"KNC" (space) message & send to 7575

امکانات کافن

طاہر القادری صاحب اور عمران خان میں یکسانیت کے با وجود ،ایک جوہری اختلاف ہے۔ عمران خان نظام کا حصہ ہیں، قادری صاحب نہیں۔یکسانیت مزاج میں ہے۔اسی کو افتاد طبع کہتے ہیں اور اس سے فرار عام طور پر ممکن نہیں ہو تا۔آج کی سیاست اسی کی اسیر ہے۔
جس کا کام اسی کو ساجے۔ اس ضرب المثل کا مفہوم سادہ ہے۔ انسان ایک کام کا مزاج اور صلاحیت لے کر دنیا میں آتا ہے۔اس کی کامیابی یہی ہے کہ وہ اس کا ادراک کرے۔اگر اس نے کسی ایسے میدان میں طبع آ زمائی کی،جس کے لیے وہ پیدا نہیں ہوا توخود کو تو بر باد کرے گاہی، اور بہت کچھ بھی برباد ہو جائے گا۔ابوالکلام ایک عالم کا مزاج لے کر آئے تھے۔سیاست میں جا نکلے۔پھر اس کے ساتھ کانگریس کی ضرورت بھی تھے۔خود کو ہندوستانیوں کانمائندہ ثابت کرنے کے لیے لازم تھا کہ مسلمانوں میں سے چند توانا آ وازیں کانگریس کے ساتھ ہوتیں۔نظریہ ضرورت کے تحت،گاندھی جی اور نہرو نے تمام عمر ناز برداری کی۔علم خلوت پسند ہے اورسیاست جلوت پسند۔ابوالکلام عبقری تھے اور یوں عام اصولوں سے مستثنیٰ۔کانگریس کو تو بہت فائدہ ہوا لیکن جنوبی ایشیا کے مسلمان ایک ابن تیمیہ سے محروم ہو گئے۔تاہم ان کی افتادِ طبع نے سیاست کو متاثر کیا۔استدلال اور شائستگی ، جن لوگوں کے باعث،ہمارے سیاسی کلچر کاحصہ بنے، ان میں مو لا نا آزاد کا نام سب سے نمایاں افراد میں ہے۔
قاضی حسین احمد مرحوم مزاجاً مجاہد تھے۔ میدان ِ سیاست کی طرف آ نکلے۔چاہا کہ اسے بھی میدانِ کارزار بنا دیں۔سیاست متاثر ہوئی اور قاضی صاحب بھی۔عمران خان بھی ایک جنگجو ہیں۔ طبیعت تصادم کی طرف مائل رہتی ہے۔ہار یا جیت۔ تیسرا انتخاب 
ان کے پاس نہیں ہو تا۔وہ کھلاڑی ہیں، اگرچہ ان کے کھیل ،کرکٹ میں ایک تیسرا احتمال بھی ہوتا ہے۔ٹیسٹ میچ اکثرہار جیت کا فیصلہ ہوئے بغیرختم ہو جا تا ہے۔عمران خان کا مزاج تاہم ایک باکسر کا ہے۔ہار یا جیت۔ یا پھر ڈبل ناک آؤٹ۔ ان دنوں،وہ اسی کے طرف مائل ہیں۔نوازشریف ایک تاجر کا مزاج رکھتے ہیں۔تاجر میں دوباتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ وہ تصادم سے عام طور پر گریز کرتا ہے۔دوسرا یہ کہ معاملات کو بند گلی میں نہیں لے جاتا۔وہ بات بنانے کی کوشش کرتا ہے،بعض اوقات وقتی نقصان اٹھا کر بھی کہ اسے مستقبل میں کسی بڑے فائدے کی توقع ہوتی ہے۔افلاطون سے لے کر ابن خلدون تک،سیاسیات کے علما نے لکھا ہے کہ شخصی مزاج کس طرح سیاست اور حکمرانی پراثر انداز ہوتاہے۔
دورِ جدید میں، انسانی سماج کے ارتقا نے اداراتی (institutional) اندازِ نظرکو فروغ دیا ہے۔اس میں ایک کام کے بنیادی مطالبات کو سامنے رکھتے ہوئے،ایک ایسا نظام تشکیل دینے کی سعی کی گئی ہے کہ ایک فرد کی جو بھی افتادِ طبع ہو، نظام کا حصہ بننے کے بعد،وہ اداراتی سوچ کے تحت فیصلے کرے۔جیسے ریاست اب ایک ادارہ ہے‘ اس کے مختلف شعبے ہیں‘ ان کے مابین اختیارات کی تقسیم ہے۔بادشاہت یا فردِ واحد کی حکمرانی کا امکان ختم ہو گیا ہے کہ ایک فرد منصف ہو گا یا انتظامی سربراہ۔انتظامیہ کا حصہ ہو گا یا عدلیہ کا۔یوں اگر کوئی شاہانہ مزاج رکھتا ہے تو بھی اس کا امکان نہیں کہ اس کی ذات میں ارتکازِ اختیارات ہو جائے۔ 
مغرب میں اب یہ بات لوگوں کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔پھر یہ نظام اتنی جڑیں پکڑ چکا ہے کہ کوئی چاہے بھی تو اس سے انحراف نہیں کر سکتا۔میں امریکہ گیا تو شکاگو میں، میری ملاقات ایک پاکستانی سے ہوئی۔ شہر میں ان کے ایک سے زیادہ ریستوران تھے۔ غالباًان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔انہوں نے اصرار کیا کہ میں ان کے ریستوران میں کافی پیوں۔ ان کے ساتھ وہاں پہنچا تو میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو ایک کرسی پر اپنا لیپ ٹاپ لیے بیٹھی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی وہ پاکستانی اسے گالیاں دینے لگا۔ ظاہر ہے کہ دھیمے لہجے اور پنجابی میں۔میری حیرت کو دیکھتے ہوئے، انہوں نے وضاحت کی کہ یہ صبح سے یہاں بیٹھی ہے۔