احتجاج ،مسلسل احتجاج،ہیجان ،مسلسل ہیجان... کیسے ممکن ہے کہ کوئی اپنا ذہنی توازن برقرار رکھ سکے؟ نتیجہ سامنے ہے۔ ہم ایک بیمار سماج میں جی رہے ہیں۔ غصہ ،سوئے ظن،حقیر مفادات اور سطحی دانش ہم پر حکمران ہیں۔ سیاست کے ایوانوں سے اخبارات کے صفحات تک۔ ع
نہ زندگی، نہ محبت نہ معرفت، نہ نگاہ
1979ء سے ہم مسلسل حالتِ اضطراب میں ہیں۔ افغانستان میں سوویت یونین اور ایران میں انقلاب کی آمد نے ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ معاشرہ نئی نظری تقسیم سے گزرا۔ مذہب، حب الوطنی، سماج ، ہر تصور کی ایک نئی تعبیر سامنے آئی اور پھر ہر آنے والا دن اس میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ نائن الیون آپہنچا۔وہ دن اور آج کا دن، سکون لوٹ کر نہیں آیا۔ پرویز مشرف رخصت ہوئے تو خیال ہوا کہ جمہوریت کے آنے سے کچھ ٹھہراؤ آئے گا۔ عوام کی تائید کے ساتھ ادارے قائم ہو چکے اور آزادیٔ رائے پر کوئی پابندی نہیں۔ معلوم ہو ا سب خیال تھا، خام خیال۔ ابھی ہماری ترکش میں کچھ تیر باقی ہیں۔ ابھی اس قوم کوان کی ژولیدہ فکری کی قیمت چکانی ہے۔ سماج کے بدن پرکچھ تارِ پیرہن ابھی باقی ہیں۔ کیا یہ دھجیاں عَلم بنیں گی اور انقلاب آئے گا؟
جس دھجی کو گلیوں میں لیے پھرتے ہیں طفلاں
یہ میرا گریباں ہے کہ لشکر کا علم ہے
سماج مسلسل حالت اضطراب میں رہے تو نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ جنگ ،خانہ جنگی، احتجاجی تحریکیں، ایک محدود وقت ہی کے لیے گوارا کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ کسی سماج کا روزمرہ بن جائے تو ان کالازمی نتیجہ عدم استحکام ہے۔ معیشت برباد ہو تی ہے تو فرد ذہنی خلفشار میں مبتلا ہو تا ہے۔ یوں نفسیاتی امراض اسے گھیر لیتے ہیں۔ اس سماج کو مریض بنانے کے لیے طالبان کافی تھے۔ اب عمران خان اور طاہر القادری بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالیں گے؟
احتجاج ،سیاست میں کہاں سے آیا؟ اشتراکیت سے، جسے انسان متروک قرار دے چکے۔ تاہم وہاں بھی یہ ایک حکمت عملی کے تابع ہے ۔لینن نے کہا تھا: اشتراکیت کے دو ہتھیار ہیں۔ احتجاج اور پروپیگنڈا۔ مقصود ہے بورژوائی طبقے کے خلاف نفرت پیدا کرنا۔ لینن ہی نے لکھا: طبقاتی شعور پیدا نہیں ہو سکتا جب تک موجود نظام کی پوری تصویر واضح نہ ہو۔ یہ کتاب سے نہیں ہوتا۔ لمحۂ موجود میں کوئی واقعہ ہے جو انقلابی جد و جہد کی تربیت کرتا ہے۔ ماؤ نے بات کو آگے بڑھایا: انقلابی احتجاج کے لیے لازم ہے کہ وہ خون کا پیاسا ہو:ماؤ کا قول تھا: انقلاب کے لیے عسکری جد و جہد ہی واحد اسلوب ہے۔ آج طالبان جس حکمت عملی کے علم بردار ہیں،دورِ جدید میں اس کا دروازہ پہلے اشتراکیوں نے کھولا تھا۔
پھر ''احتجاج‘‘ نے عوامی مقبولیت کی سیاست (Populism) میں ظہور کیا۔ رومانویت ، عقل پسندی (Rationality) کے خلاف ایک آواز تھی ...عوامی مقبولیت کے دلدادہ سیاست دان اسے لے اڑے۔ خواب فروشی ...کبھی،روٹی ،کپڑا اور مکان، کبھی نظام مصطفی، کبھی انصاف... اب پھر خواب بک رہے ہیں اور اسلوب وہی ہے،احتجاج۔ اشتراکیت میں احتجاج ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ہم اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن اس کا منطقی صغریٰ کبریٰ ہے۔ ''عوامی سیاست‘‘ میں ایسا کچھ نہیں۔ صرف عوامی جذبات کا استحصال۔ طاہر القادری صاحب نے احتجاج کیا۔اسلام آباد چند روز محصور رہا۔ عوام کو کیا ملا؟ قاضی حسین احمد مرحوم کے دھرنوں نے سماج کو کیا دیا؟ جمہوری سماج میں ارتقا ہوتا ہے، انقلاب نہیں۔ لینن اور ماؤ کسی آئین کے دائرے میں جدوجہد نہیں کرتے تھے، اس لیے واضح تھے۔''عوامی سیاستدان‘‘ ایک طرف آئین کو مانتے ہیں اور دوسری طرف احتجاج کو...یہ ژولیدہ فکری ہے۔ طالبان آئین کا انکار کریں تو خوارج۔آپ کریں تو آئین پسندی؟
احتجاج اس وقت جائز ہو تا ہے، جب انصاف اور اظہار کے فکری راستے بند ہو جائیں۔ جیسے 2007 ء میں ہوا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ میڈیا آزاد ہے۔عدالتیں کھلی ہیں۔ پارلیمنٹ قائم ہے۔ بلا شبہ ان سب میں اصلاح کی ضرورت ہے، لیکن یہ ضرورت کب نہیں ہوتی۔ اب تو فوکویاما نے بھی مان لیا کہ'' اختتام تاریخ‘‘ ایک احمقانہ خیال ہے۔ زندگی مسلسل حرکت میں ہے۔ یوں ارتقاء کا سفر بھی تمام نہیں ہو سکتا۔ کیا امریکہ میں سب کو انصاف ملتا ہے؟ کیا اُن مسلم ریاستوں میں مکمل انصاف ہوتا ہے جہاں انقلاب آ چکے ؟ جمہوریت کے بعد اصلاح کے لیے ایک لائحہ عمل طے ہو گیا۔ معمول کی زندگی برباد کیے بغیر بھی بہتری کو تلاش کیا جا سکتا ہے۔ الزام تھا کہ صدربش کے انتخابات میں عدالت نے انصاف نہیں کیا۔کہا گیا کہ ملائشیا میںانور ابراہیم کے ساتھ عدالت نے ظلم کیا۔ لوگوں نے احتجاج کیا اور یہ ان کا حق تھا، لیکن نظام کی قیمت پر نہیں۔
ملک میں بجلی نہیں ہے، مان لیا۔ میں بھی اس کا شکار ہوتا ہوں کہ عام محلے میں محدود وسائل کے ساتھ رہتا ہوں۔ میں ، لیکن یہ جانتا ہوں کہ اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں ہے۔اس حکومت کے حوالے سے سوال ایک ہے: کیا اس نے بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ میرا جواب اثبات میں ہے۔ اخبار کے ایک قاری کے طور پر میں یہ جانتا ہوں کہ ایک سال میں نواز شریف صاحب نے سب سے زیادہ جن تقریبات میں شرکت کی، وہ بجلی کے کئی نئے منصوبوں کا افتتاح تھا یا سنگ بنیاد رکھنے کی کوئی تقریب۔ میں بغیر کسی عرق ریزی کے، کم از کم دس منصوبوں کا ذکر کر سکتا ہوں، جو اس مقصد کے لیے شروع ہوئے۔ میں غالب کا طرف دار نہیں، لیکن خود کو بطلِ حریت ثابت کرنے کے لیے کیا یہ لازم ہے کہ حکومت کے نامۂ اعمال میں وہ جرائم بھی درج کر دیے جائیں، جن کا اس نے ارتکاب نہیں کیا؟ آخر انصاف کا مطالبہ مجھ سے بھی تو ہے، جس کے ہاتھ میں قلم ہے۔
سماج کو اس وقت سکون کی ضرورت ہے۔ اس قوم کا اصل راہنما وہی ہے جو اسے حالتِ اضطراب سے نکال سکے۔ احتجاجی سیاست مسلسل اذیت ہے۔ جو اس کا حامی ہے، وہ دراصل طالبان ہی کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ طالبان کا مقدمہ کیا ہے؟اصلاح کسی جمہوری یا آئینی راستے سے نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ہتھیار اٹھانے چاہییں۔ طالبان کی خوبی یہ ہے کہ وہ اشتراکیوں کی طرح اپنے مقصد اور حکمتِ عملی، دونوں میں کسی ابہام کا شکار نہیں۔ احتجاجی سیاست والے صرف آخری درجے میں طالبان سے اختلاف کرتے ہیں کہ ہتھیار نہیں اٹھاتے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ جب موجود نظام کے خلاف نفرت اور مسلسل احتجاج سے لوگوں میں عدم اعتماد پیدا کر دیا جائے تو پھر انہیں تشدد سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تاریخ کا سبق بڑا واضح ہے۔ احتجاجی سیاست اگر ناکام ہو جائے توسعی لاحاصل اور خسارہ۔کامیاب ہو جائے توانقلابی جدوجہد میں تبدیل ہو جاتی ہے، جو لازماً عسکری ہوتی ہے، خون کی پیاسی... ماؤ کے الفاظ ایک بار پھر یاد کر لیجیے!
11مئی کو یومِ تشکر منانا چاہیے کہ قوم نے جمہوری راستے پر اعتماد کر لیا۔ اب اسے بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ اصلاحی(Reformist) حکمتِ عملی سے ہوگااور ہاں! الیکشن کمیشن ہو یا پریزائیڈنگ آفیسر، وہ اس سماج کی اخلاقی حالت کے پرتو ہیں۔ یہ عام انتخابات ہوں یا تحریکِ انصاف کے جماعتی انتخابات، ہم ایک ہی رویے کی حکمرانی دیکھتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے انتخابات تو عمران خان کی نگرانی میں ہوئے۔سیاسی نظام کو بہتر بنانا ہے تو سماج کے اخلاقی نظام کو بہتر بنانا ہو گا۔