جب یہ سطور اشاعت کے مراحل طے کرنے کے بعد، آپ تک پہنچیں گی تو 'نیا پاکستان‘ وجود میں آ چکا ہو گا۔ممکن ہے میرایہ لکھا غیر متعلق ہو جائے۔تاہم اس تحریر کی یہ اہمیت باقی رہے گی کہ یہ ایک گواہی ہے جو تاریخ نہ سہی، اخبار کے صفحے پر تو ثبت ہو گئی۔
18 اگست کی شب عمران خان کی تقریر نے شدید اضطراب میں مبتلا کر دیا۔یہ اضطراب ہمہ جہتی تھا۔اُن کے چہرے پر صاف لکھا تھا کہ وہ اعصابی طور پرمتوازن نہیں ہیں۔ان کے خدوخال اگر چہ عام دنوں میں بھی کھچاؤ کا شکار رہتے ہیں لیکن اس تقریر کے دوران میں تو وہ پہچانے نہیں جا رہے تھے۔جملوں میں کوئی ربط تلاش کر نا مشکل تھا۔دائیں کان میں کوئی جملہ ڈالتا تو وہ اسے منہ سے اگل دیتے۔ یہی مشق بائیں کان کے ساتھ بھی جاری تھی۔ ایک ایک آ دمی کو آ واز دے رہے تھے۔ تقریر کے دوران میں ہیلی کاپٹر کی آواز سنائی دی تو اس سے باتیں کرنے لگے۔ جیسے جیسے ان کی تقریر آگے بڑھتی جاتی، میرا اضطراب بڑھتا جاتا۔ میں انہیں قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھ رہا تھا۔میری تشویش کی ایک بڑی وجہ یہی تھی۔ایک اور سوال بھی میری بے چینی کو مہمیز دے رہا تھا۔ ''اگر ان کی یہ ذہنی بے اعتدالی کسی انتہائی قدم میں ڈھل گئی تو کیا ہوگا؟‘‘ انسانی جانوں اور پاکستان کو لاحق خطرات کے بارے میں سوچ کر میںمزید پریشان ہو گیا۔
تقریر ختم ہو ئی تو میں سوچ رہا تھا کہ کسی ممکنہ حادثے کو روکنے کے لیے میں کیا کر سکتا ہوں؟میں نے ایک دوست کو فون کیا جو عمران خان سے قربت رکھتے تھے اور میں جن کے ساتھ اعتماد اور محبت کا رشتہ رکھتا ہوں۔انہوں نے میرے تاثر سے اتفاق کیا لیکن ساتھ ہی مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ عمران کوکوئی بات سمجھانا مشکل ہے۔ میں شدت سے سوچ رہاتھا کہ اس کیفیت میں انہیں کسی ہمدرد اور دانشور کی ضرورت ہے۔ دھیان یک لخت پروفیسر رفیق اختر کی طرف گیا۔یقیناً ان سے بہترکوئی نہیں ہو سکتا تھا جو ان بے امان لمحوںمیں ان کا ہاتھ تھامے۔وہ انہیں اس سیاسی گرداب سے نکلنے کے لیے صائب مشورہ دے سکتے تھے اور ان کے سکون اور سدھار کے لیے نسخہ بھی تجویز کر سکتے تھے۔اس وقت عملاً میں کچھ نہیں کر سکا۔بس ایک ہی راستہ باقی تھا۔ نوافل اور اللہ تعالیٰ سے دعا۔اپنی بے اعمالیوں کے نتائج جب دروازے پر دستک دیتے ہیں تو ان لمحوں میں بھی امید کا ایک در کھلا رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا درِرحمت جو کبھی بند نہیں ہوتا۔
ایک عام آ دمی بھی جانتا ہے کہ زندگی ہماری آرزوئوں کی غلام نہیں۔ہم ان کی تلاش میں نکلتے ہیں تو یہ سوچ کر کہ ناکامی کی صورت میں ہمارے پاس متبادل کیا ہو گا۔فوجیں یہی کرتی ہیں، عام آ دمی یہی کرتا ہے اور سیاست دان بھی۔عمران خان جب لانگ مارچ کے لیے گھر سے نکلے تو ان کے پاس کوئی متبادل نہیں تھا۔ ان کے نزدیک یہ نوشتۂ دیوار تھا کہ دس لا کھ اسلام آباد میں جمع ہوں گے اور پھرنظام ِ ریاست مفلوج ہو جائے گا۔ وہ عوام سے فاتحانہ خطاب فرمائیں گے اور پھر حکومت ان کے گھر کی لونڈی ہوگی۔جب ایسا نہیں ہو سکا توایک شدید مایوسی نے ا نہیں گھیر لیا۔متبادل کے بارے میں چونکہ انہوں نے کچھ سوچا نہیں تھا، اس لیے مراقبے میں چلے گئے۔ بارہ گھنٹے کے سوچ بچار کا حاصل ہمارے سامنے آیا تو وہ سول نافرمانی کی تحریک تھا۔یہ وہ تجویز تھی جسے ہجوم نے اسی وقت مسترد کر دیا۔مایوسی نے انہیں ایک بار پھر اپنے حصار میں لے لیا اور اس کا ایک نتیجہ وہ تقریر ہے جس سے میں نے اپنی بات کا آ غاز کیا ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟اس کا درست جواب تو ایک صاحبِ کشف دے سکتا ہے۔