بدر میں 313مسلمان ایک ہزار پر غالب رہے۔ شاعر نے مضمون باندھا:
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
یہ محض شاعرانہ مبالغہ ہے یا ابدی بشارت کا بیان؟غزوہ بدر عام جنگ تھی یااللہ کے کسی خاص قانون کا ظہور؟ کیا آج بھی 313 ایک ہزار پر غالب آ سکتے ہیں؟کیا قرآن مجید نصرتِ الٰہی کا کوئی قانون بیان کرتا ہے؟آج یوم ِ بدر ہے۔آئیے، ان سوالات کے جواب تلاش کرتے ہیں۔
قرآن مجید نے سورہ انفال میں اس معرکے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزِ جنگ کویوم الفرقان کہا ہے۔اس معرکے میں آ سمانوں سے فرشتے مسلمانوں کی مدد کو اترے تھے۔رسالت مآب ﷺ کو قریش کی آمد اور فوج کا نقشہ عالمِ رویا میں دکھادیا گیاتھا۔مسلمانوں نے کافروں کو قتل کیا تو اللہ نے اس کی نسبت اپنی طرف کی کہ تم نے نہیں، ان کو اللہ نے قتل کیا۔اللہ کے آ خری رسول محمدﷺ نے جب مٹھی بھر خاک مشرکین کی طرف پھینکی تو بھی اللہ نے کہا کہ یہ آپ نے نہیں، میں نے پھینکی۔یہ اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید کا بیان ہے۔یہی نہیں، اللہ نے مسلمانوں کو معرکے کی رات سلادیا کہ صبح تازہ دم ہوکر میدان میں اتریں۔پریشانی میں نیند نہیں آتی ،اس لیے اسے بھی اللہ نے اپنا فضل کہا۔جب قریش نے پانی کے ذخائر پر قبضہ کر لیا تو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بارش برسا دی۔اسے بھی پروردگار نے اپنی طرف منسوب کیا۔
قرآن مجیدسے واضح ہے کہ یہ کوئی عام معرکہ نہیں تھا۔اس لیے اس سے کوئی عمومی قانون دریافت کرنا درست نہیں ہو گا۔مسلمان اگر فی سبیل اللہ جہاد کریں تو اس کے لیے نصرت الٰہی کا قانون دوسرا ہے۔یہ قر آن مجید نے سورہ انفال میں بیان کیاہے۔اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کو مخاطب کیا کہ ابتدا میں اللہ کی نصرت کا قانون یہ تھا کہ ایک اور دس کی نسبت تھی۔یعنی ایک مسلمان دس پر بھاری تھا۔اب چونکہ تمہارے ایمان میں ضعف آ گیا ہے، اس لیے یہ نسبت ایک اور دو کی ہوگئی ہے۔ اب ایک دو پر غالب ہوگا۔پھر یہ بھی کہا کہ یہ آسانی صابرین کے لیے ہے۔ (الانفال: 66,65)۔ گویا دوباتیں واضح کر دی گئیں۔ایک یہ کہ مادی تیاری ناگزیر ہے۔اللہ کی نصرت اس کے بغیر نہیں مل سکتی۔دوسرا یہ کہ تمہارے پاس دشمن کے مقابلے میںکم از کم آدھے وسائل تو ہوں۔اس سے کم پہ تمہیں میدان میں نہیں اترنا چاہیے۔معلوم ہوا کہ خود صحابہ کے لیے یومِ بدر دوبارہ مثال نہیں بن سکا۔اس لیے آج مسلمانوں کی عمومی ایمانی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ گمان کر نا کہ313ایک ہزار پر غالب آجائیں گے،شاعرانہ نکتہ آفرینی ہے۔
غزوہ بدر کے بارے میںیہ بات پیشِ نظررہنی چاہیے کہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے قانون ِ اتمامِ حجت کے ساتھ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی پہلی قسط تھی، جو ان لوگوں پر نازل ہو رہا تھا‘ جنہوں نے ایک رسول کی تکذیب کی۔عالم کا پروردگار اپنے رسولوں کو اس لیے مبعوث کرتا ہے کہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم کر دیں۔ رسولوں کی آمد کے ساتھ وہ اس زمین پر وہ قیامتِ صغریٰ اٹھا دیتا ہے جو اس نے پورے عالمِ انسانیت کے لیے ایک روزبرپا کر نی ہے۔رسول جب آ جائے تو پھر اس کو ہر صورت غالب رہنا ہے۔نبی اور رسول میں ایک فرق یہ ہے کہ رسول کبھی مغلوب نہیں ہو تا۔یہ اللہ کا فیصلہ ہے (المجادلہ:21,20)۔ اگر رسول کے مخاطبین ایمان لے آئیں تو دنیا کے خزانوں کی چابیاں ان کے حوالے کر دی جا تی ہیں۔اگر انکار کر دیں تو انہیں زمین سے مٹا دیا جا تا ہے۔کبھی آ سمان سے بارش بر ستی اور کبھی زمین ان کے پاؤں کے نیچے سے سرک جاتی ہے۔کبھی آندھیاں انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔کبھی یہ بھی ہو تا ہے کہ مکذبین کے لیے اصحابِ رسول کی تلواریں عذاب بن جاتی ہیں۔ اللہ کے آ خری رسول ﷺ کی قوم کے ساتھ یہی معاملہ ہوا۔ قرآن نے صحابہؓ کو مخاطب کرتے اعلان کر دیاکہ محمدﷺ کا انکار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں عذاب دے گا۔بدر اس عذاب کی پہلی قسط تھی۔آخری قسط فتح ِ مکہ کے دن جاری کی گئی جب کہا گیا کہ حرام مہینے گزرنے کے بعد،ان مشرکوں کو جہاں پاؤ،قتل کرو،انہیں پکڑو،انہیں گھیرو اور ہر گھات میں ان کی تاک
