خدائی کا دعویٰ زید کرے تو حرام ،بکر کرے تو حلال؟
لفظوں کی جادوگری سے نظربندی ممکن ہے، دل کا اطمینان نہیں۔ اسی لیے ارشاد ہوا: کچھ شعرجادو ہوتے ہیں۔ سکینتِ قلب کے لیے مگربرہان چاہیے۔برہان انصاف کے آغوش میں پلتی ہے۔ جادومحض دھوکہ ہے جس کی عمر مختصر ہے،دلیل مگر باقی رہنے والی ہے۔ حیاتِ جاوید اسی کے لیے ہے۔کیا اچھوتی تشبیہہ ہے جوخدا کے آخری الہام میںبیان ہوئی ہے:''اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اورہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر سیلاب نے ابھرتے جھاگ کو اٹھا لیا۔اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں لوگ زیور اور دوسری چیزیں بنانے کے لیے پگھلا یا کرتے ہیں۔اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے تعلق کو بیان کرتا ہے۔جوجھاگ ہے، وہ اڑ جایا کر تی ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے،وہ زمین میں ٹھہر جا تی ہے۔اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے‘‘۔ (رعد17:13) اقبال نے باندازِ دگر توجہ دلائی:
ہے مگر اس نقش میں رنگِ ثباتِ دوام
جس کو کیا ہو کسی مردِ خدا نے تمام
خدائی کے ایک دعوے دار، فرعون کو گمان ہوا کہ وہ جادو سے دلیل کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ ایک صاحبِ برہان کو دعوتِ مبارزت دے بیٹھا۔کہا: مقام اور وقت بھی آپ طے کریں۔ قرآنِ مجید نے عربیٔ مبین میںمنظر کھینچا اور سید مودودیؒ نے اردوئے مبین میں ترجمہ کیا : ''نہ ہم اس قرارداد سے پھریں گے، نہ تم پھریو‘‘ (طٰہٰ (58:20۔ صاحبِ برہان نے فیصلہ سنایا: تو طے ہوا جشن کا دن اور وقت کہ دن چڑھے لوگ جمع ہوں گے۔ جادوگر اپنی لاٹھیوں کے ساتھ آئے اور کہا: موسیٰ! تم پھینکتے ہو یا پہلے ہم پھینکیں؟ صاحبِ برہان نے جواب دیا '' تم ہی پھینکو‘‘۔ پھر لوگوں نے رسیوں اور لاٹھیوں کو دوڑتے دیکھا۔ بلاشبہ وہ ساکن تھیں لیکن نظریں تھیں کہ خیرہ ہو گئیں۔صاحبِ برہان کو ارشاد ہوا کہ اب وہ اپنا عصا پھینکیں۔وہی عصا ، جس سے وہ بکریوں کو ہانکتے اور درختوں کے پتے جھاڑتے تھے۔یہ تھا توعصامگر پیغمبر کے ہاتھ میں تھا۔ یہ تو دلیل تھی جس نے جادو کو نگل لیا۔یہ عصا نہیں برہانِ قاطع تھا۔اب جادوگر وںسے بہتر کون جانتا ہے کہ جادو کیا ہے اور دلیل کیا۔ بے ساختہ پکار اٹھے: مان لیا ہم نے ہارون اور موسیٰ کے رب کو!‘‘ جادو ختم ہوا، دلیل آج تک باقی ہے۔
اور پھر یہ نمرود ہے۔ خدائی کا ایک اور دعوے دار۔ اس نے بھی دلیل کے ساتھ جھگڑا کیا، طاقت کے زُعم میں ۔ ابراہیم نے کہا: میرا رب تو وہ ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت بھی۔ جواب دیا: یہ تو میرے ہاتھ میں بھی ہے۔ جسے چاہوں موت کی سزا سنادوں اور جسے چاہوں زندہ رکھوں۔کیا ادعاہے جو ہر عہد کے نمرودوں کو وراثت میں ملتاہے!وراثت بھی ایک ، انجام بھی یکساں۔ ابراہیم نے کہا: اچھا میرا رب تو وہ ہے جو آفتاب کو پورب سے طلوع کرتا ہے۔ تُو پچھم سے نکال کے دکھا ؟ قرآن مجید نے تبصرہ کیا: انکار کرنے والا مبہوت ہو گیا۔ دلیل کے سامنے طاقت اپنا مقدمہ ہار گئی۔ نمرود کی خدائی تمام ہوئی۔ ابراہیم کی دلیل زندہ ہے۔ لاریب، اسے قیامت کی صبح تک زندہ رہنا ہے کہ لاریب کتاب اس کی گواہ بن گئی۔