میرے علم کی حد تک انسان بعض اوقات اس کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جو کچھ اس کے ذہن میں ہوتا ہے، وہ یقین کرنے لگتا ہے کہ عالمِ واقعہ میں بھی ایسا ہی ہے۔وہ اپنی آ نکھوں سے اس کے بر خلاف دیکھتا ہے اورپھر بھی یقین نہیں کرتا۔عمران خان یہ مان کر نہیں دے رہے کہ ان کے سامنے لاکھوں کا نہیں،چند ہزار کا مجمع ہے۔اس سے کوئی انقلاب نہیں آ سکتا۔رہی بد امنی اور
فساد تو اس کے لیے یہ ہجوم کفایت کرتا ہے۔ اب اگروہ ریڈ زون کی طرف بڑھتے ہیں تو فساد یقینی ہے۔اللہ کرے کہ آنسو گیس ہی سے مسئلہ حل ہو جائے۔ طاہرالقادری صاحب کا حال بھی یہی ہے۔وہ بھی یہی یقین کیے بیٹھے ہیں کہ اس قوم نے انہیں خمینی صاحب کے منصب پر بٹھا دیا ہے۔ایک آدھ دن میں اسلام آ باد کی شاہراہیں بھی وہی منظر پیش کر یں گی جو1979ء میں تہران کی سڑکوں پر دکھائی دیے تھے۔ ان کے دیس سے شاید انہیں امید کی ہوائیں بھی آتی محسوس ہو رہی ہیں۔ان کا ہجوم زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔کیوں کہ وہ مذہبی ہے اور انہیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ وہ خانوادۂ حسینی کے نقش ِقدم پر رواں ہیں۔ اس کے باوصف مجھے خیال ہو تا ہے کہ طاہر القادری صاحب سے معاملہ کیا جا سکتا ہے۔
کچھ بھی ہو‘ یہ طے ہے کہ آج ہم ایک 'نیا پاکستان ‘ دیکھیں گے۔ ایسا پاکستان جس میں بعض بنیادی باتیں طے ہو چکی ہو ں گی۔ایک یہ کہ اس ملک کو اب آئین کے اہتمام میںچلنا ہے یا کسی انقلابی ٹیم کی قیادت میں۔دوسرا یہ کہ تحریکِ انصاف کا مستقبل کیا ہے؟اسے بحال ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟اسی طرح یہ سوال بھی اٹھنا شروع ہو جائے گا کہ طاہر القادری صاحب کس پرواز سے کینیڈا جارہے ہیں ؟اس کے ساتھ رائے سازوں کو بھی اب نئے سوالات کو موضوع بناناہوگا۔گزشتہ ایک ہفتے میں جس طرح ایک بال کی کھال اتاری گئی، اس کے لیے ٹی وی اینکر بہر حال ہماری تعریف کے مستحق ہیں۔انہوں نے بھی معاملے کے ایسے ایسے پہلوئوں کو بے نقاب کیا ہے کہ ہمارے قدیم فقہا سنیں تو دنگ رہ جائیں۔ہماری فقہ کی کتابوں میں قیاس کے گھوڑے دوڑتے ہیں تو انہیں روکنا مشکل ہو تا ہے۔ہمیںیہ مسئلہ بھی ملتا ہے کہ اگر کسی ہیجڑے کے ہاں بچے کی پیدائش ہو جائے تواس کا نسب کیسے طے ہو گا۔ گزشتہ ایک ہفتے میں ٹی وی پروگراموں میں اس طرح کی اتنی ولادتیں ہوئیں کہ قیاس کا دامن بھی تنگ پڑنے لگا۔ اس لیے اب ضرورت ہوگی کہ نئے مو ضوعات پر بات کی جائے۔
میرا خیال ہے کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف پر بہت کچھ لکھا جا چکا۔اب مو ضوعِ سخن حکومت کو بننا چاہیے۔اب یہ سوال زیرِ بحث آنا چاہیے کہ ہم جس جمہوریت کی دہائی دے رہے ہیں، وہ عوامی مسائل حل کر نے میں کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔ حکومت اگر اس بحران سے سلامت نکل جاتی ہے تو اسے سجدۂ شکر بجا لا نا چاہیے۔ حکومت کا فرض یہ ہے کہ وہ اس نظام کو عوام کی بھلائی کے لیے یکسو کر دے۔حکمران خود کو فی الواقعہ عوام کاخادم جانیں۔ وہ اپنے آپ کو عملاً اللہ تعالیٰ اور عوام کے سامنے جواب دہ سمجھیں۔ یہ سب کیسے ہو سکتاہے، اب تجزیے اور تبصرے کا موضوع یہ سوالات ہو نے چاہئیں۔ پھر شاید ہم کہہ سکیں کہ ایک نیا پاکستان وجود میں آ چکا ہے۔میں عمران خان کوبھی اس نئے پاکستان میں متحرک دیکھنا چاہتا ہوں۔لیکن اس کے لیے انہیں کم ازکم ایک بار پروفیسر رفیق اخترسے ملنا پڑے گا۔