اس نے کافی کی صرف ایک پیالی لی‘ لیکن میز کرسی پر گھنٹوں سے قابض ہے۔اب مصیبت یہ ہے کہ میں اسے اٹھا بھی نہیں سکتا۔ریستوران کا مالک اپنی افتادِ طبع کے با وصف اگر خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا تونظام کی مضبوط گرفت نے اسے اس بات پر مجبور کیا۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ کہ یہاں لوگ نظام کی نفسیات میں نہیں جیتے۔ یوں وہ اپنی افتادِ طبع کے ساتھ جب کسی شعبۂ زندگی کا رخ کرتے ہیں تو بجائے اس کے آداب قبول کرنے کے، اسے اپنی افتادِ طبع کے مطابق چلا نا چاہتے ہیں۔اس میں مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ وہ مغرب میں بہت سا وقت گزارنے کے باوجود ، جب پاکستان کی سرحد میں داخل ہو تے ہیں تو ان کی کایا کلپ ہو جا تی ہے۔عمران خان نے ایک طویل عرصہ انگلستان میں گزارا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ جمہوری ادارے کیسے کام کرتے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ وہاں کوئی فرد کسی کو اپنے ہاتھ سے پھانسی نہیں دیتا۔وہ جانتے ہیں کہ ادارے کا مفہوم کیا ہو تا ہے‘ سیاسی جماعت کس طرح مشاورت سے چلتی ہے۔انہیں خبر ہے کہ وہاں ایک سال بعد حکومتیں نہیں بدلتیں۔انہیں اندازہ ہے کہ کیسے امریکہ میں الگور کو انتخابات میں دھاندلی کی شکایت ہو تی ہے لیکن وہ عدم اطمینان کے باوجود عدالتی فیصلہ مانتا ہے اور ملک کو کسی عذاب سے دوچار نہیں کرتا۔ اس کے باوجود یہاں وہ خود کو کسی نظام کے تابع نہیں کر نا چاہتے،نظام کو اپنا اسیر بنا نا چاہتے ہیں۔
یہ بات صرف عمران خان کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ نوازشریف صاحب،جمہوری نظام میں رہتے ہوئے بھی شخصی پسند و ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔پارٹی کو بھی وہ ذاتی کارخانہ سمجھتے ہیں۔ایک وراثت جسے باپ سے اولاد کو منتقل ہونا ہے۔ بھٹو صاحب اور زرداری صاحب کا معاملہ بھی یہی ہے۔مذہبی لوگ بھی مدرسہ بنائیں یا جماعت، معاملات کو اپنے یا اولاد کے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔جماعت اسلامی کا استثنا ہے۔وہاں خاندانی حکمرانی کا کوئی تصور نہیں۔پانچ امیر آ چکے اور پانچوں کی کوئی بات ایک دوسرے سے نہیں ملتی۔جب تک ہم ادارے نہیں بناتے،ہم اسی طرح افراد کی افتادِ طبع کے اسیر رہیں گے۔ان دنوں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔سیاست آداب کے نہیں، شخصی رحجانات کے تابع ہے اور ان میں ذاتی مفاد بھی شامل ہو گیاہے۔تحریکِ انصاف میں ایک بڑا طبقہ عمران خان کی سیاست سے متفق نہیں۔اور تو اور شیریں مزاری بھی نہیں۔اس کے باوجود وہی کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے۔طاہر القادری صاحب بھی اسی سماج کا حصہ ہیں؛ تاہم ان کا معاملہ بعض پہلوئوں سے مختلف ہے۔ان کا تعلق مذہبی معاشیات (Economics of Religion) سے ہے۔یہ ایک مستقل بالذات مو ضوع ہے۔اس پرمیں الگ سے لکھوں گا، انشا اللہ۔
مو جودہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔سیاست کو سیاسی آداب کے تابع کیا جائے۔اسے جنگجویانہ یا تجارتی اصولوں کے مطابق نہ چلا یا جائے۔سیاست معاملہ فہمی اور تصادم سے گریز کا نام ہے۔اسے امکانات کا فن(Art of possibilities)کہتے ہیں۔سیاسی حکمتِ عملی میں حرفِ آخر نہیں ہو تا۔پاکستان کا مطالبہ کرنے کے باوجود کیبنٹ مشن کوئی نئی تجاویز لے آئے تو ان پر غور کیا جا سکتا ہے اور انہیںقبول بھی کیا جا سکتا ہے۔چھ نکات پیش کرنے کے با وصف لوگ مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرتے۔آج پاکستان توڑنے کے جرم میں انہیں شریک سمجھا جا تا ہے جنہوں نے مذاکرات کا دروازہ بند کر دیا تھا۔سیاست اسی کا نام ہے۔ 'اب بات نہیں ہو سکتی‘۔ 'مذاکرات کے دروازے بند‘۔یہ اسلوبِ گفتگو غیر سیاسی ہے۔اس سے گریز لازم ہے۔سراج الحق صاحب نے اگر امکان کی ایک کھڑکی کھولی ہے تو اس سے آنے والی روشنی میں راستہ تلاش کیا جائے۔اسی میں سب کا بھلا ہے۔ورنہ یہ کھیل ڈبل ناک آؤٹ پر ختم ہو سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں