پڑھے لکھے لوگ بھی جب جذبات کی منڈی میں اپنی دکان کھول لیں تو آ دمی سوچتا ہے کہ عقل و استدلال کا سودا لینے کہا جائے؟
اس ملک میں آئین ہے، جمہوریت ہے اورنظام بھی۔اس مقدمے کے حق میں ان گنت شواہد مو جود ہیں۔
٭ یہاں حکومتیں کسی قاعدے اور ضابطے سے بنتی اور ختم ہو تی ہیں۔آصف زرداری صاحب پانچ سال کے لیے صدربنائے گئے۔وہ اس سے ایک دن زیاد ہ ایوانِ صدارت میں نہیں گزار سکے کہ آئین نے اس کی اجازت نہیں دی۔عوام نے ان کی پانچ سالہ کارکردگی کو پرکھا اور پھر مسترد کر دیا۔ایک سال پہلے اے این پی، خیبر پی کے میں حکمران تھی۔ آج ایک بھولی بسری داستان ہے۔اسے کس نے اقتدار سے الگ کیا؟آئین اور قانون نے۔
٭ پاکستان میں عدالتیں مو جود ہیں اور اپنے فیصلوں میں آ زاد ہیں۔یہاں منتخب وزیراعظم کو عدالت میں طلب کیا جا سکتا ہے اور ہم نے اپنی آ نکھوں سے انہیں عدالت کے کٹہرے میں کھڑادیکھا۔آج بھی عدالت بیک جنبشِ قلم وزیر اعظم کے فیصلوں کو مسترد کر تی ہے اورپھر وہی ہو تا ہے جوعدالت چاہتی ہے۔ملک میں ہر روز ہزاروں فیصلے دیے جاتے ہیں اور ان پر عمل در آ مد بھی ہو تا ہے۔سیشن کورٹ سے سپریم کورٹ تک، ایک عدالتی نظام ہے جہاں ہزاروں جج عدالت لگاتے اور لاکھوں وکلا اپنے اپنے مو کلوں کی پیر وی کے لیے پیش ہوتے ہیں۔عوام کی غیر معمولی اکثریت اس عدالتی نظام پر اعتماد کر تی اور ان سے فیصلے لیتی ہے۔کچہریوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہو تی۔اس کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک نظام مو جود ہے اور لوگ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
٭اس ملک میں ایک عام ذہین نو جوان مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہوتا، سیکشن افسر سے افسر شاہی کے اعلیٰ ترین منصب تک، بغیر سفارش کے پہنچتاا ورپھراعیانی طبقے میں شمار ہو نے لگتا ہے۔اسی طرح ایک کلرک سے سرکاری نوکری کاآ غاز کر نے والا گریڈ اٹھارہ انیس تک پہنچ جاتا ہے۔کروڑوں افراد سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمت کرتے ہیں ۔انہیں بروقت تنخواہیں ملتی ہیں اور مراعات بھی۔کروڑوں لوگ پنشن لیتے ہیں اور ریٹائر ہونے پر لاکھوں روپے بھی۔یہ اس لیے ممکن ہے کہ یہاں ٹیکس کا ایک نظام ہے اور لوگوں کے دیے گئے ٹیکس سے یہ لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
٭ پاکستان کا ایک مضبوط دفاعی نظام ہے۔سات لاکھ کی فوج ہے اور ہم ایک ایٹمی قوت بھی ہیں۔ دنیا مانتی ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام ایک محفوظ نظام کے تابع ہے۔سب جانتے ہیں کہ ایٹمی پروگرام کی آب یاری آسان کام نہیں۔اس کے لیے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہے۔دنیا میں بہت کم ملک ہیں جو ایسے مہنگے پروگرام کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ہم کم و بیش چالیس سال سے کامیابی کے ساتھ اس پروگرام کو آگے بڑھارہے ہیں۔یہ سب ٹیکس کے پیسے سے ہو تا ہے۔فوج کا طاقت ور ادارہ بھی ایک قانون کے تحت چلتا ہے۔آئین یہ حق وزیر اعظم کودیتاہے کہ وہ سپہ سالار کا انتخاب کرے۔مادی طاقت فوج کے پاس ہے لیکن اس کے با وصف وہ خود سپہ سالار کا انتخاب نہیں کر سکتی۔وزیراعظم کو یہ اختیار آئین دیتا ہے اور فوج اپنی تما م طاقت کے باوجود اسے قبول کرتی ہے۔
٭ ایک قانون کے تحت یہاں تعلیم، میڈیا اور دوسرے شعبوں میں نجی ادارے قائم ہیں۔لاکھوں لوگ ان سے وابستہ ہیں۔یہ کسی قانون اور ضابطے کے تحت چلتے ہیں جہاں لوگوں کے حقوق و فرائض کا تعین ہوتاہے۔ اسی طرح ٹریفک کا نظام ہے، ریل کا ایک سسٹم ہے۔ہوائی اڈے ہیں جہاں بین الاقوامی پروازیں آتی جاتی ہیں۔ ہم دنیا بھر کے اداروں اور حکومتوں سے اربوں ڈالرز کے معاملات کرتے ہیں اورہمارے وعدوں پہ بھروسہ کیا جا تا ہے۔ہم ساری دنیا میں اپنے سفرا بھیجتے ہیں اور دنیا بھی جواباً ایسا کرتی ہے۔
