رمضان کی ایک شب ، میں نے ٹی وی پر مو لا نا طارق جمیل کو 'رقت آ میز‘ دعا کراتے دیکھا۔مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ اکابرینِ تبلیغی جماعت کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔
میں مولانا کے مداحوں میں سے ہوں۔جب بھی ان سے ملاقات ہوئی، ایک خوش گوار احساس تادیر میرے ساتھ رہا۔ تذکیرِ آخرت کے باب میں،وہ مو لا نا وحید الدین خان کے مثیل ہیں،اس فرق کے ساتھ کہ مو لانا کا میدان تحریرہے اور طارق جمیل صاحب کا تقریر۔تاہم میرے اس تاثرکا ایک حاشیہ (Footnote) بھی ہے۔اللہ تعالیٰ نے رسالت مآب ﷺ کو ہدایت فرمائی کہ وہ قرآن مجید کے ساتھ تذکیر کریں (ق:45)۔ مو لاناطارق جمیل بھی جب اس بات کا اہتمام کرتے ہیں تو ایک سماں باندھ دیتے ہیں۔لیکن وہ اس پر اکتفا نہیں کرتے۔'فضائل ِ اعمال‘کے باب میں وہ موضوع روایات بیان کرتے ہیں۔وہ محدثین کے اس اصول کو نظر انداز کرتے ہیں کہ جس روایت میں کسی چھوٹے عمل کا بڑا اجر اور کسی چھوٹی برائی کی بڑی سزا بیان ہوئی ہو، وہ مو ضوع،یعنی گھڑی گئی ہے‘ یعنی اس کی رسالت مآب ﷺ سے نسبت ثابت نہیں ہے۔ان جیسا عالم جانتا ہے کہ روایات کے باب میں سہل انگاری نے اس امت پر کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں۔اسی سے ایک طرف دینی تعلیمات میں تحریف ہوئی، احکام کی اور مآخذکی ترتیب الٹ گئی اور دوسری طرف انکارِ حدیث و سنت جیسے فتنوں کو جگہ ملی۔ دورِ حاضر کے مسائل پردین سے استدلال کرنے والے کالم نگاروں نے بھی اس معاملے میں جس تساہل کا مظاہرہ کیا ہے،اس سے بھی کئی فتنوں نے جنم لیا ہے۔ میں اس پر تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں لیکن اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔مجھے اس وقت بحث کو مولانا طارق جمیل تک محدود رکھنا ہے۔
دعا اصلاًایک انفرادی عمل ہے۔یہ عالم کے پروردگار کے حضور میں ایک بندے کی مناجات ہے۔شب کے آ خری پہر جب کوئی تنہائی میں اپنے رب کو پکارتا اور اس عالم میں گریہ کرتاہے تو اللہ کے رحمت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے۔دعا آ دمی کی عاجزی و بے بسی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر اعتمادکا استعارہ ہے۔مو لا نا وحید الدین کے الفاظ میں جب ایک بندہ ،عاجزِ مطلق بن کر، قادرِ مطلق کے حضور میں کھڑا ہو جاتا ہے تو اللہ کی غیرت کو یہ گوارا نہیں ہو تا کہ وہ اسے خالی ہاتھ لو ٹا دے۔جو شاہ رگ سے زیادہ قریب ہو، اسے پکارنے کے لیے کسی واعظ یا ترجمان کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی نیک آ دمی کو دعا کی درخواست نہیں کر سکتے۔یہ ہمارا کلچر ہے اور اس میں خیر ہے لیکن اس وقت میں دعا کی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے،اس کا انفرادی پہلو نما یاں کر رہا ہوں۔اجتماعی دعا بھی دعا ہی کی ایک صورت ہے لیکن اصلاً یہ انفردی فعل ہے۔اللہ کے آخری رسول ﷺ نے بہت کم اجتماعی دعا کا اہتمام فرما یا۔اس میں شبہ نہیں کہ آپ نے اہم مو قعوں پر اس کی تلقین کی جیسے بارش کا نہ ہو ناا ور اس کے لیے نماز اور دعا لیکن یہ آپ کا معمول نہیں تھا۔ہمارے ہاں جب میڈیا نے مذہبی جذبات کو جنسِ بازار بنا یا تو دعا بھی اس کی زد میں آئی۔اب تو 'رقت آ میز دعا ‘ کا مقابلہ ہونے لگا ہے اور ریٹنگ کے تقابل سے یہ اندازہ لگا یا جا تا ہے کہ کون سی دعا کتنی رقت آ میز تھی۔میرا احساس ہے کہ اجتماعی اعتکاف کے تصور نے جس طرح اعتکاف کی روح کو متاثر کیا جو ایک انفرادی فعل تھا، اسی طرح میڈیا نے دعا کی اس روح کو متاثر کیا۔میڈیا کے لوگوں سے مجھے اس کا زیادہ گلہ نہیں کہ یہ ان کا پیشہ ہے لیکن مو لا نا طارق جمیل بھی اس کا حصہ بن جائیں، یہ میرے لیے صدمے کا باعث ہے۔