لگاؤ۔ لیکن جو توبہ کرلیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ دیںتوان کی راہ چھوڑ دو(التوبہ :5)) یہ قانون ان لو گوں کے لیے ہے جن پربعثت ِ رسول کے ساتھ اتمامِ حجت کر دیا جا تا ہے ۔اس قانون کے تحت،یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ کرتے ہیں کہ کب اتمامِ حجت ہوا اور کب عذاب آنا ہے۔عذاب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے رسول انذار،انذارِ عام ،اتمامِ حجت اور اس کے بعد ہجرت و برأت کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ رسول کسی مر حلے کا فیصلہ اپنے اجتہاد سے نہیں کرتا۔سیدنا یونس ؑ نے اللہ کے حکم کا انتظار نہیں کیا اور ہجرت کا فیصلہ کر لیا ۔اس کی پاداش میں انہیں مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ اپنی قوم کی طرف بھیجا۔
بدر کو اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان کہا۔گویا حق کا حق اور باطل کا باطل ہو نا کسی شبے کے بغیر واضح ہو گیا۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس بات کا فیصلہ کیا،ا سے ظہورمیں لے آیا''تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے، وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے، وہ دلیلِ روشن کے ساتھ زندہ رہے۔‘‘(الانفال:42) ۔بطور جملہ معترضہ یہ عرض ہے کہ جب لوگ نظمِ قرآن کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس آیت کو ایک عمومی قانون کے طور پر بیان کر تے ہیں۔حالانکہ قرآن بالکل واضح ہے کہ یہاں غزوہ بدر کو دلیل بنا کر پیش کیا جارہا ہے اوراس کے انجام کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔یہ کوئی عام قانون نہیں ہے کہ لوگ دلیل سے ہلاک ہوتے یا زندہ رہتے
ہیں۔مو لا امین احسن اصلاحی نے اس کی تفسیر میں لکھا:''خدا نے چاہا کہ قریش اور مسلمانوں میں ایک ٹکر ہواور وہ فرقان نمایاں ہو جائے جو حق کا حق ہو نا اور باطل کا باطل ہو نا واضح کردے تاکہ اس کے بعد جو ہلاکت کی راہ اختیار کریں،وہ بھی اتمامِ حجت کے ساتھ یہ راہ اختیار کریں اورجو زندگی کی راہ اختیار کریں،وہ بھی ایک روشن دلیل کے ساتھ اختیار کریں۔ہلاکت اور زندگی سے مراد،ظاہر ہے کہ یہاں روحانی اور معنوی ہلاکت اور زندگی ہے‘‘۔ (تدبرِ قرآن،جلد3‘ ص 485)۔
آج کچھ لوگ اہلِ فلسطین پر مظالم کے باب میں غزوہ بدر سے دلیل لا رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ بے دست و پا میدان میں نکلا جائے تواللہ تعالیٰ کی نصرت آئے گی جیسے بدر میں آئی تھی۔قرآن مجید نے واضح کر دیا کہ بدر کا معرکہ اصلاً کیا تھاا ور نصرتِ الٰہی کا قانون کیا ہے۔اگر لوگ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے کوئی قدم اٹھا ئیں گے تو اس کے انجام کی ذمہ داری سے اللہ تعالیٰ بری الذمہ ہوں گے۔واقعہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے جذبات کو راہنما مان کر اہلِ فلسطین کو اس عذاب میں جھونکا ہے،انہوں نے نادان دوستی کا مظاہرہ کیا ہے۔اہلِ فلسطین آج دوہرے ظلم کا شکار ہیں۔ ایک طرف انہیں اسرائیلی مظالم کا سامنا ہے اور دوسری طرف ایسی قیادت کا جس نے انہیں بے سروسامانی کے ساتھ میدانِ کارزار میں لاکھڑا کیا ہے۔اہلِ کشمیربھی اس دوہرے ظلم میں مبتلا ہیں۔ کاش ہم اہلِ فلسطین کی مدد کرسکیں اور انہیں اس عذاب سے نجات دلا سکیں۔یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے،میں اس مضمون کو اگلے کالم تک اٹھا رکھتا ہوں۔