ابو الکلام اورابو الاعلیٰ تو خیربڑے آ دمی تھے۔علم، حسن ِخُلق اور حسنِ طبیعت کے ایسے مظاہر ارزاں نہیں ہوتے‘ چشمِ فلک ان سے کم کم ہی آسودہ ہوتی ہے۔ایک بڑا فکری سہو، لیکن اِ ن بزرگوں سے ہو گیاجو اب'بدعتِ جاریہ ‘ بن کر مسلم سماج کی نفسیات میں سرایت کر چکا۔اس کا تازہ ترین مظہر طاہر القادری صاحب ہیں، اِن بزرگوں سے جن کو صرف ' سہو‘ ہی کی نسبت ہے‘ تعلّی اور ادعا جیسے اوصاف ان کی اپنی ریاضت کا نتیجہ ہیں۔
یہ سہو کیا ہے؟یہ نتیجۂ فکر کہ ایک مذہبی شخصیت کی تکمیل اُسی وقت ہو تی ہے جب وہ میدانِ سیاست کابھی شہ سوار ہو۔ مو لا نا مو دودی کے الفاظ میں'مجددِ کامل‘۔محض علم کی دنیا کا ہو رہنا یا تطہیرِ فکرکوئی قابلِ ذکر کام نہیں اگرسیاسی انقلا ب کی جد وجہد پا بہ رکاب نہیں۔ یہ علمی ارتقا ہو یا تزکیہِ فردو جماعت، سب لا حا صل ہیں اگر اقتدار آپ کے ہاتھ میں نہیں ہے۔یوں ہر علمی کاوش اور ہر مصلحانہ کوشش اس پر منتج ہو تی ہے کہ کارکنان، سیاسی میدان میں نکل پڑیں اور زمامِ کار اپنے ہاتھ میں لے لیں۔تجربے سے ثابت ہوا کہ یہ ایک فکری غلطی تھی۔مو لا ناابوالکلام آزاد نے 'حزب اللہ‘ بنائی کہ بر ِصغیر میں حکومتِ الٰہیہ قائم ہو جائے۔الٰہی حکومت کیا قائم ہوتی کہ 'امام الِہند‘نے گاندھی کی امامت میں متحدہ قومیت کا پرچم تھام لیا۔سیدابوالا علی مودودی نے تبصرہ کیا:مو لا نا آ زاد کا انقلاب ِ حال بیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجیڈی ہے‘۔اُس وقت انہیں کیا معلوم تھا کہ وہ خود بھی ایسی ہی ایک ٹریجیڈی کا عنوان بننے والے ہیں۔لوگ آج ابوالکلام اور ابوالاعلیٰ نام کے علما سے واقف ہیں۔یہ بات ان کی یادداشت سے محو ہو چکی کہ ہماری تاریخ میں ان ناموں کے سیاست دان بھی ہو گزرے ہیں۔
طاہر القادری بھی مذہبی شخصیت سے ایک سیاست دان برآمد کرنا چاہتے ہیں۔سماج میں ان کا تعارف ایک عالمِ دین کا تھا۔انہوں نے اس تشخص کوایک علمی اور سماجی اصلاح کی تحریک میں متشکل کیا۔اب وہ اس ساری کاوش کا حاصل سیاست میں جھونک رہے ہیں کہ اس ماڈل میں تکمیلِ ذات کاآ خری مر حلہ یہی ہے۔ سابق تجربات یہی ہیں کہ اس مرحلے میں متاعِ دین باقی رہتی ہے نہ زادِ اخلاق۔قادری صاحب متمول تو بہت ہیں لیکن ان معاملات میں نہیں۔قدرت علم و اخلاق کے باب میں زیادہ سخی نہیں ہوتی‘ اس کا تمام تر انحصارعطا پر نہیں،حسنِ طلب پر ہے۔قادری صاحب کے پاس لٹانے کے لیے اگر کچھ ہے تو دنیاوی مال و اسباب یا پھر دین کی محبت میں ان کی طرف رجوع کر نے والے مخلص مگر سادہ کارکن۔ مال و اسباب تو خیر ہاتھ کا میل ہے لیکن انسان ضائع ہو جائیں تو تلافی ممکن نہیں ہو تی۔انسان یوں بھی ضائع ہوتے ہیں کہ ان کے خواب مر جائیں۔مجھے ا فسوس ہے کہ ایک بارپھریہی ہو نے جا رہا ہے۔
طاہر القادری صاحب اگر صرف علم اور دعوت کے ہو رہتے تو بھی مسائل ہوتے۔میرے نزدیک تجدید اور احیاء کے بغیر، دعوتِ دین کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ مو جود مذہبی نظامِ فکر کو مضبوط کیا جائے،جس کا بکھرناخوددین کی ضرورت ہوتی ہے۔طاہر القادری صاحب کے اکثر علمی کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ پرانا مشروب نئی بوتل میں پیش کر دیا گیا ہے۔جدت کمپیوٹر یا انٹر نیٹ کا نام نہیں۔یہ تو محض آلات ہیں، جیسے قلم دوات۔سوال یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں قلم ہے، اس کی فکر کتنی جدیدہے۔علامہ اقبال بنیان اور دھوتی پہنے ، حقہ پیتے رہتے تھے۔جدید ایجاداتِ دنیا سے زیادہ سرو کار نہیں تھا۔مگر یہ واقعہ ہے کہ ان کی نگاہوں میں وہ سحر بے حجاب تھی جو ابھی پردۂ تقدیر میں تھی۔