تبصرہ آمیز خبر ہے: ''جمہوریت کے لیے عمران، نواز اور زرداری یک جا ہو گئے‘‘۔ تو کیا جمہوریت کو، خاکم بدہن، کوئی خطرہ لاحق ہو گیا ہے؟
عجیب مملکت ہے یہ۔ یہاں ہر وقت کوئی نہ کوئی خطرات میں گھرا رہتا ہے۔ کبھی اسلام، کبھی ریاست اور کبھی جمہوریت۔ ماضی کی داستان تو یہ ہے کہ ہر کسی نے اپنے دفاع کے لیے ڈھال ہاتھ میں لے رکھی ہے۔ اسلام کو کیسے خطرہ ہو سکتا ہے، اگر اﷲ نے اس کے بنیادی ماخذ کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ اﷲ کے آخری رسولﷺ کی ایک ایک ادا کی روایت، جرح و تعدیل کے پانیوں سے دھل کر محفوظ و مامون ہو چکی۔ ایسے دین کو خطرہ کیسے ہو سکتا ہے؟ معاملہ وہی ہے جو اقبال نے بیان کیا ہے۔ یہ اسلام ہے جس نے ہر مشکل وقت میں مسلمانوں کی دست گیری کی۔ مسلمانوں نے کبھی اسلام کا ہاتھ نہیں تھاما (روایت بالمعانی)۔ آپ کو خطرہ ہو تو اسلام کو ڈھال بنا لیتے ہیں، کاش کبھی اسلام کی ڈھال بنے ہوتے۔ تو کیا جمہوریت بھی ان دنوں ہمارے ہاتھوں میں ایک ڈھال ہے؟
جنرل راحیل شریف کو پاک فوج کی قیادت سنبھالے زیادہ دن نہیں ہوئے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ وہ وزیر اعظم کا اپنا انتخاب ہیں۔ گویا تعمیر میں تو خرابی کی کوئی صورت مضمر نہیں۔ اس کے باوصف اگر بے اطمینانی ہے تو اس کے اسباب انسانی روّیوں میں تلاش کرنے چاہییں۔ جناب نواز شریف، ترکی کی طرف بہت دیکھتے ہیں۔ ترکی کا ایک تجربہ وہ بھی ہے جس کا تعلق سول حکومت اور فوج کے تعلقات سے ہے۔ ضرورت ہے کہ اس سے بھی رہنمائی لی جائے۔ ترکی کا سبق یہ ہے کہ اصلاح کے لیے تدریج کا طریقہ ہی مناسب ہے۔ انسانی تعلق کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ ماضی کی تلخیوں کا سایہ حال پر نہیں پڑنا چاہیے۔ حالات کو سنوارنے کی یہی ایک صورت ہے جس کی تائید انسانی نفسیات کرتی ہے اور تمدن بھی۔ اندر کی بات تو میں نہیں جانتا؛ تاہم اپنے حواس پر بھروسہ کرتا ہوں۔ نزاع کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔ ایک جنرل مشرف کا مقدمہ اور اس ضمن میں وزرا کے تلخ بیانات، دوسرا طالبان کے ساتھ معاملات۔ دونوں باتوں کو فوج کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھنا چاہیے۔ جنرل جہانگیر کرامت نے ایک بار اس جانب توجہ دلائی تھی۔ اسلام آباد میں، میں نے ان کا ایک لیکچر سنا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے اداراتی مفاد (corporate interests) ہوتے ہیں، وہ بہرصورت مقدم رہتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں فوج بطور ادارہ متحرک ہوتی ہے۔ ایک منظم اکائی میں یہی ہوتا ہے۔ غیر عسکری دائرے میں دیکھیے تو کمیونسٹ پارٹی اور جماعت اسلامی اس کی مثالیں ہیں۔ جماعت اسلامی اپنے امیر کو کبھی رسوا نہیں کرتی، سابق ہو یا موجودہ۔ کمیونسٹ پارٹی میں بھی یہی ہوتا ہے۔ فرد اجتماعیت کا حصہ ہوتا ہے۔ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔
اگر یہ بات پیش نظر رہے تو جنرل مشرف صاحب کے معاملے سے نمٹنے کا ایک بہتر طریقہ موجود ہے۔ مقدمہ عدالت میں ہے اور عدالت ہی فیصلہ کرے گی۔ حکومت اس سے لاتعلق رہے، کم از کم سیاسی بیانات کی حد تک۔ اس کو مشرف صاحب کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں۔ مرد کا بچہ یا کچھ اور۔ یہ بیان ایک عسکری ذہن کے لیے تکلیف دہ ہے اور ظاہر ہے کہ ان کے کامریڈزکے لیے بھی۔ وزیر دفاع کی زیرِ بحث تقریر ماضی کا ایک ورق ہے لیکن ان کے الفاظ اور لہجہ زمان و مکان سے ماورا ہیں۔ آج جب وہ اس منصب پر فائز ہیں تو ان کی شعوری کوشش ہونی چاہیے کہ اپنے خیالات کو وسعت نہ دیں۔ فوج کی نئی قیادت کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ یہ تلخی جنرل مشرف کی عطا ہے، ورنہ وہ آج کی فوج کے سر پرست ہیں اور اس کے مفادات کے نگہبان۔