میں نے مو لا نا کی یہ دعا سنی جسے عوام کے پرزور اصرار پر دوسری بار بھی دکھایاگیا۔مجھے یہ تاثر ملا کہ جیسے یہ دل سے اٹھنے والی دعا کم اورکسی خارجی مطالبے کا نتیجہ زیادہ ہے۔ٹی وی کیمرے کی ضرورت بھی دعا گو کے پیشِ نظر ہے۔گویا دعا کی قبولت، قبولیتِ عامہ سے مشروط ہو گئی ہے۔یہ ممکن ہے کہ خیر کے داعیے کے ساتھ اس کا اہتما م کیا گیاہو لیکن میرے نزدیک اس میں بہت سے خطرات چھپے ہوئے ہیں۔مجھے احساس ہو تا ہے کہ ابتدائی درجے ہی میں، اس حوالے سے متنبہ رہنا چاہیے۔ابتدا میں اگر کوئی خرابی نگاہوں سے اوجھل رہ جائے تو امکان ہو تا ہے کہ وہ بعد میں کسی بڑی خرابی کا سبب بن جائے۔روایت حدیث کے باب میں یہی تساہل تھا جس کی وجہ سے، بعد میں یہ صورتِ حال پیش آئی کہ امام بخاریؒ جیسے محدثین کو سنگ ریزوں سے ہیروں کی تلاش میں برسوں محنت کر نا پڑی۔امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ جیسے بہت سارے صاحبانِ خیر کی مشقت کے باوجود، امت آج بھی ناصر الدین البانی جیسے لوگوں کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکی۔اسی لیے آج مجھے تبلیغی جماعت کے ان بزرگوں کی رائے کی اہمیت کا اندازہ ہو تا ہے جو میڈیا پر مولانا کی چہرہ نمائی کے خلاف ہیں۔اگر اس کے نتیجے میں دعوت کی روح متاثر ہوتی ہو تو یقیناً یہ گھاٹے کا سودا ہے۔
تو کیا مو لانا طارق جمیل کو ٹی وی پر نہیں آنا چاہیے؟ یقینا آنا چاہیے اور ضرور آنا چاہیے۔اس تنقید کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ مواصلات کے جدید ذرائع سے صرفِ نظر کیا جائے۔یہ عملاً ممکن ہے اورنہ حکمت کے مطابق ہے۔تاہم دعوت کے لیے میڈیا کے استعمال اور میڈیا کے مطالبات کے سامنے سر افگندگی میں فرق ہے۔اہل علم اور داعین کو جدید ذرائع ِ ابلاغ سے اپنی بات لوگوں تک پہنچانی چاہیے۔انٹر نیٹ، ٹی وی، اخبارات، سب کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔لیکن اس کے ساتھ متنبہ رہنا چاہیے کہ کہیں قبولیتِ عامہ ہی معیار اور سند نہ بن جا ئے۔اگر کوئی چینل یا فرد اس معیار کو اپنا کر مقبول ہو تا اور اس کے لیے دین کے کسی نظری یا تہذیبی پہلو کو نظر انداز کر تا ہے تواس کی تقلید سے گریز کر نا چاہیے۔اگر دعا کو رقت ِآمیز بنا نے کے لیے خارجی مطالبات کو پیش نظر رکھا جا ئے گا تو اس سے دعا کی روح متاثر ہوگی ۔صوفیا نے بر صغیر میں قوالی کو اسی پہلو سے گواراکیاکہ یہ ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔ہمیں معلوم ہے کہ اس باب میں روا رکھے گئے تساہل نے اس معا ملے کو کہاں پہنچا دیا۔کوئی اس کو سمجھنا چاہے تویو ٹیوب پر مو جود گڑھی شاہو، لاہور کے ایک مزار پربرپا قوالی کی ایک مجلس کی وڈیو کو دیکھ لے۔اگر یہ احتیاط سامنے رہے تو میڈیا اور دوسرے جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال مطلوب بھی ہے اور مستحسن بھی۔ اس لیے مو لا نا طارق جمیل کا ٹی وی پر دکھائی دینا نیک شگون ہے اوراس کا خیر مقدم کر نا چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ اس سال رمضان کے ٹی وی پروگراموں کادین کی سنجیدگی اور روح کے پہلو سے جائزہ لیا جا نا چاہیے۔یہ پروگرام دین کے بارے میں علم، سنجیدگی اوراس کے ساتھ تعلق پیدا کر نے کا ذریعہ ثابت ہوئے ہیں یا محض ایک کاروباری سرگرمی تھی؟یہ سوال اب اٹھنا چاہیے۔مو لانا طارق جمیل کے ساتھ تعلقِ خاطرکے سبب میں نے ان کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ وہ تبلیغی جماعت کی روایت میں 'مجتہد فی ا لمذہب ‘ہیں۔ان کا ایک قدم اس روایت کو غیر معمولی طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ان کو اس حوالے سے بطورِ خاص متنبہ رہنا ہوگا۔