لغت سے پو چھیے تو'جمعیت‘ یا 'لیگ‘ کا اطلاق اجتماع پر ہو تا ہے۔ پاکستان کی سیاست لیکن یہ کر شمہ دکھا سکتی ہے کہ یہاں فردِ واحد جمعیت ہو سکتا ہے اور لیگ بھی۔ جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان کے نام پرکئی 'جماعتیں‘ ایسی ہیں کہ فردِ واحد خود کو جماعت قرار دیے بیٹھا ہے۔ پھر'عوامی‘ مسلم لیگ سے کون واقف نہیں جس میں ایک آدمی خودکو 'عوام‘ سمجھتا ہے۔ اِن دنوں صورتِ حال زیادہ دلچسپ ہے۔ حکومت مسلم لیگ کے پاس ہے اور اپوزیشن بھی۔ ایک مسلم لیگ کہتی ہے کہ حکومت پانچ سال پورے کرے گی دوسری مسلم لیگ کہتی (یا کہتا) ہے کہ حکومت پندرہ دن کی مہمان ہے۔ میڈیا پر نمائندگی کو دیکھا جا ئے تو فردِ واحد کا پلّا بھاری ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے ایک ' عوام ‘ نے تنہا جتنا وقت لیا، حکومت شاید اس کا عشر ِعشیرہی لے سکی جو پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ہے۔
یہ صلاحیت صرف اقتدار میں ہے جو اس کثرت کو وحدت میں بدل سکتا ہے۔ مسلم ہائے لیگ سے 'ہائے‘ نکل سکتا ہے۔ آج اگر ن لیگ فرزندِ راولپنڈی کو اپنی فرزندی میں لے لے تو ایک 'ہائے ہائے‘ ختم ہو سکتی ہے۔گجرات کے چوہدری صاحبان کے دل میں اللہ نے اتنی وسعت رکھی ہے کہ اس میں ایک جہاں سما سکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ 'جہاں‘ میں کتنے تضادات ہو تے ہیں۔ یہ صلاحیت صرف گجرات کی' مٹی‘ میں ہے کہ اس سے لپائی ہو جائے توتضادات چھپ جاتے ہیں۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی سکتے ہیں۔ یہ گھاٹ لیکن اقتدارکا ہو نا چاہیے۔ اس بار اس کی رکھوالی نوا ز شریف صاحب کے پاس ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ شیر اور بکری الگ الگ ہیں اوردھاڑ رہے ہیں۔ آپ پوچھ سکتے ہیں کہ بکری کیسے دھاڑ سکتی ہے؟میرا جواب یہ ہو گا کہ میں صرف صوتی اثرات سے اندازہ کر رہا ہوں۔ اس کی صحیح وجہ تو شیخ رشید صاحب بتا سکتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ پندرہ دن میں حکومت ختم ہو نے والی ہے تو مجھے یہ دھاڑ ہی سنائی دیتی ہے۔
نوازشریف صاحب نے مسلم لیگ کی 'ہائے‘ کو ختم کیوں نہیں کیا؟اس کا سادہ جواب ہے، افتادِ طبع۔ پرویز مشرف صاحب کے وزرا اگر ان کی کابینہ میں رونق افروز ہو سکتے ہیں تو چوہدری شجاعت حسین کیوں نہیں؟ صاف معلوم ہو تا ہے کہ یہ دل کی گرہ ہے جوکھل نہیں رہی۔ دنیا جب دلیل مانگتی اور تضاد کی نشان دہی کرتی ہے تو کوئی عذر تراشا جا تا ہے۔ اس کے لیے لغت میں الگ سے ایک لفظ ملتا ہے، عذرِلنگ۔ چوہدری پرویز الٰہی صاحب کا دکھ دوسرا ہے۔ وزارتِ عظمیٰ ان کے دروازے پر دستک دے کر لوٹ گئی۔ وہ اس کا ذمہ دار شریف برادران کو سمجھتے ہیں۔ یہ دکھ اتناگہرا ہے کہ انہیں طاہرالقادری صاحب کے دروازے تک لے جا تا ہے۔ معلوم نہیں انہیں کیسے دھوکا ہوا کہ ادارہ منہاج القرآن سے ' راولپنڈی ‘کے لیے کوئی شارٹ کٹ مو جود ہے۔گجرات سے راولپنڈی، براستہ ماڈل ٹاؤن لاہور... چوہدری صاحبان جیسے جہاں دیدہ نہ جانے کیسے دھوکا کھا گئے کہ یہ راستہ قریب پڑتا ہے۔ یہ شاید ناراضی کا آ خری درجہ ہے۔ توجیہ یہی ہے کہ یہ دل کی گرہیں ہیں جوکھل نہیں رہیں۔کل حالات چوہدری برادران کے لیے ساز گار تھے، آج شریف برادران کے لیے ہیں۔ افسوس یہ کہ آج مسلم لیگ کی صفوں میں کوئی بڑا نہیں۔ یوں مسلم ہائے لیگ کی 'ہائے ہائے‘ ختم ہو نے کو نہیں آ رہی۔