زندگی مناظرے کا میدان نہیں۔ انسانوں کی بستی جادونگری نہیں ہوتی۔انسانی سماج کی مہار جادوگروں اور مناظرہ بازوں کے ہاتھ میں دے دی جائے توبربادی یقینی ہے۔ مناظرے میں خیر ہوتا تو امام غزالی جیسی شخصیت اس سے رجوع نہ کرتی۔ مناظرہ بازی میں سب سے پہلا خون انصاف کا ہوتا ہے۔ یہ گمان کہ حق میرے ساتھ ساتھ چلتا ہے، سب سے بڑی نا انصافی اور یقیناًخود فریبی ہے۔ ہم حق کے نہیں، حق ہمارا امام ہے۔ ہمیں تو اسے تلاش کرنا اور پھر اس کا اتباع کرنا ہے۔ حق دلیل سے ثابت ہوتا ہے، طاقت سے نہیں۔ کیا اچھی بات کہی خرم مراد مرحوم نے: اگر طاقت سے اصلاح ہوتی تو اس عالم کا پروردگار، نبی نہیں فیلڈ مارشل مبعوث فرماتا۔ پیغمبر کا وجود دلیل ہے اور اس کا پیغام بھی دلیل۔ قرآن مجید نے اﷲ کے آخری رسول کا دعویٰ قلم بند کر دیاکہ ایسا دعویٰ پیغمبر ہی کو زیبا ہے: میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا۔ کیا تمہیں عقل نہیں ہے؟عقل نے دلیل کے سامنے سر جھکا دیا۔عظمت اس پراس طرح برسی کہ نہال کر دیا۔ عصبیت مگر کھڑی رہی۔ کھڑی تورہی مگر چند لمحے۔ ابوالحکم چند ساعتوں میں ابو جہل بن گیا۔ تاابد وہ جہالت کا استعارہ ہے۔ عقل آج بھی صبح شام گواہی دیتی ہے: اشہد ان محمدارسول اﷲ: ہم گواہ ہیں کہ محمدﷺ اﷲ کے رسول ہیں۔ یہ نغمہ اب فصلِ گل و لالہ کا پابند نہیں رہا۔انکار کرنے والے وقت کی دھول بن گئے۔
وہ کسی جماعت کا نام ہو یا کسی مضمون کا عنوان؟ انصاف کبھی خارج سے نہیںپھوٹتا۔ یہ تو داخلی احساس ہے جو سکینتِ قلب کو جنم دیتا ہے۔ اس قوم کو انصاف چاہیے، طرف داری نہیں۔اقبال نے توجہ دلائی تھی کہ قوموں کو تعمیر کے لیے پہلے اپنی خودی میں اترنا پڑتا ہے۔ خودی، فردکی ہویا اجتماع کی،نشو ونما کے لیے ایک پاکیزہ ماحول چاہتی ہے۔ ایسا ماحول جہاں تعصب اور مفاد کی نہیں، دلیل اوربے غرضی کی حکمرانی ہو۔اس وقت تو ہیجان ہے اور بدترین تقسیم۔ کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک قوم غدار اور محب ِ وطن طبقات میں منقسم ہو جائے؟فوج کی حمایت میں جلوس نکلیں کہ جیسے یہاں فوج کے مخالف بھی پائے جاتے ہیں۔ہوں گے مگر کتنے؟آٹے میں نمک؟ آخر یہاں مردہ انسانوں کے گوشت کھانے والے بھی ہیں۔ کیاان کے خلاف کوئی تحریک اٹھانے کی ضرورت ہے؟فوج کے مخالف بس اتنے ہی ہیں جتنے آدم خور۔قومیں فروعات میں وقت بر باد نہیں کرتیں۔ان کی اجتماعی خودی اتنی توانا ہوتی ہے کہ کسی انحراف سے متاثر نہیں ہوتی۔وہ انحراف کو گوارا کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اجتماعی خودی میں تحلیل ہو جائے یا اپنی موت آپ مر جائے۔یہ انحراف فکری ہو سکتا ہے اور عملی بھی۔جہاں اجتماعی بصیرت خود شناس ہوتی ہے وہاں جمہوریت فکری و سماجی ارتقاکا ذریعہ ہے۔ جہاںیہ فرسودہ اور بیمار ہے،وہاں لوگ جمہوریت اور احتجاج کو مترادف سمجھتے ہیں۔ ہر روز دھرنا، ہر روز جلوس۔کبھی ایک عنوان سے، کبھی دوسرے عنوان سے۔کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
آج ضرورت ہے کہ کوئی اس قوم کو مخاطب کرے اور بتائے کہ حقیقت خرافات میں کھو گئی ہے۔یہ حقیر انسانی خواہشیں ہیں جو اس وقت حکمران ہیں۔انسانی سماج کبھی ان کے وجود سے خالی نہیں رہا لیکن اجتماعی بصیرت ان کی حدود کا تعین کر دیتی ہے۔وہ اس کا اہتمام کر تی ہے کہ یہ خواہشات اجتماعی وجود کا رخ نہ کریں۔ کاروباری رقابت اتنی نہ بڑھے کہ ریاست کادامن جل اٹھے۔یہ بصیرت آ ج دکھائی نہیں دے رہی۔افسوس کہ جن سے یہ توقع تھی، وہ جانب دار ہیں۔ ان کے ہاتھ میں تیل ہے یا دیا سلائی۔ طلاقتِ لسانی یا انشاپردازی کا اعتراف واجب، لیکن یہ محض نظربندی ہے، اگر دلیل سے محروم ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ خدائی کا دعویٰ زید کرے تو حرام، بکر کرے تو حلال'' کوئی برہان لاؤ اگر تم سچے ہو‘‘!