علامہ طاہر القادری سڑک پر ہیں،فوج کے حق میں۔عمران خان بھی سڑکوں پہ نکلنے والے ہیں، انتخابی دھاندلی کے خلاف۔ کیا 'حق و باطل ‘کا ہر معرکہ اب سڑکوںپہ لڑا جا ئے گا؟
ایسا ہم پہلی دفعہ نہیں دیکھ رہے۔کبھی دفاع پاکستان ریلی،کبھی جمہوریت کی بحالی کے لیے مظاہرہ،کبھی اہلِ کشمیر کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے جلوس،کبھی پولیس کے خلاف سڑک پراحتجاج کہ مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ اگر پاکستان کا دفاع، خارجہ پالیسی کی تشکیل اور عوامی رائے کا اظہار گلیوں اور بازاروں میں ہو نا ہے تو پھر اداروں کی کیا حاجت؟پھر تو قومی اداروں پہ تالے لگ جانے چاہئیں اور ہر بات سڑک پہ بیٹھ کر طے ہونی چاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت تماشا لگارہے۔ہر کسی کو اپنے آپ سے سوال کر نا چاہیے ۔کیا کوئی سماج ، کوئی ریاست اس طرح چل سکتی ہے ؟دنیا میں کبھی ایسا ہو اہے؟
آخر ایساکیوں ہو تا ہے؟تاریخ کا ایک نیم خواندہ تصوراس کا محرک ہے۔وہ تصور جسے 'انقلاب‘ کے ایک دل فریب لبادے میں پیش کیا جاتا ہے۔یہ اشتراکیوں کی عطاہے جسے اب ان لوگوں نے بھی اپنا لیا ہے جو اشتراکیت کی موت کا پَر اپنی دستار میں سجا تے ہیں۔یہ انسان کے تہذیبی سفر سے نا آ شنائی کی دلیل ہے۔مجھے حیرت ہو تی ہے کہ جس بات کا ادراک قائداعظم نے اسی نوے سال پہلے کر لیاتھا،ہماری موجودہ قیادت کو ابھی تک نہیں ہو سکا۔قائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ نے کوئی غیر آئینی قدم کبھی نہیں اٹھایا۔متحدہ ہندوستان کے آخری دنوں میں صرف ایک بار 'راست اقدام‘ کی دھمکی دی۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ انقلاب وغیرہ کی باتیں قبل از جمہوریت کے دور کی یادگار ہیں۔بے بسی اورلا چارگی کا دور‘ جب انسان کی چیخ اس کے گلے میں گھٹ کے مر جا تی تھی۔ جب کسی کو بات کہنے کا یارا نہیں تھا۔ جب شکایت اقتدار کے ایوانوں سے دور رہتی تھی ۔جب اقتدار عوامی رائے سے بے نیاز تھا۔طاقت یا نسلی بادشاہت ہی حکومت کے لیے استحقاق سمجھے جا تے تھے۔پھرانسان نے سوچا اور ادارے بنائے۔آج جدید ریاست نے احتجاج، شکایت اورارتقا کو قبول کر لیا ہے۔اب اس بات کی کوئی حاجت نہیں رہی کہ سماج اور ریاست کے مسائل سڑکوں پہ حل کیے جائیں۔جب تک عدالت مو جود ہے،اس کی طرف رجوع کیا جانا چاہیے۔ ضروری نہیں کہ عدالت سے ہمیشہ انصاف ملے۔کسی انسانی سماج میں یہ ممکن نہیں ہوا۔ دیکھنایہ ہے کہ کیا فی جملہ شکایت کے ازالے کاکوئی نظام مو جود ہے؟ اگر ہے تو اسے قبول کرتے ہوئے، اصلاح کی کوشش جاری رہنی چاہیے۔
موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوامی رائے سے بنی ہیں۔ وفاقی حکومت پر عمومی طور پراعتمادکیا جا تا ہے۔ گیلپ کا سروے اس کی ایک دلیل ہے۔دکھائی دے رہا ہے کہ سماج اور ریاست دونوں نے بہتری کی جانب سفر کا آ غاز کر دیا ہے۔ معیشت قدرے مستحکم ہوئی ہے۔توانائی کے بحران کو مخاطب بنا یا گیا ہے۔میڈیا تواناہے اوراس بات کا کوئی امکان نہیں کہ حکومت غلطی کرے اور وہ عام آ دمی کی نظر سے اوجھل رہے۔ عدالت مو جود ہے اور اسے اندازہ ہے کہ لوگ اس سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ صاف معلوم ہو تا ہے کہ اس نظام کے اندر اصلاح کا ایک خود کار طریقہ مو جود ہے جو روبہ عمل ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کا کام یہ ہے کہ مو جودہ نظام کی اس صلاحیت کو بہتر بنائے۔اس کی پہلی شرط سیاسی اور سماجی استحکام ہے۔یہ کسی انقلاب سے نہیں‘ صبر سے آئے گا۔جب تک اظہار کے مواقع مو جود ہیں،بہتری کی امید باقی ہے۔سڑکوں پہ ہمہ وقتی احتجاج کسی قوم کا وظیفہ نہیں بن سکتا۔زندگی تین گھنٹے کی فلم نہیں، ایک مسلسل عمل ہے جس میں ارتقا ہے۔