طاہر القادری صاحب کوئی بڑا علمی کارنامہ سر انجام نہیں دے سکے۔ بسیار نویسی اگر معیار ہوتی تو غالب اردو شاعری کی تاریخ میں ایک قصۂ پارینہ ہوتے۔ اس کے باوجود ، میں قادری صاحب کے کام کی تحسین کر تا ہوں کہ اس سے لوگوں میں لکھنے پڑھنے کا رجحان مضبوط ہوا۔ محض شرحِ خواندگی میں اضافہ بھی سماج کی بہتری کی طرف ایک مثبت قدم ہے۔اگر لوگوں میں لکھنے پڑھنے کا رواج مقبول ہو جائے تو اس کا امکان پیدا ہو جا تا ہے کہ وہ معاملات کو تنقیدی بصیرت کے ساتھ دیکھنے لگیں۔اس لیے اگر قادری صاحب تعلیم ہی کو محور بنائے رکھتے تو ان کے کام کو قدر کی نظر سے دیکھا جاتا۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ وہ اقتدار کی مچلتی آرزو پر قابو نہیں پا سکے۔وہ 'شیخ الاسلام ‘ کو وزیراعظم بنا نا چاہتے ہیں۔ایسا پہلے بھی نہیں ہوا، اب بھی نہیں ہوگا۔
اس ملک میں سیاسی تبدیلی کا ایک ہی آئینی راستہ ہے... انتخابات۔ اس میں شبہ نہیں کہ انتخابی عمل بہت سی اصلاحات کا متقاضی ہے۔سماج اس کی ضرورت کومحسوس کر رہا ہے اور اس ضمن میں پیش رفت بھی ہو رہی ہے۔عمران خان نے آواز اٹھائی ہے اور وزیر اعظم نے بھی سپیکر کو خط لکھ کر اس کی تائید کر دی ہے۔اس بات کا اب امکان پیدا ہو گیا ہے کہ اس نظام میںرہتے ہوئے، اصلاح کا معاملہ آگے بڑھے۔عدلیہ ، میڈیا ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آ زاد ہیں۔اگر پارلیمنٹ میں مو جود جماعتیں کوشش کریں تو اگلے انتخابات بڑی حد تک بدعنوانی سے پاک ہو سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت تبدیلی اور اصلاح کا واحد راستہ یہی ہے۔ ماورائے آئین تبدیلی کی خواہش صرف فساد کو جنم دے سکتی ہے۔ فکری اختلاف کے باوجود،طاہر القادری صاحب کی حکمتِ عملی وہی ہے جو طالبان کی ہے۔ ان کا کہنا بھی یہی ہے کہ مو جود نظام بدعنوان اور ناقابلِ بھروسہ ہے۔اس لیے ہم ماورائے نظام تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔اگر طالبان کی کاوش کا حاصل فتنہ اور فساد ہے
تو قادری صاحب کے اس اقدام کا کوئی اورنتیجہ کیسے ہو سکتا ہے؟اس سے ملک اور سماج ایک بے نتیجہ مشق سے گزریں گے اور اس کے ساتھ طاہر القادری صاحب کی وہ سماجی اور تعلیمی خدمات بھی متاثر ہو ں گی جو بصورت دیگر افادیت سے خالی نہیں۔
انقلاب... میں بارہا اپنی اس رائے کا اظہار کر چکا کہ آج کی دنیامیں فساد کا دوسرا نام ہے۔ جمہوریت خود ایک انقلاب ہے۔ اس لیے جمہوری طریقوں ہی پر بھروسہ کر نا چاہیے۔اگر ہم نے آئین سے ماورا کوئی راستہ اختیار کیا تو اس میں کسی کے لیے کوئی خیر نہیں۔یہ بات عمران خان، طاہرا لقادری اور سب کے لیے ہی درست ہے، طاہر القادری صاحب کے لیے اضافی سبق یہ ہے کہ ایک مذہبی شخصیت کو سیاسی لبادہ پہنا نا، مذہب کی کوئی خدمت ہے نہ سیاست کی۔اب ان کو اپنے بارے میں یہ فیصلہ کر نا ہے کہ وہ شیخ الاسلام(عالم) بننا چاہتے ہیں یا وزیراعظم۔اگران کا انتخاب پہلا ہے تو اس کے لیے اقتدار کی سیاست سے گریز ضروری ہے۔اگر دوسرا ہے تو پھر وہ انتخابی معرکے میں اتریں اور قسمت آزمائی کریں۔اس وقت انہوں نے جو راستہ اختیارکیا ہے، اس میں کوئی شیخ الاسلام دکھائی دے رہا ہے اور نہ سیاست دان ۔بس ایک احتجاج پسند آ دمی نظر آتا ہے۔ملک و قوم کے لیے اس بے معنی اضطراب کا نقصان تو واضح ہے،خو د قادری صاحب کی شخصیت جن تضادات میں گھر گئی ہے،وہ ان کی ذات کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو گی۔ہر کوئی ابو الکلام یا ابوالاعلیٰ نہیں ہوتا کہ اس کوچے سے عزتِ سادات بچا لے جائے۔