ایک طرف برستاآ سمان اور شہرِ انقلاب کے بے سائباں مکین۔ دوسری طرف انقلابی قیادت اپنے اپنے عشرت کدوں میں محوِ آرام۔
ان بے سرو سامان لوگوں میں کوئی ایک بھی ا یسانہیں جو اٹھتا اور ان آرام گاہوں کے خلاف آواز اٹھاتا؟کوئی نہیں تھا جو احتجاج کرتاکہ ان لمحوں میں ،جب آسمان بے مہر ہے اور زمین بے نیاز تو ہمارے قائد ین کہاں ہیں؟کوئی ایک تو ہو تا جو پوچھتا کہ یہ کیسی قیادت ہے جو اُس وقت ساتھ چھوڑ جاتی ہے جب سورج آگ اگلتا ہے اور اس وقت بھی دکھائی نہیں دیتی جب آسمان برستاہے؟کوئی تو مطالبہ کرتا کہ ہماری قیادت اس وقت شامیانوں میں ہمارے ساتھ ہو۔کوئی تو اٹھتا اور کہتا کہ اس دھرنے کا رخ پہلے اس طرف ہو گا جہاں انقلاب کا ایک لیڈر محوِ استراحت ہے۔ کوئی تو آواز لگاتاکہ آؤاس عارضی عشرت کدے میں بھی جھانکیں جہاںانقلاب کا دوسرا لیڈر آرام فرما ہے۔جو انقلابی اپنے لیڈر کا احتساب نہیں کر سکتے، کیا وہ قومی قیادت کا احتساب کر پائیں گے؟وزیر اعظم ہاؤس کا رخ کرنے سے پہلے،کیا انہیں اس طرف نہیں جا نا چاہیے؟
برسات کی بو چھاڑوں میں، یہ دل ساری رات سلگتا رہا۔بے رحم موسم میں ٹھوکریں کھاتی ہربچی میں مجھے اپنی بیٹی کا چہرہ دکھائی دیتا تھا۔میں دیکھ رہا تھا کہ امید کے چراغ بجھ چکے۔حسرت باقی ہے اور یاس۔مجھے کئی بار یہ گمان ہوا کہ اب کوئی کنٹینر سے نمودار ہو گااور یہ انقلابی نعرہ بلند کرے گا:''میں جن لوگوں کے حقوق کے لیے نکلاتھا، انہیں اپنے ہاتھوں سے پامال نہیں کر سکتا ۔حالات سازگار ہیں اور نہ موسم ۔میںآپ کو مزید اذیت میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ آپ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں‘‘۔یا یہ آواز ابھرے گی: ''آج کی رات میں یہیںسڑک پر بسر کروں گا۔میںآپ کے سکھ ہی کانہیں، دکھ کا بھی ساتھی ہوں‘‘۔افسوس کوئی توقع پوری نہیں ہوئی۔ان بے امان لوگوں کاکوئی غم خوارسامنے نہیں آیا۔سیاسی رومان اور مذہبی استحصال شب بھر اپنے جوبن پر رہے۔بے حسی بال کھولے ناچتی رہی۔بچے بلکتے رہے۔مائیں خاموش زبان میںفریاد کرتی رہیں۔آسمان برستا رہا اورآنکھیں بھی۔
یہ سب کیا ہے؟لیڈر انقلابی ہو تا ہے یا سیاست دان۔انقلاب کسی اخلاقیات کا پابند نہیں ہو تا۔اس کا قانون اپنا ہوتاہے اور لائحہ عمل بھی۔اس کا کوئی آئین نہیں ہوتا۔ظاہر ہے کہ یہی صفات ایک انقلابی میں بھی ہو تی ہے۔سیاست دان قانون اور اخلاقیات کا پابند ہو تا ہے۔اس کی حدود ہوتی ہیں۔وہ بند گلی میں نہیں جاتا نہ کسی کو لے جا تا۔وہ راستہ نکالتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ اس زمین پر مطلق العنان کوئی نہیں ہو تا۔کوئی ایک ایسا نہیں کہ جس کی ہر بات مانی جائے۔سیاست میں کامیابی‘ منزل تک پہنچنا نہیں، پیش قدمی کا نام ہے۔یہی پیش قدمی منزل تک پہنچا تی ہے۔اب انقلابی تو یہ ہیں نہیں۔برسات نے سارا ملمع اتار دیا۔ان حضرات نے زبانِ حال سے بتا دیا کہ یہ سیاست دان بھی نہیں ہیں۔اگر یہ مقدمہ درست ہے تو پھر یہ کون ہیں؟کیا ان کا کوئی نام ہے؟
اس کا جواب پرو فیسر احمد رفیق اختر صاحب دیتے ہیں۔شب میں نے ان کی ایک گفتگو سنی۔ 24 اگست کوڈسکہ کے ایک اجتماع میں جب سوال کیا گیا توانہوں نے عمران خان اور طاہر القادری کے بارے ،میں اپنی رائے کااظہارکیا ۔پروفیسر صاحب ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے عمران خان کی عوامی پزیرائی میں کردار ادا کیا۔لوگ چونکہ ان کی دیانت اور بصیرت پر اعتبار کرتے ہیں اس لیے عمران کوان کی گواہی کا فائدہ ہوا۔پروفیسر صاحب نے بتا یا ہے کہ انہوں نے عمران خان کی حمایت کیوں کی اور پھر وہ کس رائے تک پہنچے۔ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ دھرنے پاکستان کے خلاف سازش ہیں۔ ایک صاحب دانستہ اور دوسرے نادانستہ اس کا حصہ ہیں۔ مقصود پاکستان کو کمزور کر نا اور اسے منحصر ریاست بنا نا ہے۔آج اگرچین کے صدر کا دورہ منسوخ ہو نے کی بات ہو رہی ہے تو اسے اسی سازش کا ایک نتیجہ کہنا چاہیے۔معلوم نہیں، پردہ ِ غیب میں اور کیا ہے۔پروفیسر صاحب کی یہ گفتگو مختلف ویب سائٹس پر میسر ہے۔