اسی کا فہم ضروری ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ اس بات کا ادراک ان معاشروں کو بھی ہونے لگا ہے جہاں کی سماجی فضا فطرتاً جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہے۔افغانستان اس کی ایک مثال ہے۔انتخابی عمل میں عوام کی شرکت بتا رہی ہے کہ مسائل کے حل کا ہر غیر جمہوری طریقہ ناکام ہو چکا۔اب عام آ دمی کو اس کا احساس ہو نے لگا ہے۔جنگ اور احتجاج دونو ں ہنگامی صورت حال کا اظہار ہیں۔اگر ایک سماج زیادہ عرصہ جنگ یا احتجاج کی کیفیت میں رہے تو وہ نفسیاتی مریض بن جا تا ہے۔ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے قوم کو نفسیاتی مریض بنا یا ہے۔ ہر وقت احتجاج، جنگ کی باتیں، جہاد کے نعرے۔امن ہی زندگی کا فطری رنگ ہے۔پر امن سماج ہی میں زندگی کے مسائل پر سنجیدہ غور وفکر کا کام آگے بڑھتا ہے۔دنیا نے اس راز کو جان لیا ہے۔مسائل کہاں نہیں ہوتے؟دوسرے ممالک نے جنگ ا ور احتجاج سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، تعمیر اورا دارہ سازی کا صبر آ زما طریقہ اپنا یا ہے۔ان کی ترقی اب دوسروں کے لیے مثال ہے۔کیا چین میں انسانی حقوق کے مسائل نہیں ہیں؟ کیا کرپشن کی خبریں اب عالمی میڈیا میں نہیں آ رہیں؟ کیا اس کے دوسروں کے ساتھ سرحدی تنازعات نہیں ہیں؟لیکن کیا ہم نے کبھی سنا کہ چین میں دفاعِ چین ریلی نکلی ہو؟ تائیوان کے الحاق کے لیے دن منا یا گیا ہویاحکومت کو گرانے کے لیے تحریکیں اٹھی ہوں۔ہم جانتے ہیں کہ چین میں سیاسی جماعتیں ہیں نہ آزاد میڈیا۔ہمیں تو یہ عیاشی بھی میسر ہے۔ اس کے بعد آخر کیا جواز ہے کہ آئے دن جلوس نکلیں اور سڑکیں بند کی جائیں؟
اشتراکیت کے مقابلے میں آخر سرمایہ دارانہ نظام کیوں کا میاب ہوا؟مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اشتراکیت کی نسبت، یہ کہیں زیادہ انسانیت سوز نظام ہے۔اس کے باوصف اگر مقابلتاً کامیاب رہا تو اس کے دواسباب تھے۔ایک یہ کہ اس نے جمہوریت کو اختیار کر لیا۔یوں انقلاب کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔ دوسرا یہ کہ اس نے غلطیوں پہ اصرار نہیں کیا اور ارتقا کو قبول کیا۔ جمہوریت سے سماج جنگ اور احتجاج کی نفسیات سے نکل کر مکالمے اور عقل کی دنیا میں داخل ہو گیا۔سرمایہ داری نے دیکھا کہ عام آ دمی کے دکھوں کا ایک حد تک مداوا نہ ہوا تو سرمایہ دار کا مفاد بھی باقی نہیں رہے گا۔یوں سرمایہ دارنے ویلفیئر کے نام پر عام آ دمی کو اس حد تک اپنے منافع میں شریک کر لیا کہ وہ 'تنگ آمد بجنگ آمد‘کی کیفیت سے نکل آیا۔اگر یہ سوال اٹھایاجائے کہ اس عہد کی سب سے اہم تبدیلی کون سی ہے تو اطمینان کے ساتھ 'جمہوریت‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔احتجاج جمہوریت نہیں، فساد ہے اگر اپنی بات کہنے کے پر امن ذرائع مو جود ہوں۔پاکستان کو فساد سے بچا نا ہماری آج کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
آج اگر قومی اداروں کی تائید کے نام پر یا انتخابی دھاندلی کے عنوان سے ملک میں احتجاج کی سیاست کو فروغ دیا گیا تویہ ہماری بد قسمتی ہو گی۔جس طرح اسلام اس ملک میں غیر متنازعہ ہے، اسی طرح فوج کے بارے میں بھی پوری قوم ایک رائے رکھتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اس سے پہلے لوگوں نے اسلام کے نام کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا۔ اب معلوم ہو تا ہے کہ دوبارہ کچھ لوگ اپنا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں۔ یہ یقیناملک کی کوئی خدمت نہیں۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کا پیشہ ورانہ اور غیر سیاسی کردار بحال کرکے،فوج اور ملک،دونوں کی خدمت کی۔آج اگر فوج کو ایک بار پھر کسی تصادم میں الجھایا گیا تو یہ ایک المیہ ہوگا۔ایک بات البتہ میں کہہ سکتا ہوں۔اس مہم جوئی کے نتیجے میں، ان لوگوں کے ہاتھ کچھ آنے والا نہیں جو اپنا مفادکسی حادثے سے وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