پاک فوج انشاء اﷲ سرخرو ہو گی۔دلیل ہے قیادت کی یک سوئی۔ یہ جنرل راحیل شریف ہی ہیں جنہوں نے پہلی بار یہ جانا کہ خطرہ باہر سے کم ، اندر سے زیادہ ہے۔تذبذب کے ساتھ تو ایک گھر نہیں چل سکتا، ریاست کیسے چل سکتی ہے؟جنرل اطہر عباس محرمِ راز ہیں،درون ِمے خانہ۔ ان کی بات پہ یقین کیا جائے تو یہ دلیل مزید مستحکم ہو جاتی ہے۔
تجزیہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے اور حکمت عملی دوسرا۔ تجزیہ کسی حل تک پہنچاتا ہے اور پھر اس کے حصول کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔تجزیہ بے نتیجہ ہو یا پھر کسی غلط نتیجے تک پہنچا دے تو حکمت عملی کوئی مدد نہیں کر سکتی،وہ اعلیٰ انسانی بصیرت کا حاصل ہی کیوں نہ ہو۔ کارگل آپریشن کی حکمت عملی ممکن ہے کامیاب رہی ہو لیکن یہ جس تجزیے پر مبنی تھی، وہ خام تھا۔ علاقائی حالات کا ادراک نہ عالمی صورت حال کا احساس۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ اس بار ایسا نہیں ہے۔ تجزیے نے ترجیحات کا درست تعین کیا۔ حکمت عملی بھی معلوم ہوتا ہے کہ درست ہے۔ نتیجہ بھی انشاء اﷲ اچھا ہو گا۔ یہ بات ضرب عضب کی حد تک درست ہے۔تاہم اگرفساد کامکمل خاتمہ مقصود ہے تو اس کا ایک دوسرا پہلو بھی لازم ہے کہ پیش نظر رہے۔یہ سیاسی حکومت سے متعلق ہے۔
طالبان ایک نقطہ نظر کا نام ہے اور ایک طرز عمل کا بھی۔ فوجی آپریشن طرز عمل سے متعلق ہے۔ وہ ان ہاتھوں کو توڑتا ہے جنہوں نے بندوق تھام رکھی ہے۔ ان ٹھکانوں کو برباد کرتا ہے جہاں وہ لوگ چھپے ہیں جو پاکستانی عوام پر عذاب بن کر ٹوٹتے ہیں۔ یہ آپریشن اس سے بحث نہیں کرتا کہ ان ہاتھوں میں بندوق کیسے آئی ہے؟وہ کیا سوچ ہے جو ایک ہنستے کھیلتے نوجوان کو آباد شہروں سے اٹھاتی اور ویرانوں میں جا آباد کرتی ہے۔ نوجوان،جو غلبۂ اسلام کا احساس تو رکھتا ہے لیکن اس احساس سے عاری بنا دیا جاتا ہے کہ جس اسلام کے غلبے کے لیے وہ انسانوں کو بے دریغ قتل کرتا ہے، ان کی جان کی حرمت اسلام کی نظر میں بیت اﷲ سے زیادہ ہے۔ وہ اسلام کے نام پر فتنہ برپا کرتا ہے لیکن بے خبر ہے کہ اسلام نے فتنے کو قتل سے بھی شدید تر قرار دیا ہے۔ اس سوچ کو مخاطب بنانا اور اس کی اصلاح کرنا فوج نہیں، حکومت کا کام ہے۔ فوج بندوق بردار ہاتھوں کو توڑ سکتی ہے، لیکن اس کا اہتمام صرف حکومت کر سکتی ہے کہ ایسے ہاتھ پھر نہ اٹھیں جو بندوق تھامیں اور پھراہلِ پاکستان پر عذاب بن کے ٹوٹ پڑیں۔
یہ سیاسی حکومت کا ذمہ ہے کہ وہ اس باب میں قوم کے اندر اتفاق رائے پیدا کرے۔ وہ اس مقدمے کو پورے استدلال کے ساتھ پیش کرے کہ امن آج پاکستان کی پہلی اور آخری ترجیح ہے۔ اس لیے ہر وہ تعبیرِ دین اصلاح طلب ہے جس کے نتیجے میں فساد جنم لیتا ہے۔ ہر وہ ادارہ مذموم ہے جو ایسی سوچ کو پروان چڑھاتا ہے۔ حکومت کو اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ پاکستان بھر میں کون سے دینی مدارس، جرائد، اشاعتی ادارے یا جماعتیں قوم میں فساد کے بیج بو تی اور ایسے افکار کی آبیاری کرتی ہیں۔ ان کے بارے میں ایک واضح حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ ایک طرف اس کا اہتمام ہوکہ ایسی سوچ کے ماخذ ختم ہوں اور دوسری طرف اس استدلال کی اصلاح ہوجو فساد کو جنم دیتا اور اس کے لیے اسلام یا امت مسلمہ کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔
اس مقصد کے لیے فوج اور سیاسی حکومت کے مابین حکمت عملی کے باب میں اتفاق رائے ناگزیر ہے۔ میں نہیںجانتا کہ اس آپریشن سے پہلے اس کے مالہ‘ وما علیہ کے حوالے سے طاقت کے دونوں مراکز نے کس حد تک سوچ بچار کیا۔ بظاہر اس کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ جنرل اطہر عباس کے انکشافات پر توجہ دی جائے تو فوج تین سال پہلے سے، اس آپریشن کے بارے میں تیار تھی۔ پہلے اگر کچھ مانع تھا تو وہ جنرل کیانی کا تذبذب تھا۔ موجودہ حکومت قائم ہوئی تو وزیر داخلہ کے طرز عمل سے پوری طرح عیاں رہا کہ حکومت طالبان کے ساتھ معاملہ کرنا چاہتی ہے۔ اب تذبذب حکومت کے حلقے میں تھا۔حکومت نے اس کی نتیجہ خیزی کے بغیر، مذاکراتی عمل پہ ہی اکتفا کیے رکھا۔ یہاں تک کہ فوج کو ایک دو ٹوک موقف اختیار کرنا پڑا۔ اس کی تیاری پوری تھی اور یوں وہ چند گھنٹوں کے نوٹس پر میدان میں اتر گئی۔ بظاہر اندازہ یہ ہے کہ حکومت ابھی اس کے لیے یک سو نہیں تھی۔ آپریشن کے باب میں وزیرِ داخلہ کی مکمل خاموشی اور کسی حد تک ناراضی پر مبنی لا تعلقی بتا رہی ہے کہ حکومت اس معاملے میں اسی تذبذب کا شکار تھی جو جنرل کیانی سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ اس تذبذب کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی کہ اس نازک ترین مرحلے پر وزیرِ داخلہ ''نجی دورے‘‘ پر برطانیہ جا رہے ہیں اور اس وقت یہ تأثر کہیں موجود نہیں ہے کہ یہ آپریشن دراصل حکومت کی قیادت میں ہو رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہر دن شام کووزارتِ داخلہ یا وزارتِ اطلاعات اس بارے میں پیش رفت سے با خبر کرتی اور عوام کے لیے معلومات کا وہی واحد مستند ماخذ ہوتا۔ آج یہ ذمہ داری آئی ایس پی آر کے پاس ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ حکومت اس آپریشن کے خلاف ہے۔ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اطلاعات سمیت بہت سی اہم شخصیات اس باب میں یک سو ہیں کہ دہشت گردی اور فتنے کا دروازہ ہر صورت بند ہونا چاہیے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اس کے لیے فوج اور حکومت میں جس نوعیت کے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے اس کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ حکومت کا کردار اس سارے قضیے میں منفعلانہ ہے۔ اس آپریشن کی کامیابی کے لیے دوسرے محاذپر کوئی پیش قدمی نہیں ہے۔ مذہبی، تعلیمی اداروں، میڈیا اور دیگر سیاسی و سماجی اداروں کی تشکیلِ نو کا کہیں ذکر نہیں، جو اس اقدام کی حتمی کامیابی کی نا گزیر ضرورت ہے۔ پھر یہ کہ فوج کے ساتھ ایک مؤثر پولیس بھی بہت اہم ہے۔ جو لوگ آپریشن سے بھاگ کر ہمارے شہروں اور بستیوں کا رخ کر رہے ہیں، ان کا کھوج لگانا فوج کا نہیں پولیس کا کام ہے۔ فوج انٹیلی جنس کی حد تک مدد دے سکتی ہے لیکن باقی کام پولیس کا ہے۔ فوج اور پولیس کے مابین ایک مؤثر تعاون اسی وقت ممکن ہوگا جب حکومت اور فوجی قیادت ایک ہمہ جہتی حکمتِ عملی پر متفق ہوں۔
تذبذب فوجی قیادت میں تھا تو اس کا ایک نقصان ہوا۔ اب اگر حکومت کی صفوں میں ہوگا تو اس کا بھی نقصان ہوگا۔ آج چار نکات پر فوج اور حکومت کے درمیان اتفاقِ رائے ضروری ہے۔
1۔ آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال۔
2۔ضربِ عضب کی کامیابی۔
3۔ ان اسباب اور سوچ کا تدارک جو فساد اور فتنے کو جنم دیتے ہیں۔
4۔فوج اور پولیس کے مابین حکمتِ عملی کے باب میں مکمل ہم آہنگی اور رابطہ۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوج اور حکومت کی یکسوئی نا گزیر ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو بات سابق فوجی قیادت کے بارے میں آج جنرل اطہر عباس کہہ رہے ہیں کل کوئی موجودہ سیاسی قیادت کے بارے میں بھی کہہ دے۔ جناب نواز شریف کا کوئی بہت قریبی مشیریا وزیر ! فوج ان شا اللہ کامیاب رہے گی کہ وہ یک سو ہے۔یہی یک سوئی دوسرے محاذ پر بھی ضروری ہے جس کی کمان حکومت کے پاس ہے۔