کی زندگی کا حصہ بناجو بھارت کے شہری بنے۔آج جتنے مسلمان پاکستان میں بستے ہیں، کم و بیش اتنے ہی بھارت میں۔اگر ہمارے کسی اقدام کی وجہ سے بھارت کی سیاست میں مودی جیسے انتہا پسندوں کو پذیرائی ملتی ہے جو مسلم دشمنی کے جذبات رکھتے ہیں تویہ اپنی اخلاقی ذمہ داری سے صرفِ نظر ہو گا۔
اس معاملے کو دیکھنے کا ایک اور زاویہ بھی ہے۔اگر انتہا پسند گروہوں کو جمہوری عمل کا حصہ بننے دیا جائے تو ان کے رویے کی شدت میں کمی آ جا تی ہے۔انسانی ضمیر انتہاپسندی کو پسند نہیں کرتا۔کسی سماج میں انتہاپسندی ترقی کا باعث نہیں بن سکتی۔انسانی فطرت اس سے ابا کرتی اور ردِ عمل کا اظہار کرتی ہے۔مودی جیسے لوگ اگر بھارتی ریاست کے معاملات کو اس زاویہ نظر سے چلانے کی کوشش کر یں گے تو بھارتی سماج ان کو مسترد کر دے گا۔یہی نہیں، اس وقت اگر علیحدگی کے رجحانات کشمیر یا چند دوسرے علاقوں تک محدود ہیں تو یہ پھیل جائیں گے۔اگر کروڑوں بھارتی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا تو بھارت کی جغرافی خود مختاری خطرے میں پڑ جا ئے گی۔ پاکستان کے ظہورکا ایک بڑا سبب ہندو انتہا پسندی تھا۔ اگر بی جے پی اس رویے کو دوہرائے گی تو ایک نئے پاکستان کے قیام کی بنیاد رکھ دے گی۔اس موقف کے حق میں واجپائی صاحب کی مثال بھی پیش کی جا سکتی ہے جنہوں نے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے لیے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھا یا تھا۔
افغانستان میں انتخابی عمل کیا کسی جمہوری کلچر کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے؟اس باب میں میرے خدشات ہیں۔ صدیوں پر پھیلی قبائلی روایات شاید جمہوریت کو بطور کلچرپنپنے کا موقع نہ دیں۔تاہم میرا تاثر ہے کہ جنوبی ایشیا میں جمہوریت کا فروغ بحیثیت مجموعی ایک مثبت پیش رفت ہے۔اگر معاملات جمہوری قوتوںکے ہاتھ میں آگئے تواس سے خطے میں امن ا وراستحکام آئے گا۔اگر افغانستان میں انتقالِ اقتدار ہی کے لیے انتخابات پر اتفاق ہو جائے تویہ بھی کم نہیں۔اسی طرح مودی صاحب کو اگر حکومت کرنی ہے تو انہیں انتہا پسندی سے جان چھڑانی ہوگی۔ ہمیں بھی سوچنا ہوگا کہ پاکستان میں اگر ہم کسی دوسرے کے خلاف انتہا پسندی کو فروغ دیں گے تو دائرے کے اس سفر میں ہم، خود بھی اس انتہا پسندی کا ہدف بن سکتے ہیں۔ افغانستان میں عدم مداخلت بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔اگر اس کا نتیجہ‘ سٹریٹجک ڈیپتھ‘ کے تصور سے نجات کی صورت میں سامنے آتا ہے تو یقیناً یہ ایک خوش گوار تبدیلی ہو گی۔افغان طالبان اگر جمہوری عمل کا حصہ بن سکیں تو یہ ان کے لیے بہتر ہے اور افغانستان کے لیے بھی۔آخر وہاں مرنے والے افغانستان کے شہری ہیں، ان کا تعلق جس گروہ سے بھی ہو۔تمام جمع تفریق کے بعد ،بہر حال یہ کہا جا سکتاہے کہ خطے میں آنے والی جمہوری تبدیلیوں سے انشاء اللہ حالات امن کی طرف بڑھیں گے۔