٭اس ملک میں جمہوریت کا ایک مظہر،آزادمیڈیا بھی ہے۔وزیراعظم اور صدر سمیت، جس کے بارے میں آپ جو بو لنا اور لکھنا چاہیں، آپ کو پوری آ زادی ہے۔اس کا سچ ہو نا بھی ضروری نہیں ہے۔آج چاہیں تو بغیر تحقیق کے وزیراعظم کو بھرے جلسے میں کچھ بھی کہہ ڈالیں، کوئی آپ کو پوچھنے والا نہیں۔سارا دن ٹی وی چینل اعلیٰ ترین مناصب پر فائز لوگوں کو برا بھلا کہیں، کوئی ان کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے، یہاں تک کہ آپ سرکاری ملازم ہوتے ہوئے بھی،اپنے کالموں اور گفتگو میں،لوگوں کوسرکار اور نظام کے خلاف بغاوت پر اکسائیں، تب بھی آپ کی نوکری ختم ہوتی ہے اورنہ مراعات میں کمی آتی ہے۔کیا اس سے بڑھ کر آزادیٔ رائے کا کوئی تصور دنیا میں کہیں مو جود ہے؟
میں اس نوعیت کی مزید مثالیں بھی جمع کر سکتاہوں جو اس پر شاہد ہیں کہ پاکستان میں ایک آئین ہے، نظام ہے اور اللہ کے فضل سے جمہوریت بھی۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں کوئی خرابی نہیں۔ یقینا ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو آئین سے انحراف، قانون شکنی اور ظلم کی مظہر ہیں۔ان میں حکمران طبقہ ملوث ہے۔یہاں ایسے لوگ ہیں جو سرِ عام لوگوں سے کہتے ہیں کہ پاکستان میں اپنی رقوم بینکوں کے ذریعے نہیں، ہنڈی سے بھجوائیں۔ٹیکس نہیں دیتے اور ان سے کوئی پوچھتا نہیں۔یہ سب واقعات یہاں ہوتے ہیں اور کوئی ان سے انکار نہیں کر سکتا۔بسا اوقات تو آئین کی صف ہی لپیٹ دی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ انہیں کیسے ختم کیا جائے یا کم سے کم سطح تک لایا جائے؟عام آ دمی سے پوچھیں تووہ یہی کہے گا کہ اس نظام کو لپیٹ دیا جائے۔پھر کیا ہوگا؟اس کا جواب اس کے پاس نہیں اور اتنے دور تک سوچنے کے لیے وہ آ مادہ بھی نہیں۔لیکن کیا ایک پڑھے لکھے آ دمی کو بھی یہی کرنا چاہیے؟کیا یہ اس کی ذمہ داری نہیں کہ وہ اصلاحِ احوال کے لیے کوئی سنجیدہ تجویز سامنے رکھے؟کیا وہ بھی ہر دل عزیز بننے کی سطحی مہم کا حصہ بن جائے؟ٹی وی اینکر اور کالم نگار ریٹنگ کو اپنا ہدف بنا لیں؟ مجھے افسوس ہے کہ اب ایسا ہی ہونے لگا ہے، الا ماشااللہ۔پڑھے لکھے لوگ بتاتے ہیں کہ اس ملک میں تو کوئی آئین ہی نہیں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں قانون شکنی کے اکثر واقعات کا تعلق سماج کی اخلاقی ابتری سے ہے۔یہ معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کر چکی۔اس لیے میں اصرار کرتا ہوں کہ سماجی تبدیلی کے بغیر کوئی سیاسی تبدیلی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ایسا ہو تا تو 1979ء کے بعد کا ایران پہلے سے بہتر ہوتا۔خیبر پختون خوا ایک سال میں بدل چکا ہوتا۔ پڑھے لکھے لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوںہے؟ آج اس ملک میں آئین،نظام اور جمہوریت مو جود ہیں۔ہم انہیں بہتر بنا سکتے ہیں۔اس کے لیے ایک طرف سماجی تبدیلی کی ضرورت ہے اور دوسری طرف سیاسی و ریاستی نظام کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔اب اس بات کا امکان پیدا ہو چلا ہے کہ یہ نظام خود اپنی اصلاح کے لیے پیش رفت کرے۔ اہلِ دانش کو اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کا طریقہ یہ نہیں کہ مایوسی کو ہوا دی جائے اور قوم کوبے آئینی کے راستے پر ڈال دیا جائے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اصلاح کے مو جود امکانات کو نمایاں کیا جائے اور وہ کم نہیں ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ اس ملک میںآئین، جمہوریت اور سسٹم مو جود ہیں۔جہاں یہ نہیں ہوتے،لوگ اسے صومالیہ،عراق یا افغانستان کہتے ہیں۔
(پس نوشت: طاہرالقادری صاحب اور عمران خان کو اس وقت واپسی کا راستہ چاہیے۔ اپنی انا کی تسکین کے لیے وہ تصادم کی طرف جائیں گے۔انہیں اس سے روکنا چاہیے۔وزیراعظم کو قادری صاحب سے براہ راست ملاقات کر لینی چاہیے، اگر اس سے معاملہ ختم ہو سکتا ہے۔اس طرح کی پیشکش عمران کو بھی کی جا سکتی ہے)۔