عمران خان اور طاہرالقادری صاحب نے تواس باب میں کوئی ابہام نہیں چھوڑا کہ آئین کے ساتھ ان کا کتنا تعلق ہے۔ایک نے بتا دیا کہ وہ وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ پر قبضہ کر سکتا ہے۔دوسرے نے بھی الٹی میٹم دے دیا۔یہ فیصلہ اب اہلِ سیاست، اہلِ صحافت، اہلِ دانش اور عوام کو کرنا ہے کہ وہ آئین کے ساتھ ہیں یابے آئینی کے ساتھ۔اس سیاق میں توازن ایک بے معنی لفظ ہے۔
اہلِ اسلام میں کون ہے جو اسامہ بن لادن کے مطالبات کو غلط کہہ سکتا ہے؟انہوں نے کیا کہا تھا؟ یہی کہ جزیرہ نمائے عرب سے غیر ملکی فوجیں نکل جا ئیں۔عربوں کے وسائل پر دوسرے قابض نہ ہوں۔ طالبان کا موقف کیسے غلط تھا جب وہ کہتے تھے کہ افغانستان کے خلاف جارح قوتوں کا ساتھ نہ دیا جائے۔پاکستانی حکمران، ان کے خیال میں امریکی ایجنٹ کا کردار ادا نہ کریں۔سلطانہ ڈاکو کیوں مطعون ہے جب وہ کہتا تھا کہ دولت، صاحبانِ وسائل سے چھین کر محروموں کو دے دی جائے۔ تاریخ نے بالاجماع فیصلہ دیا کہ ان کرداروں نے مہذب معاشروں کو بر باد کر دیا۔جناب طاہرالقادری نے اسامہ بن لادن کے خلاف چھ سو صفحات کی کتاب لکھ دی۔القاعدہ اور اس کے نقطہ نظر کے حاملین کو خوارجی کہا۔ خوارج کون تھے؟ وہی جو کہتے تھے کہ ان الحکم الاللّٰہ۔ حکم تو صرف اللہ کاہے؟ یہ پوری امت کا عقیدہ ہے مگر خوارج کو مسترد کر دیا گیا۔ان سب کرداروں کو مسترد کرنے کی ایک ہی وجہ تھی: حکمتِ عملی۔انہوں نے ایک صحیح بات کے لیے جو طرزِعمل اختیار کیا وہ درست نہیں تھا۔ مذہب اور تہذیب، دونوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نقطہ نظر کو حکمتِ عملی سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔
طاہر القادری صاحب ممکن ہے ،ہر بات درست کہہ رہے ہوں۔ تحریکِ انصاف کے موقف کوبھی ہم سچ مان لیتے ہیں، باوجود شفقت محمود کے اس 'قولِ صادق ‘کے کہ' میں نے 88 ہزار 774موٹرسائیکلیں خود گنیں‘۔ان دونوں کی صداقت پر ایمان لاتے ہوئے ،ان کی تائید اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ ان کی حکمت ِ عملی غیر آئینی ہے۔اس باب میں اگر پہلے کوئی ابہام تھا تو اب باقی نہیں رہا۔عمران خان نے بتا دیا کہ صبر ان کی لغت میں نہیں ہے۔طاہرالقادری صاحب بھی کہہ رہے ہیں کہ الٹی میٹم کا وقت گزر گیا تو وہ عوام کو قابو میں نہیں رکھ سکیں گے۔دونوں پہلے خود جنون پیدا کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم اسے کنٹرول نہیں کر سکتے۔ کون اس طرزِ عمل کو جمہوری اور آئینی کہہ سکتا ہے؟ میرا خیال ہے، اس کے بعدیہ جملے بے معنی ہیں کہ 'دونوں لچک پیدا کریں۔عمران خان کا بھی ایک نقطہ نظر ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔
یہ بحث اب نوازشریف بمقابلہ عمران خان یا شہباز شریف بمقابلہ طاہر القادری نہیں،آئین بمقابلہ بے آئینی ہے۔یہ سوال کہ ایک مو جود حکومت کو کیسے تبدیل کیا جائے،اس کے دو جواب ہمارے سامنے ہیں۔ ایک یہ کہ پندرہ بیس ہزار افراد جمع کیے جائیں۔ انہیں حکومت کے خلاف بھڑکایا جائے اور پھر یہ کہاجائے کہ اگروزیراعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کر لیا جا ئے گا۔دوسرا یہ کہ ایک منتخب حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے اور پھر عوام فیصلہ دیں کہ وہ کسے حکمران بنا نا چاہتے ہیں۔اہلِ صحافت اور اہلِ دانش نے اس سوال کا واضح جواب دینا ہے۔مجھے اتفاق ہے کہ ریاستی ادارے اصلاح طلب ہیں۔الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو لازم ہے۔میں لیکن اس کے ساتھ ایک اور بات بھی جانتا ہوں۔عمرانیات اور سیاسیات کے ماہرین صدیوں سے متفق ہیں کہ سیاسی وسماجی ادارے معاشرے کی عمومی اخلاقی حالت کا پر تو ہوتے ہیں۔آج اگر فرشتے بھی اس ملک کا نظام سنبھال لیں تو اچانک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔بہتری ہمیشہ ارتقا سے ہوتی ہے۔مذہب کا مقدمہ یہی ہے اور کمیونزم سے پہلے غیر مذہبی نقطہ نظر بھی یہی تھا۔
انتخابات کے نظام میں بہتری ارتقا سے آئے گی اور اس کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔موجود سماجی حالات میں 'وزیراعظم عمران خان‘، جوہری طور پر وزیراعظم سے مختلف نہیں ہو سکتا۔ایسا ہوتا تو بطور ایک جماعت کے سربراہ کے، وہ نوازشریف سے مختلف ہوتے۔ تحریکِ انصاف کے انتخابات میں جتنی دھاندلی ہوئی ہے،ن لیگ کے انتخابات میں اس سے زیادہ نہیں ہوتی۔دونوں ایک سماج کی دین ہیں۔عمران خان اگر قوم کو نوازشریف سے بہتر سیاسی جماعت نہیں دے سکے تو بہتر حکومت کیسے دے سکتے ہیں؟اگر اس سماجی حقیقت کا اعتراف کر لیا جائے تو پھر ماننا پڑے گا کہ راتوں رات انتخابات کا نظام بہتر نہیں ہو سکتا۔یہ ارتقا سے ہوگا۔اس کا آغاز ہو گیا ہے۔ عمران خان کا یہ سیاسی کردار قابلِ تحسین ہے کہ انہوں نے اس ضرورت کو پوری شدت کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔ آج اس بارے میں تمام سیای جماعتیں متفق ہیں۔آئندہ عام انتخابات انشااللہ بہت بہتر ہوں گے۔ارتقا مگر صبر کا تقاضا کرتا ہے اور عمران خان کہہ چکے کہ صبر ان میں نہیں ہے۔اگر ان میں صبر نہیں ہے تو وہ سیاست میں کیا کر رہے ہیں؟
عمران خان نے اپنی تقریر میں انسان اور جانور کایہ فرق بتا یا کہ انسان سیاسی ہوتا ہے۔ انہوں نے مگریہ نہیں بتا یا کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔اگر انہوں نے علمِ سیاسیات کی کوئی کتاب پڑھی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ سیاست نظام ِریاست کو کسی قانون اور ضابطے کے تحت منظم کر نے کا نام ہے۔صبر سیاست دان کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہوتا ہے۔دورِ جدید میں سیاست اور آئین پسندی (Constitutionalism) مترادف سمجھے جاتے ہیں۔ہیجان اور قبضے کی نفسیات کو بالاتفاق غیر سیاسی رویہ قرار دیا جاتا ہے۔عمران خان اور طاہر القادری صاحب نے 16 اگست کی شب جو کچھ کہا، اسے کوئی سیاسی بیان نہیں کہہ سکتا۔ یہی فرق ہے جس کی وجہ سے دنیامحمد علی جناحؒ کو سیاست دان مانتی ہے، علامہ مشرقی کو نہیں۔اب عمران خان کو اپنی بیان کردہ تعریف کی روشنی میں سوچنا ہے کہ وہ اپنی جماعت کے لوگوں کو کیا بنا نا چاہتے ہیں۔انسان یا کچھ اور۔
عمران خان کے بارے میں میں نے، ایک بار لکھا تھا کہ وہ 'خودکش سیاست دان ‘ہیں۔اپنی سیاست کو اپنے ہاتھوں سے برباد کر رہے ہیں۔اب پورا ملک بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔اہلِ صحافت،اہلِ سیاست اور اور اہلِ دانش چاہیں تو انہیں اس سے روک سکتے ہیں۔تحریکِ انصاف پاکستان کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔عمران خان کا عزم قوم کی طاقت بن سکتا ہے۔ جمہوریت کے لیے پاکستان کو ایک متحرک اپوزیشن کی ضرورت ہے۔ ایک متبادل قیادت جو حکومت کی ناکامی کی صورت میں امید کی کرن بنی رہے اور قوم مایوس نہ ہو۔عمران خان خوش قسمت ہیں کہ قسمت نے پختون خوا کی حکومت کی صورت میں، انہیں ایک شاندار موقع دے دیا ہے۔وہ اسے ایک مثالی صوبہ بنادیں تو انہیں کسی دھرنے کی ضرورت نہیں۔اقتدار اور قوم ان کی تلاش میں وہاں پہنچ جائیں گے جہاں وہ ہوں گے۔ اس وقت وہ بربادی کے راستے پر بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ان کی خواہش ہے کہ اس راہ پر وہ طاہر القادری صاحب سے آگے نکل جائیں۔ خدشہ یہ ہے کہ وہ اس سفر میں اپنے ساتھ ،خاکم بدہن پاکستان کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائیں گے۔
اس لیے مکرر گزارش ہے کہ توازن آج ایک بے معنی لفظ ہے۔ قوم کو دوفیصلے کرنے ہیں۔ ایک یہ کہ آئین چاہیے یا بے آئینی۔ دوسرا یہ کہ عمران خان کو بربادہونے سے روکنا اور انہیں ملک کے لیے اثاثہ بنانا ہے جیسے وہ ماضی میں رہے ہیں۔اب وقت ہے کہ عوام اور اہلِ دانش جمہوریت اور آئین کی پاس داری کے لیے میدان میں نکلیں۔ دوسرا یہ کہ جو سیاسی گروہ عمران خان کے پاس مذاکرات کے لیے جائیں،وہ انہیں بتائیں کہ وہ خود کو عجلت پسندی کی نفسیات سے نکالیں اور صبر کرنا سیکھیں۔ جمہوریت اور عمران کو بچانااب مذاکراتی ٹیم کی ذمہ داری ہے۔