"KNC" (space) message & send to 7575

حُبِ عاجلہ

''یہ انسان کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ اپنے عہد میں جینا چاہتا ہے یا تاریخ میں‘‘۔
برسوں پہلے جاوید احمد غامدی صاحب کے حلقۂ درس میں یہ جملہ سنا تھا۔ہر آنے والا دن اس کی معنویت کو واضح کر تا چلا گیا۔نخلِ آرزو دنوں میں ثمر بار ہو نا چاہتا ہے۔لوگ اس کے لیے قانون ِفطرت سے لڑتے ہیں۔اس لڑائی میں شکست فریقِ ثانی کے لیے مقدر ہے کہ فطرت کے قوانین غیر متبدل ہیں۔اس کے باوصف لوگ یہی کرتے ہیں۔استثنا ہو تا لیکن بس استثنا ہی۔عجلت آپ کرتے ہیں اور قیمت کسی اور کو ادا کر نا پڑتی ہے۔ آپ منصبِ قیادت پر جو فائز ہیں!قیادت سیاسی ہوتی ہے اور فکری بھی۔
اللہ نے ہنر دیا ہے اور علم بھی۔تاریخ کی خبر ہے اور عمرانیات کی بھی۔روایت کی اہمیت کو جانتے ہیں اورجدت کے تقاضوں کو بھی۔ ادب اوڑھنا بچھونا ہے اورسیاست روزمرہ۔زادِ راہ میسر ہے۔چاہیں تو طویل مسافت کا عزم کرسکتے ہیں۔یہ مسافت کیا ہے؟ قوم کو سمجھانا ہے کہ مقدر سنوارنے کے لیے ریاضت چاہیے۔ہمارا رخ تبدیل ہو چکا۔ہم ہر قدم منزل سے دور ہورہے ہیں۔ہمیں تودوسری طرف جانا تھا۔اصلاح کا راستہ اقدار سے نظام کی طرف جا تا ہے، نظام سے اقدار کی جانب نہیں۔ سماج، ریاست پر مقدم ہے۔میدانِ عمل اصلاً سماج ہے نہ کہ سیاست۔ اور یہ کہ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جمتی۔ ایک صبر آزماحکمت عملی ہماری ضرورت ہے۔پیغمبروں کی سیرت یہی کہتی ہے اور قوموں کی تاریخ بھی یہی شہادت دیتی ہے۔ریاضت اور انتظار،یہاں تک کہ قانونِ فطرت کے تحت نخل ِ آرزو ثمر بار ہو جا ئے۔
مگر یہ حبِ عاجلہ ہے جو غلبہ پالیتی ہے۔اپنے عہد میں جینے کی تمنا۔مقبولیت اور ہر دل عزیزی کی چکا چونداپنی جانب متو جہ کرتی ہے۔آسان نسخہ یہ ہے کہ محرومیوں کو عَلم بنا لیا جا ئے اور شامِ غریباں برپا کر دی جا ئے۔نفرت، ہر کسی سے نفرت۔غصہ، ہر کسی کے خلاف غصہ۔لوگ اس سے خوش ہو جاتے ہیں۔انتقام کی آگ کچھ ٹھنڈی ہو جا تی ہے۔مقبولیت آپ کے گھر کا رخ کرتی ہے۔پیسہ بھی اسی کا مقلد ہے۔مقبولیت کے نقوشِ قدم پر پاؤں دھرتا آپ کے آنگن میں آ نکلتا ہے۔آپ اپنے عہد میں جینے لگتے ہیں۔آپ کا دور تمام ہو تا ہے تو معلوم ہو تا ہے کہ قوم تو وہیں پہ کھڑی ہے۔آپ نے مقبولیت کی منازل طے کر لیں لیکن سماج نہیں بدلا۔آپ آسودہ ہوگئے مگر عوام کے دن رات وہی ہیں۔اس دوران میں صرف چہرے بدلتے رہے۔ مذہبی رہنما تبدیل ہو گئے لیکن مذہب کا سماجی کردار نہیں بدلا۔ سیاست دان بدل گئے لیکن سیاست کے خدو خال وہی ہیں۔ آپ کا عہد تما م ہوا لیکن اس کے آثار باقی ہیں۔آپ کے نقشِ قدم پرنئی نسل نے اپنے پاؤں رکھ دیے ہیں۔منزل ان کی بھی وہی ہے جو آپ کی تھی۔ایک ہی محبت: حبِ عاجلہ۔دائرے کا سفر جاری ہے۔لوگ اپنے عہد میں جی رہے ہیں، تاریخ میں جینے کا حو صلہ کسی میں نہیں ؎ 
نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی
اسے یوسف کی بوئے پیرہن کی آزمائش ہے
جوانی رومان سے عبارت ہوتی ہے۔نہ ہو تونکہت سے محروم، کاغذ کا پھول۔ برسوں پہلے،اسی رومانوی دور کی بات ہے۔ اخبار میں لکھنا شروع کیا توایک صاحبِ اسلوب اور مقبول کالم نگار نے ازراہِ شفقت توجہ دلائی:تم کس دنیا کے باسی ہو؟ ابوالکلام آزاد، ابوالاعلیٰ مودودی؟ یہ سب ماضی کی داستانیں ہیں۔متروک اندازِ نگارش۔یہ منٹو کا دور ہے۔لکھنا ہے تو اس اسلوب میں لکھو۔میں اس خلوص، محبت اور شفقت کا آج بھی معترف ہوں۔یہ تجزیہ بھی کچھ ایسا غلط نہیں ہے۔یہ اپنے عہد میں جینے کا مشورہ تھا۔ لیکن میری اپنی مجبوریاں تھیں۔ میں اپنی طبع کا اسیرتھا اور ماحول کا بھی۔دل نے ایک اور رومان پال لیا تھا۔شبلی سے غامدی تک کا سفر اسی رومان کی داستان ہے۔میں ''ٹھنڈا گوشت‘‘ پر ''غبارِ خاطر‘‘ کو کیسے قربان کرتا۔ غالب توایسے مشورے پر جھنجھلا گئے۔'گر نہیں ہیںمرے اشعار میں معنی نہ سہی‘۔بیدل کی طرز پہ ریختہ لکھنا نہیں چھوڑا۔ گفتۂ غالب، ریختہ کورشکِ فارسی بنانے کی آرزو سے دست بردار نہیں ہوا۔ اسد اللہ خان نے تاریخ میں جینے کا فیصلہ کر لیاتھا۔