بے نظیر بھٹو صاحبہ نے اس راز کو جان لیا تھا۔ انہوں نے جنرل ضیاالحق کے نائب اور پھر ان کے منصب پر فائز ہونے والے کے سینے پر ستارۂ جمہوریت سجا دیا تھا۔ یہ اس بات کا علامتی اظہار تھا کہ ماضی کی تلخیاں حال پر اثر انداز نہیں ہوں گی۔ موجودہ سیاسی قیادت کو بھی چاہیے تھا کہ وہ یہ پیغام زبانِ حال سے نئی فوجی قیادت تک پہنچاتی۔ یہ کافی نہیں تھا کہ فوج کی قیادت پر فائز شخصیت وزیر اعظم کا اپنا انتخاب ہے۔ سبب وہی ہے جو جہانگیر اشرف نے بیان کیا۔ فوج ادارہ ہے، منظم ادارہ۔ یہاں قائد اُس طرح فیصلہ کن نہیں ہوتا، جیسا مسلم لیگ کا صدر، پیپلز پارٹی یا تحریکِ انصاف کا چیئرمین۔
فوج کی قیادت سے بھی یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اہلِ سیاست کے لہجے میں موجود تلخی کو درست سیاق و سباق میں دیکھے۔ یہ قیادت یقیناً جانتی ہو گی کہ مشرف کے عہد میں پرویز رشید پر کیا بیتی؟ انہیں یقیناً معلوم ہو گا کہ سعد رفیق کے ساتھ کیا ہوا؟ اپنے ملک کی فوج جب آپ کی عزتِ نفس پر پاؤں رکھتی ہے تو آدمی اندر سے مر جاتا ہے یا باغی ہو جاتا ہے۔ ''ہاں میں باغی ہوں‘‘ جیسی کتابیں تب ہی آپ کے لٹریچر کا حصہ بنتی ہیں۔ جاوید ہاشمی تو خیر اب اس صف میں نہیں رہے۔ فوجی قیادت کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ادارے کو مشرف کے شخصی معاملات سے الگ ثابت کرے۔ وہ بھی زبانِ حال سے حکومت کو یہ پیغام دے کہ آج کی فوج اس پیشہ ورانہ روایت کی امین ہے جس میں حلف کی پاس داری کی جاتی ہے اور ملک کے دفاع کے لیے جان دینے کا عزم کیا جاتا ہے۔ انہیں مالِ غنیمت سے کوئی دلچسپی ہے نہ کشور کشائی سے۔ '' شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن‘‘۔ اگر انہیں کسی فرد کے رویے کی شکایت ہے تو اسے خوش اسلوبی سے قیادت تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ میڈیا اس کے لیے مناسب فورم نہیں۔
آج وزیر اعظم کاکول جا رہے ہیں۔ وہ فوج کی نئی نسل سے مخاطب ہوں گے اور فوج کی جہاں دیدہ قیادت وہاں موجود ہو گی۔ وہ زبان حال اور زبان قال سے خیرسگالی کا پیغام دے سکتے ہیں۔ فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور وزیر اعظم اس کے سربراہ۔ ان کا منصب ایک سرپرست کا ہے۔ انہیں اس مقام سے مخاطب ہونا چاہیے۔ میرا مشورہ یہی ہے کہ اگر کہیں کوئی تلخی ہے تو اس کا فوری ازالہ ہونا چاہیے۔ مناسب یہی ہے کہ اس معاملے کو وزیر اعظم اپنے ہاتھ میں لیں اور اس ضمن میں وہ جنرل راحیل صاحب ہی سے بات کریں۔ پنجابی محاورے کے مطابق بکھرے ہوئے بیروں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی تیر تو نہیں جو کمان سے نکل گیا ہے، بیر ہی تو ہیں جو بکھر گئے ہیں۔ جمہوریت پر کوئی ایسی آفت نہیں آ پڑی کہ اس کی حفاظت کے لیے سب جمع ہو جائیں۔
جناب آصف زرداری کی وزیر اعظم سے ملاقات بہت خوش آئند ہے۔ اہل سیاست میں اختلاف ہونا چاہیے‘ دشمنی نہیں۔ ایسی ملاقاتیں نیک شگون ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ملاقات کے لیے جو وقت چنا گیا وہ مناسب نہیں تھا۔ حکومت کو کسی طور یہ تاثر نہیں دینا چاہیے تھا کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہے جس کے لیے اسے سیاسی جماعتوں کی تائید چاہیے۔ ابھی پاکستان کا سیاسی کلچر اتنا پختہ (mature)نہیں ہوا کہ وہ اخلاص کے ساتھ ایک دوسرے کی مدد کریں۔ یوں بھی بظاہر اس کی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی ہے کہ جمہوریت کے لیے اہل سیاست یک جا ہو جائیں۔ اس وقت وزیر اعظم اور سپہ سالار کی یک جائی زیادہ ضروری ہے۔ وقت کا تقاضا یہ نہیں کہ ایک دوسرے کو اپنی طاقت دکھائی جائے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ ایک دوسرے کی طاقت بنا جائے۔