سازش کے پہلو سے اگر صرفِ نظر کر لیا جائے تو بھی اس مہم جوئی کے تباہ کن اثرات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔اقتصادی اور معاشی پہلو کے علاوہ،اس کے سماجی اثرات بھی کم تکلیف دہ نہیں۔رات میں ایک چینل پر خانیوال کے ایک خاندان کی داستان سن رہا تھا۔ایک خاتون کو اس وجہ سے طلاق ہوگئی کہ اس نے خاوند کے منع کر نے کے با وجود دھرنے میں شرکت کی اور کئی دن واپس نہیں آئی۔آج وہ تین بیٹیوں کے ساتھ بے آسرا ہے۔ مجھے اٹک کے ایک ذمہ دار آ دمی نے بتا یا کہ سات بچیاں دھرنے میں شرکت کے لیے گئیں۔ ان کے فون بند ہیں اور ان کے اہلِ خانہ شدید اذیت میں ہیں۔پروفیسر صاحب نے تبصرہ کیا کہ ایک طرف نئے بندھن وجود میں آرہے ہیں اور دوسری طرف طلاقیں ہو رہی ہیں۔سماج ہماری دلچسپی کا میدان نہیں۔یہاں اس دھرنے کے سیاسی اور اقتصادی جائزے لیے جا رہے ہیں لیکن سماجی نہیں۔ شاید کچھ عرصے بعد یہ معلوم ہو سکے کہ اس اقدام نے ہمارے معاشرے کو کس طرح اور کہاں تک متاثر کیا ہے۔میں بارہا یہ لکھ چکا کہ مختلف وجوہ کے باعث ہم بحیثیت قوم نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہیں۔ یہ وقت بتائے گا کہ بیس دن کی مسلسل ٹی وی نشریات نے، جو ابھی تک جاری ہیں، سماج کی تبدیلی میںکس طرح اپنا حصہ ڈالا ہے۔
اہلِ سیاست نے جس طرح مسائل کو حل کر نے کوشش کی ہے،اس پر بھی بہت سے سوالیہ نشانات ہیں۔ دونوں فریقوں کو جس طرح ایک پلڑے ،میں رکھا گیا ہے، وہ میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔یہ وہی طرزِ عمل ہے جو دیوبندی علما نے طالبان کے بارے میں اختیار کیا۔جب مذاکرات کا آ غاز ہوا تو مطالبہ کیا گیا کہ دونوں اطراف جنگ بندی کا اعلان کریں۔میں نے اس وقت بھی سوال اٹھا یا تھا کہ ریاست جب ہتھیار اٹھاتی ہے تو یہ حق اسے اخلاق اور قانون دیتے ہیں۔ غیر ریاستی عناصر کے لیے ایسا کوئی حق ثابت نہیں۔ اس لیے دونوں سے ایک مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی حکومت اورریاست دونوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔گویا دونوں کی طرف سے طاقت کا استعمال اخلاقی اور قانونی اعتبار سے ایک طرح کا معاملہ ہے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کو ممکن حد تک کوشش کرنی چاہیے کہ معاملہ طاقت کے استعمال کے بغیر سلجھ جائے۔میرا کہنا تو یہ ہے کہ ریاست نے اس معاملے میں طاقت کا کم از کم استعمال کیا ہے۔ اس بات کے شواہد مو جود نہیں ہیں کہ حکومت نے اس گھوڑے کو بے لگام ہو نے دیا ہے۔اگر کہیں ایسا ہوا ہے تو کسی ریاستی اہل کار کا ذاتی فعل ہو سکتا ہے۔چند دن پہلے تین افراد کی اگر جان گئی ہے تو اس پر سب کو افسو س ہے۔ ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ ایک جان تو گڑھے میں گرنے کے باعث ہوئی۔ دوکو گولیاں لگی ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کرائے۔اگر پولیس کے پاس اسلحہ نہیں تھا تو ان اموات کی ذمہ داری کس پر ہے؟
حالاتِ حاضرہ کو اب بدل جانا چاہیے۔پاکستان کی طرف بڑھتے خطرات ہمہ جہتی ہیں اوران میں اضافہ ہو رہا ہے۔شواہد چیخ رہے ہیں کہ یہ انقلاب نہیں، فساد تھا۔ایسا فساد جس نے ریاست اور سماج دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔قیادت اور مظاہرین میں انقلابی جذبہ ہے نہ سیاسی بصیرت۔انقلابی جذبہ ہوتا تو لوگ بنی گالہ کا محاصرہ کرچکے ہوتے اور پر آسائش کنٹینر الٹ چکے ہوتے۔ سیاسی بصیرت ہوتی تو مذاکرات سے حالات سلجھ چکے ہوتے۔یہ کچھ اورہے۔میرا خیال ہے، پروفیسر احمد رفیق اختر صاحب کے تبصرے میں اس کا جواب موجود ہے۔