نوازشریف صاحب نے اگر پرویز مشرف کی دوسری باقیات کو گوارا نہ کیا ہو تا تو انہیں یہ مشورہ دینا درست نہ ہوتا کہ مسلم لیگ کے نام سے مو جود گروہوں کو اپنے دامن میں جگہ دے دیں۔ بر سر اقتدار آنے کے بعد ان کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ اپنا دل کھلا کرتے اور مسلم لیگ کو ایک جماعت بنا دیتے۔ یہ وقت گزر گیا۔ ایک سال میں تلخی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب یہ کام مشکل تر ہو گیا ہے۔ پھر سیاست جس طرح 1990ء کی دہائی کی طرف لوٹ رہی ہے،دوسروں کے لیے امید کے نئے باب وا ہو رہے ہیں،اس لیے ان کی سوچ کا تناظر بھی اب بدلنے لگا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر سیاست میں ترقیِ معکوس کا یہ عمل جاری رہتا ہے تو اس بار نئے چہرے سامنے آئیں گے۔۔۔ ایک نئی مسلم لیگ ،گویا ایک اور 'ہائے‘۔ شہباز شریف کو اس کا اندازہ ہے اور انہوں نے اپنے تئیں بوری کے سوراخ کو بندکرنے کی کوشش کی ہے۔ نواز شریف صاحب کو وہ اس وقت تو یہ باور کرانے میں کا میاب رہے، آنے والے دنوں میں کیا ہو تا ہے،کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جو افتادِ طبع مسلم لیگ کو متحد کرنے میں حائل رہی، وہ اگر پھر غالب رہتی ہے تو اس ہائے ہائے میں اضافہ خلافِ قیاس نہیں۔
سیاست میں بقا کی دو ہی صورتیں ہیں۔ ایک کا راستہ میکیاولی نے دکھایا، دوسرا راستہ وہ ہے جو مغرب کے جدیدجمہوری سماج نے اختیارکیا ہے۔ تیسرا راستہ میرے علم میں نہیں ہے۔ میکیاولی نے سیاسی بقا کے عمل کو اخلاقیات سے الگ کرکے بتا دیا ہے کہ امورِ جہاں بانی کیسے چلائے جا سکتے ہیں۔کیسے ان طبقات کو ہم نوا بنایا جاتا ہے جو سیاسی عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ چند برسوں کے استثنا کے ساتھ، یہ میکیاولی ہی کا فلسفہ ہے جوپوری انسانی تاریخ میں اہلِ سیاست کا راہنما رہاہے۔ اُس کا تعلق سولہویں صدی سے تھا۔ اس نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ ماضی کے سیاسی تجربات کاحاصل بیان کر دیا۔ دوسرا طریقہ اہلِ مغرب کا ہے۔ مغرب نے سیاست کو چند اخلاقی اصولوں کے تابع کر دیا ہے۔وہاں بد دیانتی، نااہلی اورعوامی امنگوں سے لاتعلقی کے ساتھ سیاسی بقا ممکن نہیں۔ دیانت داری، صلاحیت، قانون کی حکمرانی اور گڈ گورننس کے ساتھ اقتدار اور سیاست کی عمر طویل ہو سکتی ہے۔ برسرِ اقتدار مسلم لیگ کا نظریہ سیاست کیا ہے؟ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا۔کبھی لگتاہے کہ انہوں نے میکیاولی کو رہنما مان لیا ہے۔
کبھی یہ محسوس ہو تا ہے کہ وہ مغربی جمہوریت کو اپنے لیے مثال سمجھتے ہیں۔ مشرق و مغرب کایہ امتزاج صرف ابہام پیدا کر سکتا ہے۔
آج خیال یہی ہے کہ ایک نئے سیاسی عمل کا آغازہو چکا۔ نواز شریف صاحب کے پاس اب ایک ہی راستہ ہے۔ وہ ہم نوا سیاسی قوتوں کو جمع کریں اور جمہوری عمل کے تسلسل پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کر نے کی سعی کریں۔اس کے لیے جس عوامی تائید کی ضرورت ہے وہ صرف گڈ گورننس سے مل سکتی ہے۔ ان دونوں محاذوں پر بیک وقت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج نواز شریف صاحب کا عوام کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ انہوں نے ایک سال میں ایک بار بھی قوم سے خطاب نہیں کیا۔آج جب ان کے اقتدارکے خاتمے کی بات ہو رہی ہے تو انہیں قوم کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ انہیں بتا نا چاہیے کہ ایک سال میں کیا ممکن تھا اور انہوں نے کیا کیا۔ قومی تعمیرکے لیے ایک ایجنڈا دینا ان کا کام ہے۔ اپنی باگ حالات کے حوالے کر نے کے بجائے، انہیں اسے اپنے ہاتھوں میں لینا چاہیے کہ قیادت اسی سے ثابت ہو تی ہے۔ عمران خان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں، اس کے با وجود ان کی باتیں میڈیاا ور سیاسی مجالس کا مو ضوع ہیں۔ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ متحرک ہیں۔ اگر آج حکومت ایک تعمیری ایجنڈے کے ساتھ متحرک دکھائی دے تو حالات کی لگام اس کے ہاتھ میں ہو سکتی ہے۔
نواز شریف صاحب اگر مسلم ہائے لیگ کو ایک مسلم لیگ نہیں بنا سکتے تو اس کی ' ہائے ہائے ‘ کو تو غیر موثر بناسکتے ہیں۔ جب فردِ واحد بھی لیگ ہو تو اصل لیگ کوضرور غورکر نا چاہیے جو فردِ واحدہونے کا تاثر دے رہی ہے۔