اس قوم کو درپیش مسائل ایسے نہیں جو دنوں میں حل ہو سکتے۔ عوام میں نفرت کا الاؤ دہکانے سے صرف شعلے بلند ہو سکتے ہیں۔ وہ شعلے جو سب کچھ خاکستر بنا دیں۔برسوں کی منصوبہ بندی چاہیے اور صبر آمیز حکمت عملی۔جو مذہبی رجحانات ہمارے لیے جان لیواہیں،نئی نسل میں ان کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ان کی آب یاری کے لیے تعلیمی اداروں کی بہتات ہے اور کسی کو خبر نہیں۔جدید تعلیم کے نام پر علم اور اخلاق کے مقتل آباد ہیں۔انہیں دیکھ کر بتا یا جا سکتا ہے کہ کیسا علمی اور اخلاقی بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ راشد رحمن ہی کے قتل سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ سماج کن طبقات کی گرفت میں ہے۔میڈیا جیسے رجحان ساز ادارے جس کلچر اور اندازِ نظر کو فروغ دے رہے ہیں،وہ ناطق ہیں کہ اس قوم کا تہذیبی اور اخلاقی مستقبل کیا ہے؟سماجی اقدار پامال ہو چکیں اورہم اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔اس کا تدارک غصہ دلانے سے نہیں ہو گا۔1857 ء میں کچھ لوگوں نے یہی کیا۔ انگریزوں کے خلاف غصہ۔نفرت کا کاروبار۔نتیجہ کیا نکلا؟ بربادی کی منزل مزید قریب آگئی۔سرسید نے دوسرا راستہ دکھایا‘ تعمیر کا‘ جو صبر آ زما تھا۔آج وقت اپنا فیصلہ دے چکا۔یہ صرف سرسید تھے جن کی حکمت عملی کامیاب رہی۔پاکستان اسی کا ثمر ہے۔سرسید نے تاریخ میں جینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
آج ہمیں سرسید کے جانشینوں کی ضرورت ہے۔سر سید وشبلی کسی حد تک خوش قسمت تھے کہ حالی و سلیمان ندوی جیسے جانشین مل گئے۔چراغ سے چراغ جلتا رہا۔ حالی رخصت ہوئے تو اقبال نے نوحہ لکھا:
شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہلِ گلستاں
حالی بھی ہو گئے سوئے فردوس رہ نورد
مسلمانوں کے رہنما یہی تھے۔اقبال نے انہی کی طرف رجوع کا مشورہ دیا تھا۔
پوچھ اُن سے جو چمن کے ہیں دیرینہ رازدار
کیونکر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد 
یہ کام مگر حبِ عاجلہ سے نہیں ہو سکتا۔سرسید اور شبلی کی جانشینی کے لیے تاریخ میں جینے کا حو صلہ چاہیے۔سب سے تو یہ گلہ نہیں کہ ہر ساز اس نغمے کے لیے ساز گار نہیں مگر وہ جو اس کا شعور رکھتے ہیں اور زادِ راہ بھی۔ ایسے لوگوں کو جب میں اسے رو میں بہتا دیکھتا ہوں تو اداس ہو جاتا ہوں،قدرے مایوس بھی۔ایسے لوگ جانتے ہیں کہ انتقام کی نفسیات صرف ظلم کو جنم دیتی ہے۔اسے قابلِ قبول بنانے کے لیے انقلاب کا دل فریب عنوان باندھا جا تا ہے۔ جمہوریت کے بعد تو یہ تصور متروک ہو چکا۔اب صرف ارتقا باقی ہے اور یہی فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ارتقا ایک صبر آ زما اور کسی حد تک طویل سفر ہے۔سماج اسی سے بنتے ہیں۔جو یہ بات جانتے ہیں، ان سے سے گلہ ہے کہ وہ کس وادی میں جا نکلے۔ سیاست میں حبِ عاجلہ قابلِ فہم ہے مگردانش میں؟شبلی اور حالی کی مسند آخر کب تک خالی رہے گی؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں