عمران خان پر تنقیدی کالم لکھا تو حسبِ توقع ردِ عمل ہوا؛ تاہم اس بار باندازدگر۔اب دشنام پر دلیل اور رومان پر حقیقت پسندی کا غلبہ تھا۔ سیاسی کلچر اگر اس رخ پر چل نکلے تو یقیناً یہ ایک نیک شگون ہوگا۔
سیاسی رہنما سے رومانوی وابستگی،اس کے عیبوں کے لیے پردہ بن جا تی ہے۔ ا س کا کو ئی مداح یہ مان کر نہیں دیتا کہ اس کے لیڈر میںکوئی کمزوری ہو سکتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کاتعلق ارضِ خاک سے نہیں، عالمِ ملکوت سے ہے۔ چاہنے والے‘ لیڈر کے گرد عقیدت کا ایک حصار قائم کر لیتے ہیں۔انہیں یہ گوارا نہیں ہو تا کہ ان کے رہنما کو انسانی سطح پر پر کھا جا ئے۔اگر کوئی یہ جسارت کر بیٹھے تو پھر دشنام، الزام اور گالیاں اس کا پیچھا کر تی ہیں۔کوئی یہ سوچنے پر آ مادہ نہیں ہو تا کہ تنقیدکی بنیاد اصلاح کی خواہش یا حقیقت پسندانہ تجزیے پر بھی ہو سکتی ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی دانستہ اس کلچرکو فروغ دیتی ہیں۔ لیڈرکو ما فوق الفطرت بنا کر پیش کر تی ہیں۔ یوں سیاسی جماعت کا کارکن مریدکے قالب میں ڈھل جا تا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں دوسرا گروہ ان لو گوںکا ہوتا ہے جوکسی مفاد کے باعث جماعت کا حصہ ہوتے ہیں۔ جب کوئی سیاسی جماعت ان دوگروہوں پر مشتمل ہو تو پھر وہی کچھ ہو تا ہے جو ہمارے ہاں ہو ر ہا ہے۔ میراروئے سخن صرف تحریک ِ انصاف کی طرف نہیں،غالب سیاسی کلچرکی طرف ہے۔
عمران خان کے مداح ،کیا انہیں عام انسانی سطح پر پرکھنے پر آ مادہ ہیں؟اگر تمام نہیں تو چند یقیناً ایسے ہیں۔کالم کے ردِ عمل میں، اس بار میں نے دیکھا کہ لوگ دلیل دیتے اور اس بنیاد پرانہیں بہتر قرار دیتے ہیں۔ایک سوال اٹھایا گیا: اگر عمران خان نے کوئی کتاب نہیں پڑھی توکیا آپ بتا سکتے ہیں کہ نواز شریف صاحب نے آخری کتاب کب پڑھی تھی؟اس سوال کا جواب تو وہی دے سکتا ہے جسے میاں صاحب کا قرب حاصل رہا ہو۔میرا 'حسنِ ظن‘ البتہ یہ ہے کہ ان کا معاملہ عمران خان سے مختلف نہیں ہوگا۔ عمران خان کے بارے میں تو میں نے یہ بات اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر لکھی تھی۔
یہ بات بھی کہی گئی کہ اس وقت سیاست کے افق پر عمران خان سے بہترکوئی نہیں؟اہل سیاست کا تقابل کرتے ہوئے، ان کے مداحوں نے انہیں بہتر قرار دیا ۔میں اس اندازِ نظرکو بھی نیک شگون سمجھتا ہوں۔اگر سیاسی کارکن اور وابستگان،سیاسی جماعتوں کو منشور،کردار اورکارکردگی کے حوالے سے پرکھنے لگیں تو اس سے سیاسی کلچر میں مثبت ارتقا ممکن ہو تا ہے۔ یوں اہلِ سیاست کو بھی معلوم ہو تا ہے کہ ان کے گرد جو لوگ جمع ہیں، وہ ان کے مرید نہیں،سیاست کا شعور رکھنے والے لوگ ہیں۔ان کا یہ شعور متقاضی ہوا تو وہ کسی اور جانب کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔ سیاسی وابستگی ہندو مت کا نکاح نہیں، جس میں علیحدگی نہیں ہو سکتی۔ اگر اہلِ سیاست کو یہ کھٹکا لگا رہے تواصلاح کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔اسی سے موروثی سیاست کا دروازہ بھی بند ہو سکتا ہے۔
میرا احساس یہ ہے کہ اس وقت سیاسی جماعتوں میں کوئی ایسا جو ہری فرق نہیں ہے کہ کسی ایک کو دوسرے پر پورے تیَقُّن کے ساتھ ترجیح دی جاسکے۔ تین صوبوں کے بجٹ آ چکے۔ یہ تین بڑی سیاسی جماعتوں کے معاشی وژن کا اظہار ہے۔ معیشت اگرچہ میرا مو ضوع نہیں لیکن میں ان تینوں میںکوئی واضح فرق تلاش نہیں کر سکا۔ان صوبوں میں ایک سال کی حکومتی کارکردگی کا اگر موا زنہ کیا جائے توبھی شایدکوئی جوہری فرق تلاش نہ کیا جا سکے۔ اسی طرح ان تین جماعتوں کا سیاسی کلچربھی کم و بیش ایک جیسا ہے۔۔۔ وہی روایتی۔ تحریکِ انصاف میں دوسرے اہم ترین آ دمی شاہ محمود قریشی ہیں جو روایتی پیری، جاگیرداری اور اقتدارپسندی کا تنہا مظہر ہیں۔ شیریں مزاری صاحبہ کے بارے میں،کیا کوئی کہہ سکتاہے کہ ان کی تحریکِ انصاف یا عمران خان سے کوئی نظریاتی یاشعوری وابستگی ہے؟ یہ بات عمران خان بھی جانتے ہیں۔اس کے باوصف انہوں نے فوزیہ قصوری جیسی مخلص اور دیرینہ کارکن پر انہیں ترجیح دی۔ ن لیگ کا معا ملہ بھی سیاسی کلچرکے اعتبار سے کچھ ایسا مختلف نہیں۔ وہی نورتن اور خاندانی حکومت۔ آج ن لیگ نام کی کوئی جماعت کہیں موجود نہیں اور اس کی لمحۂ موجود میںکسی کو حاجت بھی نہیں۔ پیپلزپارٹی کا کیا ذکرکریں، کہ اِس وقت وہ ایک صوبے کی جماعت ہے۔
اس سیاسی پس منظر میں، عمران خان اگر تنہاتنقیدکا مو ضوع بنتے ہیں تو اس کی ایک خاص وجہ ہے۔ دوسرے سیاست دانوںکی طرح،ان کا روایتی سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ اس کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آئے۔ وہ سیاسی عمل کی تطہیرکرنا چاہتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خد وخال تبدیل ہوتے گئے۔آج وہ عام سیاست دان ہیں جو اقتدارکی کشمکش میں ایک فریق ہے، دوسرے سیاست دانوںکی طرح۔ اقتدار تک پہنچنے کے لیے وہ سب کچھ جائز سمجھنے لگے ہیں۔ایک بے وقت اور بے معنی احتجاجی سیاست کا آخرکیا جواز ہو سکتا ہے؟ پھرحالیہ واقعات کا انہوں نے جس طرح سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی،اس نے بھی ان کے امتیازکو ختم کر دیا۔اس کایا کلپ کے بعد بھی، اگرکوئی رومانوی سیاست کا عَلم اٹھا تا ہے تویہ سیاسی بصیرت کاکوئی قابلِ تعریف مظاہرہ نہیں ہوگا۔ تحریکِ انصاف کے متاثرین اگر رومان کے بجائے حقیقت پسندی کو شعارکریں تو میرا خیال ہے کہ وہ مستقبل میں کسی بڑے صدمے سے بچ سکیں گے اور تحریکِ انصاف کو بھی اس کا فائدہ ہوگا۔
یہ بات جاننے کے لیے بقراط ہونا ضروری نہیںکہ پاکستان کو آج امن اور سیاسی استحکام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ مرکزی حکومت کی بعض نااہلیاں اپنی جگہ لیکن اس کی کارکردگی ایسی بری ہرگز نہیں کہ ایک سال بعد طوفان اٹھا دیا جائے۔ یہ طاہر القادری صاحب ہوں یاعمران خان،ان کے مو جودہ سیاسی رویے کو مثبت قرار دینا بہت مشکل ہے۔اس سے عمران خان ایک احتجاج پسندسیاست دان کے طور پر سامنے آتے ہیں جوا قتدارکے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ تحریکِ انصاف کے وہ کارکن جو شیخ رشیدکا نام لینا گوارا نہیں کرتے تھے، آج اس خدمت پر مامور ہیں کہ ان کی ریل گاڑی کے سامنے سیٹی بجائیں۔انقلاب کی تمنا میں عمران خان سے رومانوی وابستگی رکھنے والوں کو اس کام پر لگا دینا،کیا اس مقدمے کی تائید نہیںکہ اقتدارکے لیے وہ ہر خواب اور خواب دیکھنے والے کو بے دردی کے ساتھ ایسے سیاستدانوں کے تصرف میں دے سکتے ہیں؟ اس اسلوبِ سیاست سے کوئی وژن نکال سکے تو میں ایسے وژنری کو داد دوںگا۔
اداروں کی مضبوطی سیاسی استحکام کی شرطِ اول ہے۔احتجاجی سیاست، مذہب کے عنوان سے ہو یا سیاست کے نام پر، اس وقت پاکستان کے لیے سخت نقصان دہ ہو گی۔ عمران خان پختون خوا میںگڈگورننس اور پارلیمنٹ میں موثرکردار سے'اینٹی تھیسس‘ اٹھا سکتے ہیں۔اس سے قوم کی نظریں ان کی طرف اٹھ سکتی ہیں اور پاکستان بھی کسی بڑے خسارے سے بچ سکتا ہے۔اگر عمران خان کے مداح رومان سے نکلنے اورحقیقت پسندانہ تجزیے پہ آمادہ ہو چکے ہیں توانہیں اس بات پر ضرورغورکر نا چاہیے۔